Baseerat Online News Portal

یا کریم!! مولانا اکرم صاحب ندوی کو شفا عطا کر

 

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

 

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

ایک استاذ جس نے اخلاص و أخلاق اور یکسوئی کا سبق دیا ہو، ایک مربی جس نے تہذیب و ثقافت اور زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں منفرد پہچان رکھنے کی طرف گامزن کیا ہو، ایک رحم دل جس نے عملی میدان میں دل کی دنیا آباد کرنے، خود کو بنانے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کا ہنر سکھایا ہو، ایک مخلص جس نے بتایا ہو کہ میدان عمل میں خود کو ثابت کرنا، علمی صلاحیت و قابلیت کو اہمیت دینا اور دوبالا کرنا، نہ صرف خواص میں بلکہ عوام میں بھی خود کو ثابت کرنا، ان کے مفید بن کر انسانیت کیلئے کارآمد بننا اور ان کے درمیان رہ کر اپنا فیض پہنچانا ہی اصل خدمت ہے، ایک دانا جس نے وقت کی ضرورت اور حساسیت پر انگلی رکھ کر یہ باور کرایا ہو کہ تم اگر خود کو نہیں بناتے، شب و روز کا استعمال تعمیری طور پر نہیں کرتے، درجوں کی پابندی اور عرق ریزی و محنت کشی کا جام نہیں پیتے، میخانہ عشق میں خود کو مدہوش نہیں کرتے، گھونٹ گھونٹ سے گلہ تر کر کے بلکہ سینہ میں اتار کر علمی کشادگی اور وسعت قلبی نہیں پاتے تو اس عالم جنوں میں تمہارا کوئی کام نہیں، ایک ہمت ور جس نے یہ احساس دلایا کہ دوسروں کی بیسکھاکھی پر چلنے والے اور اپنی اندرونی و خوابیدہ صلاحیت کو کچلنے والے نہ صرف اپاہج ہوتے ہیں؛ بلکہ وہ بیک وقت ظالم اور مظلوم دونوں ہو کر دنیاوی کل پرزوں میں سب سے بیکار پرزہ ہوجاتے ہیں، ایک حلیم و بردبار جس نے نادانوں کی غلطیوں، لغزشوں اور لڑکپن کو برداشت کرتے ہوئے؛ اسے ایک مثبت پہلو پر لگا دینے والے جس نے یہ سکھادیا ہو کہ اگر انسان کے اندر غصہ ہی غصہ رہ جائے تو سمجھ لو اس کے اندر سے مغز نکل چکا ہے، وہ ایک ویران محل ہے، ایک بنجر زمین ہے، جس پر ہر بیج ضائع ہے، ساری محنتیں اور کاوشیں لغو ہیں، اسی طرح ایک مشفق اور مصلح جس نے نہ صرف درجات میں بلکہ مسجد میں نماز کے وقت، دارالاقامہ میں قیام کے دوران، دارالطعام میں کھانے پینے غرض سورج اور چاند کی گردش کے ساتھ جس نے کبھی گوشمالی کرتے ہوئے، کبھی ڈانٹ ڈپٹ اور شفقت و محبت، اپنائیت و دلجوئی کا جام پلایا ہو، ایک آٹھ سالہ بچے کی نگہداشت انیس/بیس سال کی عمر تک کی ہو اور قدم قدم پر لرزتے قدموں اور بھٹکتے اور بکھرتے احساسات اور شیطانی فریب کے دوران ثبات کا تحفہ گراں دیا ہو اسے اگر دفعتاً ICU میں دراز پائیں تو دل ودماغ پر کیا گزرے گی؟ نگاہیں کیا دیکھیں گی اور کان کیا سنیں گے؟

یہ مشفق و مکرم میرے استاد حضرت مولانا اکرم صاحب ندوی مدظلہ ( استاد دارالعلوم علامہ عبدالحی ندوی بھوپال) ہیں جو ان دنوں سخت علیل ہیں، LBM اسپتال میں زیر علاج ہیں، متعدد جسمانی امراض نے آگھیرا ہے، خصوصاً گردے، لیور اور پھیپھڑوں کا نظام اتھل پتھل ہوگیا تھا، آلہ تنفس لازمی ہوگیا تھا، کچھ دنوں قبل تو حالت زار تھی، اب الحمد للہ افاقہ ہے، مولانا کی عمر پچاس سے متجاوز نہیں، وہ علم دوست، خدا پرست، عمدہ اخلاق، نیکیوں میں سبقت کرنے والے اور دینی کاموں کے قدران ہیں؛ ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، لیکن طبیعت کی خرابی نے آپ کو نڈھال کردیا کردیا ہے، مگر ناامید نہیں، واقعہ یہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے مولانا کی طبیعت و أحوال سن کر دلی بے قراری اور بے چینی کا سامنا تھا، اکثر دل نکلا جاتا، اور کلیجہ منہ کو آتا کہ ایک استاد جس نے دارالعلوم تاج المساجد بھوپال کے زمانہ طالب علمی میں سالہاسال محبتوں اور عنایتوں کی بارش کی اور جن کی انگلی تھام کر کتب بینی؛ بلکہ زمانہ بینی کا ہنر پایا وہ بھلا کیسے قدرت کے ہاتھوں مجبور اور قید حیات کی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے؛ لیکن شومی نصیب عیادت کا موقع نہ مل پاتا تھا، ادھر گزشتہ کل دارالعلوم عبدالحی حسنی جنسی جہانگیر آباد جانا ہوا، وہاں ناظم اعلی، فعال شخصیت، امت کے ہمدر اور سوز دل کے مالک حضرت مولانا معاذ صاحب ندوی اور بھوپال کی چیدہ و برگزیدہ شخصیت استاذ محترم مولانا محبوب عالم صاحب ندوی اور افق علم کے سورج مولانا شمش الدین ندوی، مولانا وسیم عبداللہ ندوی نیز عزیز دوست مولوی جاوید ندوی بمولیہ وغیرہ کی معیت، اور ان سب کی بے تکلفی کے دوران مولانا کی طبیعت کا تذکرہ ہوا، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ نوجوان اور متحرک عالم دین، ہمارے سینئر، خانوادہ عمرانی (فخر بھوپال حضرت مولانا عمران خان ندوی ازہری رحمہ اللہ) کے چشم و چراغ اور دارالعلوم سید ابوالحسن علی ندوی بھوپال کے ناظم اعلی مولانا قاسم صاحب ندوی کی بھی طبیت خراب ہے، اور LBS میں داخل ہیں، ایسے میں رفقائے قدیم، جان و عزیز برادرم عمران ندوی (العصر اکیڈمی کوہ فضا، بھوپال)، عثمان ندوی (استاذ دارالعلوم تاج المساجد، بھوپال)، مولوی عامر سئیل پور (استاد مدرسہ نداء الصفا للبنات) کے ہمراہ عیادت کیلئے نکلے، یہ عیادت کیا دل کا خون کرنا تھا، اپنے مربی و مشفق کو ICU میں یوں دراز دیکھنا تھا جس سے دل چھلنی ہوجائے، علیک سلیک کے بعد یہ بات قابل اطمینان تھی کہ طبیعت روبہ بحال ہے، ایک مختصر ملاقات کے بعد لوٹتے ہوئے "کادت النفس تزھق” کی کیفیت تھی، لیکن مولانا قاسم صاحب کے سلسلہ میں علم ہوا کہ آپ کرونا پازیٹو ہیں، اگرچہ طبیعت میں سدھا ہے مگر عیادت کی اجازت نہیں؛ لیکن دونوں بزرگوں کیلئے راقم کا رواں رواں بارگاہ کریم کی کرم فرمائی کی متلاشی ہے، اے اللہ اپنے قاسم و اکرم کو مکرم کر، انہیں شفائے عاجلہ و کاملہ نصیب کر، دین کے سپاہی اور دنیا کے بجھتے مخلص چراغوں میں ان چراغوں کی حفاظت کر!

 

Comments are closed.