Baseerat Online News Portal

یوم جمہوریہ اور توقعات وخدشات

احمد حسین قاسمی استاد دارالعلوم حسینیہ اسلام پور
ہمارا ملک ہندوستان ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور اسکے چند وجوہات ہیں اس ملک میں مختلف مذاہب متنوع کلچر تہذیب وروایات بستے ہیں یہاں مسلموں کے کندھے پر ہندووں کا ہاتھ ہوتاہےاور ہولی دیوالی میں مسلمان چراغاں کرتے ہیں اور برادران وطن کے قدم بقدم چلتے ہیں یہاں ہندو عید کی مبارکبادیاں دیتے ہیں اور سویاں کھاتے ہیں اور مسلمان انکے تہواروں ہولی دیوالی چھٹھ کے مواقع پر انکو مبارکبادیاں دیتے ہیں اور رفیق کار ہوتے ہیں یہاں پر مختلف موسموں میں مختلف تہواروں کے موقعوں پر مختلف الانواع تقریبات کا انعقاد عمل میں آتا ہے یہاں پر آسمانوں سے سرگوشیاں کرتا پربت ہمالہ ہے یہاں گنگا جمنا سرسوتی کا سنگم ہے یہاں دیگر ممالک اور اقوام عالم کے مقابلے شفافیت اور سادگی ہے یہاں پر لوگ ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں یہاں پر اکابرین کا احترام اور اصاغرین کی فکریں ہوتی ہیں ہمارا ملک عالی افکار اور وسیع الظرف ہے ہمارا ملک جسم کے اعضا ٕ کے مرکب کی طرح ہے یہاں پر دکھوں اور سکھوں کو با ہم تقسیم کیا جاتا ہے ہمارے ملک کو زمانہ سابق میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا مال و دولت کی افراط تھی چہار دانگ عالم میں اس کا سکہ چلتا تھا ہرسو شہرت وعزت تھی کبھی مغل آئے، کبھی خلجی کبھی غوری سب کو میرے مادر وطن نے اپنے دامن میں جگہ دی اپنا یا اور حکومت وسلطنت کے اعلی مقام پر جلوہ نما فرمایا حیف کہ جب ہمارا ملک ہر لحاظ سے خوش حال زندگی گزار رہاتھا نہ جانے کس طرح ہمارا یہ ملک عزیز گورے انگریزوں کی بد نیتی کا شکار ہوا اور اہل ہند غلام بنا لئےگئے اور انہوں نے اہل ہند پر خوب مصائب وآلام کے تیر برسا ۓ اور اہالیان ہند کو ہراساں وپریشاں کیا بالآخر غیرت وحمیت جاگی طوق غلامی سے آزادی کا جزبہ پیدا ہوا اور مئے حریت سے مخمور ہوکر اتحاد اتفاق کے پلیٹ فارم سے مجاہدین نے اوربطل حریت نے انگریزوں کو یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا الغرض بڑی کاوشوں کوششوں جانفشانیوں کے بعد 15 اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کے قبضہ وتسلط سے آزاد ہوا آزادی کے بعد متصلاً بہی خواہان ملک کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ ہمارا ملک کس منہج پر اور کس لحاظ سے آگے بڑھےاسکے قوانين اور آئین کیا ہوں کیا حسب سابق پرانے قانون پر ملک چلتا رہے جو مغلوں کا بنایا ہوا اور فرنگیوں کا ترمیم کردہ ہے یا نئے سرے سے قوانین و ضوابط مرتب کئے جائیں مختلف آرائیں سامنے آئیں بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک قانون ساز کمیٹی تشکیل دی جائے اور ایسا ہی ہوا اس وقت کے عظیم دانشوروں کی ایک جماعت کو جس میں این گوپال سوامی آینگر اللادی کرشن سوامی ایر کنہیا لال منیکلال منشی سید محمد سعد اللہ این مادھو راو ڈی پی کھیتان کو تیار کیا گیا جس کا سربراہ بابا صاحب امبیڈکر کو بنایا گیا اور انکے ذمے قانون سازی کی ذمہ داری دی گئی۔ الغرض ان حضرات کا تیار کردہ قانونی مسودہ جرح وتعدیل کے مختلف مراحل سے گزر کرقانونی اور حتمی شکل اختیار کرگیا جس کومجلس عاملہ میں پاس کرانے کے بعد 26 جنوری 1950 کو ہندوستانیوں پر نافذ کردیا گیا جس کی نسبت پر اس دن ہند کے مشرق ومغرب میں تعطیل رہتی ہے اور بلا امتیاز مذہب وملت خوشیاں منائی جاتی ہے بابا صاحب کے مرتب کردہ قوانین میں ہر فرقے، طبقے ہر قوم وجماعت کا خیال رکھا گیا تھا سب کو برابر کے حقوق دئےگئے تھے سب کو اپنا مقتدا اور رہنما منتخب کرنے کا حق دیا گیا تھا لسان تہذیب وثقافت مذہب وملت کی آزادی دی گئی تھی ہر کسی کو اپنے مناسب رضامندی سے جیون ساتھی چننے کا ادھیکار دیا گیا تھا نئے ہندوستان کے بانیوں کو اس قانون سے جو توقعات اور امیدیں تھیں یہ اس پر کھرا اترا اور ایک نیا طاقتور ہندوستان معرض وجود اور منصہ شہود میں آیا ہندو مسلم اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے رہے اور اپنے منازل طے کرتے رہے لیکن چند سالوں سے بابا صاحب کے قانون کا جنازہ نکالا جارہاہے جمہوری اقدارکی تحفظ سے صرف نظر کیا جارہاہے مذہبی آزادی اوڑھنے پہننے کی آزادی بولنے کی آزادی راے قائم کرنے کی آزادی اپنے مذاہب وملل کے اشاعت کی آزادی سب چھنتی جارہی ہے اور ایک مخصوص نظریہ کو سارے ہندوستانیوں پر تھوپنے کی جبراً کوششیں ہورہی ہے ایسا خدشہ ہورہا ہےکہ ملک جمہوری نظام اور سیکولر اسٹیٹ سے منحرف ہوکر کسی اور جانب سرگرم سفر ہے ،آرایس ایس کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہاہے ،ملک دشمن طاقتیں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش کررہی ہے ،سرکاری اداروں کا غلط اور بیجا استعمال ہورہاہے ،ملک ایک مخصوص طبقہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے جو کہ ملک کے مستقبل کے لئے بڑے خسارہ کی بات ہے، آفرینندہ جہاں اس وطن عزیز کو بربادی،اور بدنامی کی تقسیم سے بچائے،اورباشندگان ہند آنے والے یوم جمہوریہ کے موقع پر متحدہ پلیٹ فارم سے تحفظ جمہوریت کا پیغام دے ۔

Comments are closed.