Baseerat Online News Portal

5 ؍ اگست، بھارت کی تاریخ کے سیاہ باب میں اضافہ

ڈاکٹرسیّد احمد قادری
رابطہ:8969648799
5؍ اگست 2020 ء سیکولر بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ اس دن ’ سیکولر ‘ کہے جانے والے ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مغل بادشاہ بابر کے حکم پر میر باقی کے ذریعہ 1527-28 ء میںتعمیر کی گئی اورہندو شدت پسند مذہبی جنونیوں کے ذریعہ 6 ؍دسمبر 1992 ء کومنہدم کی گئی بابری مسجد کے ملبہ پر ، اس مسجد کے لئے شہید ہونے والے ہزاروں مسلمانوں کی لاشوں پر اوراعتدال پسند و سیکولرازم پر یقین رکھنے والے کروڑوں ہندوؤں کے احساسات اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو کچلتے ہوئے صدیوں پرانی بابری مسجد کو رام جنم بھومی کا نام دے کر بھومی پوجن کے بعد رام مندر کی سنگ بنیاد رکھی ۔ اس سنگ بنیادسے بھارت کی بہت سارے مظالم ، حق تلفی اور ناانصافیوں کے خون چکاں داستانوں بھری تا ریخوں میں 5 ؍ اگست 2020 ء کی تاریخ کااضافہ ہو گیا۔ وزیر اعظم ہندرام جنم بھومی رام مندر کے بھومی پوجن میں پورے سو کروڑ روپئے کے سرکاری سج دھج میں شریک ہوئے ۔ بابری مسجد کے ملبہ پر اب سرکاری خزانہ کے 700 کروڑروپئے سے رام مندر کی تعمیر نو ہوگی،جس میں251 فٹ اونچائی کا رام کا مجسمہ کھڑا کیا جائے گا۔ ملک میں پھیلے کورونا ماتم کے درمیان اس مذہبی جشن کو ہر لحاظ سے تاریخی بنانے کی پوری کوشش سرکاری طور پر اس طرح کی گئی کہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی رام مندرمیں تبدیل کرنے نیزاس کی تعمیر نو میں صرف اورصرف ملک کے وزیر اعظم نریند مودی کا ہی رول ہے ۔ حالانکہ مودی اور ان کے چاہنے والوں کی اس ذہن سازی اور امیج سازی پر بی جے پی کے ہی سینئر رہنما سبرا منیم سوامی نے یہ کہہ کر پانی پھیردیا ہے کہ بابری مسجد کو رام مندر بنانے میں نریندر مودی کا کوئی رول نہیں ہے ، اگر سرکردہ رول اس سلسلے میں کسی کا ہے تو وہ سابق کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کا ہے ۔اس امر کا اعتراف کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجئے سنگھ نے بھی کیا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ 22-23 ؍ دسمبر 1949ء کی شب میں بابری مسجد کے اندر رام کی مورتی زبردستی رکھ دی گئی تھی ۔ جس پر کافی ہنگامہ ہو اتھا۔ اس غیر قانونی حرکت و عمل پر اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی شدیدبرہمی کا شدید اظہار کرتے ہوئے، وزیر اعلیٰ وقت،اتر پردیش گووند ولبھ پنت اور مرکزی وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل سے باز پرس کرتے ہوئے بابری مسجد میں زبردستی اور راتوں رات دھوکے سے رکھی گئی مورتی کو بلا تاخیر ہٹانے کی ہدایت دی تھی اور پنت کو لکھا تھا کہ ’’ I am disturbed at development in ayodhya, dangerous example is being set there. ‘‘ اس طرح اپنی پریشانی بتانے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کی، کی گئی گزارش پر حکومت اتر پردیش کے چیف سکریٹری بھگوان سہائے اور انسپکٹر جنرل آف پولیس بی این لاہری نے فیض آباد ضلع انتظامیہ کو فوری طور پر بابری مسجد کے اندر دھوکے سے رکھی گئی موری کو ہٹانے کی تاکید کی بھی تھی ۔لیکن فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے کے نائیر نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ وقت گووند ولبھ پنت سے ہنگامہ بھڑک جانے اور بے قابو ہوجانے کا بہانہ بنا کر نہ صرف بابری مسجد سے زبردستی رکھی جانے والی رام کی مورتی کو ہٹانے سے صاف انکار کر دیا تھا ،بلکہ ہنگامہ کا خوف بتا کر مسجد کے اندر ہو رہی نماز کو بند کرا کر میں تالا لگا دیا تھا ۔ فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ کے کے کے نائیر کے اس حکم عدولی کا بعد میں انھیںبڑاسیاسی فائدہ پہنچا اور اس شخص کو ہندو توا سیاست میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ۔ کے کے کے نائیر کو سیاسی فائدہ ضرور ہوا لیکن اس شخص نے بابری مسجد ،رام مندر کو متنازعہ بنانے کے لئے ایسی چنگاری بھر دی جو دن بدن سلگتی رہی ۔ اس درمیان بابری مسجد کی بازیابی کے لئے مسلسل مسلم رہنماؤں کے ذریعہ کوششیں ہوتی رہیں ۔( جس کی تفصیل لاکھوں صفحات پر درج ہیں ، یہ بھی حقیقت ہے بابری مسجد کی حق تلفی اور نا انصافی کے خلاف جتنا کچھ لکھا گیا ہے ، شائد ہی کسی دوسرے موضوع پر لکھا گیا ہو) ملک میں آزادی کے بعد ہندو مہاسبھا اور دیگر فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں مسلسل ملک کے اندر مذہب کے نام پر انتشار ، افراتفری اور تشدد کو بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ملک کے ہر انتخاب کے وقت بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا قضیہ ہر حال میں سامنے لایا جاتا ،تاکہ ہندو اکثریت کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کے ووٹ سے وہ کامیاب ہو سکیں۔ 1984 ء میں رام جنم بھومی مندر کو الیکشن کا زبردست ایشو بنانے کے لئے لال کرشن ایڈوانی کی قیادت میں تحریک مندر کی شروعات ہو گئی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رام کے نام پر ملک بھر میں سینکڑون کی تعداد میں مندر یں موجودہیں ، لیکن ایک تاریخی بڑی مسجد کے ملبہ پر مندر کی تعمیر کا جو سیاسی فائدہ تھا ۔ وہ ملک کی دوسری رام مندروں میں کہاں تھا ۔ گرچہ مختلف تاریخ دانوں نے یہ بات پوری طرح ثابت کر دیا ہے کہ رام کا جنم (پیدائش) ایودھیا میں نہیں ہوا ۔ بعض مؤرخوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ رام ایک اساطیری کردار ہے ، جو کہ گوسوامی تلسی داس کی تصنیف رام چرتر مانس کے اوراق تک محدود ہے ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح بہت سارے ناولوں میں ایسے زندہ جاوید کردار نظر آتے ہیں ۔ قدیم یونانی اساطیر اور قدیم یونانی مذہب میں اپنے مختلف مقاصد کے لئے اپنے معبودوں مثلاََ وینس جو کہ یونان کی حسن و محبت کی دیوی یا پھر ایولون(اپالو) جسے سورج کا دیوتا کے ساتھ ساتھ روشنی،صحت،شفا،موسیقی، شاعری پیشن گوئی وغیرہ کا دیوتا مانا گیا ، آریز کو جنگ ،خون ریزی اور تشدد کا دیوتا تسلیم کیا گیا ۔زیوس کو تو سارے دیوتاؤں میں فوقیت حاصل ہے۔ اساطیر میں اسے دیوتاؤں کا سرتاج تصور کیا جاتا رہا۔ زیوس کو تمام دیوی دیوتاؤں کے مقابلے سب سے زیادہ طاقت ور اور طوفان و آسمانی بجلی پر اس کی گرفت کو یقینی تصور کیا جاتا تھا ۔ مختلف مذاہب میں ایسی ہزاروں مثالیں بھری پڑی ہیں جن میں تصویریں بنانے اور مجسمے تراشنے کی تاریخ موجود ہے ۔ بہرحال 1949 ء میں بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھے جانے کی وجہ سے شر پسندوں کو ایک بڑا اہم مدعا مل گیا تھا ۔ اس درمیان کانگریس کے رہنماوں نے کانگریس کو اپنا ہندو امیج بنانے کے لئے بھی رام مندر کا ہی سہارا لینا پڑا اور اپنے کچھ غلط مشیرکاروں کے مشورہ پر کانگریسی وزیراعظم وقت راجیو گاندھی نے یکم فروری 1986 ء کو بابری مسجد کا کئی دہایوں سے لگا تالا کھلوا کر اس کے اندر پوجا پاٹھ کی اجازت بھی دے دی ۔ اس فیصلہ کا مسلمانوں نے زبردست مخالفت کی،لیکن بڑے پیمانے پر ہندو شدت پسندوں نے خیر مقدم کیا اور اس طرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کئے جانے کی راہ ہموار کر دی گئی ۔ لیکن اس میں کئی قانونی بندشیں تھیں ۔پھر بھی پوجا کئے جانے کی اجازت مل جانے سے ان لوگوں کے حوصلے کافی بڑھ گئے ۔ جس اثر یہ دیکھنے کو ملا کہ 1989 ء میں وشو ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ کر مندر بنانے کا دعویٰ کر دیا ۔ اس عمل سے وشو ہندو پریش کو زبردست چندہ ملنا شروع ہو گیا اور وشو ہندو پریشد مالا مال ہو گئی ، بعد میں اسی دولت کو لے آپس میں ہی کافی اختلاف ہو گیا ۔رام مندر سے ہوتے سیاسی فائدے کو دیکھتے ہوئے پورے ملک کے اندر مذہبی جنون پیدا کرنے کے لئے ایل کے ایڈوانی نے 25 ستمبر 1990 ء سیسومناتھ مندر سے ایودھیا تک رتھ یاترا کی شروعات کر دی ۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور فساد ہونا شروع ہو گیا ۔ آخر کار 23 ؍ اکتوبر 1990 ء کو بہار کے وزیر اعلیٰ وقت لالو یادو نے اڈوانی کے فرقہ پرستی اورمذہبی جنون کے بڑھتے رتھ کو روک دیا اور اڈوانی کو گرفتار کر بہار کے شہر سمستی پور میں نظر بند کر دیا ۔ جس کا فرقہ پرستوں نے خوب سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ اسی درمیان بابری مسجد کے گنبد پر کچھ کار سیوک چڑھ گئے اور ایک گنبد کو توڑ کر اس پر بھگوا جھنڈا لہرا دیا ۔ اس غیر آئینی، غیر جمہوری ، غیر قانونی حرکت سے ملک کے مذید کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ دنگے بھڑک گئے اور بہت سارے انسانی جانوں کا نقصان ہوا ۔ ان کوششوں سے بی جے پی کو مسلسل سیاسی فائدہ پہنچ رہا تھا ۔ 1991 ء کے انتخاب میں کلیان سنگھ کی سربراہی میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بھی قائم ہو گئی اور اس وقت نرسمہا راؤ ملک کے وزیر اعظم تھے ،جو بظاہر کانگریسی تھے ،لیکن اندر سے وہ پوری طرح زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔ راؤ اور کلیان کے درمیان اندر ہی اندر خاموش اور منظم سازش تیار ہوئی اور وشو ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل اور شیو سینا کے رہنماوں مثلاََ ایل کے اڈوانی ، اشوک سنگھل ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی، سادھوی رتمبرہ، ونئے کٹیار، پروین توگڑیا، اور کلیان سنگھ کی کوششوں ملک بھر سے دو لاکھ سے زائد مذہبی جنون سے بھرے لوگ 6 ؍ دسمبر 1992 ء کو پوری تیاری کے ساتھ ایودھیا میں یکجا ہوئے اور بڑے منظم طریقے سے بابری مسجد کو آخر کار شہید کر دیا گیا ۔ جس کی پوری دنیا نے شدید مذمّت کی ، بہت سارے سیکولرزام پر یقین رکھنے والے ہندو بھائیوں نے بھی بابری مسجد کے انہدام پریہ کہنے پر مجبور ہو ئے کہ مسجد کے انہدام پر ہم شرمندہ ہیں ۔ فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھتے گئے اور یہ لوگ فرقہ واریت کا زہر پورے ملک میں پھیلانے میں کامیاب ہو رہے تھے ۔ گرچہ یہ تمام کے تمام لوگ جس عبرتناک حشر کو پہنچے ،وہ بھی سامنے ہے۔ ملک کے طول و عرض سے آپسی اتحاد و اتفاق ،یکجہتی، رواداری، محبت و پیار کے ختم ہو رہے احساسات و جذبات کی فضا میںاضافہ ہوتا گیا ، جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے انسانی جانوں اور ملک کے قیمتی اثاثوں کی تباہی و بربادی ہوتی ۔ اس درمیان گجرات ماڈل تیار ہو گیا اور ممبئی کے بعد مارچ دو ہزار دو میں گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فساد کرایا گیا ، جس میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا ۔ اس قتل عام کا ہی یہ صلہ ہے کہ 2014ء میں پورے ملک میںتقریباََ برسر اقتدار آ گئی اور اس نے اتنی طاقت بنا لی کہ ملک کے اندر اس کا ہر طرف دبدبہ ہو گیا ۔ کیوں ہوا اور کیسے ہوا ، اس کی الگ تفصیل ہے ۔اسی بڑھتی سیاسی طاقت کا ہی نتیجہ ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور دیگر قانونی شعبوں کی ساری کوششوں کے باوجود 9 نومبر2019 ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے تمام استدلال کو درکنار کرتے ہوئے، ہندو عقیدہ کو فوقیت دیتے ہوئے نیز یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے ، مسجد کے اندر راتوں رات ایک سازش کے تحت رام کی مورتی رکھنے اور اس مسجد کو منہدم کیا جانا غیر قانونی اور مجرمانہ عمل تھا ، 1949 ء تک مسجد کے اندر نماز ادا کئے جانے کو بھی تسلیم کیا ۔ لیکن ہمارے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر حکومت کی ایک دھمکی کا اس قدر خوف اور راجیہ سبھا کی ممبری کا کیا گیا وعدہ اتنا حاوی رہا کہ وہ سب کچھ بابری مسجد کے حق میں مانتے ہوئے بھی اپنے ایک ہزار صفحات میں تمام دستاویزوں ، شواہد ، استدلال کے باوجود ، رام کے چاہنے والوںکی آستھا( مذہبی عقیدہ)کی بنیاد پر اپنا فیصلہ مسجد کے خلاف اور مندر کی حمائت میں صادر کر دیا ۔ اس فیصلہ کے بعد چیف جسٹس کی جس قدر تنقید کی گئی ، عدلیہ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس گانگولی نے گوگوئی کے اس غیر منصفانہ فیصلہ کے بعد کہا تھا کہ اس فیصلہ کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ ایسے فیصلہ کی روشنی میں تو ملک کی لا تعداد بدھ ، جین عبادتگاہوں کو توڑ کر مندر بنائے جانے کا بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔ ویسے سابق چیف جسٹس گوگوئی نے مسلمانوں کی اشک شوئی کے لئے ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ اراضی کا مالکانہ حق سنٹرل وقف اسٹیٹ بورڈ کے ٹرسٹ کو مسجد کی تعمیر کے لئے دے کر منصفانہ ’’احسان‘‘ بھی کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد ملک کے مسلمانوں نے یقینی طور پر اپنے صبر و تحمل کا ثبوت ضرور دیا ہے۔ لیکن اس صبر وتحمل پر اب ’’ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے ‘‘ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب بعض مسلم رہنماوں نے بابری مسجد کے ملبہ پر رام مندر کے سنگ بنیاد پر اس بات کا ضرور اظہار کیا ہے کہ ہماری بابری مسجد کے ملبہ پر خواہ جتنی بڑی مندر تعمیر کر لی جائے ،لیکن اس جگہ بابری مسجد تھی ،ہے اور ہمیشہ رہے گی اور بھارت کی تاریخ میں اس غیر منصفانہ عمل کوہمیشہ سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.