Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا مفتی اشتیاق احمد دربھنگوی دامت برکاتہم

 

محمد روح الامین میوربھنجی

حضرت مولانا مفتی اشتیاق احمد دربھنگوی دامت برکاتہم سرزمینِ بہار کے ضلع دربھنگہ کرت پور بلاک کے جھگڑوا گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک مایۂ ناز نقاد، سوانح نگار، تذکرہ نویس، خاکہ نگار اور مقالہ نگار عالم اور مفتی ہیں اور تیرہ سال سے دار العلوم دیوبند کے استاذ ہیں، گریڈ کے لحاظ سے وسطی ب کے مدرس ہیں، عربی زبان اور بلاغت کے علاوہ ہدایہ ثانی، ترجمہ قرآن مجید اور حدیث کی کتاب الفیۃ الحدیث بھی پڑھاتے ہیں۔

ولادت:
مولانا کی پیدائش؛ ان کے نانہال جھمٹا ضلع سہرسہ بہار میں ہوئی۔ دستاویز کے مطابق تاریخ ولادت 28 محرم 1398ھ بہ مطابق 7 جنوری 1978ء ہے؛ لیکن تخمینہ کے مطابق مارچ 1974ء کی ولادت بتائی جاتی ہے۔ والد صاحب کا نام؛ انوار احمد تھا۔ گھرانہ شیخ صدیقی ہے۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم؛ والدہ محترمہ کے پاس پھر جناب ماسٹر عالم گیر صاحب کے پاس جماعت بندی کے بغیر مکتب میں حاصل کی؛ دینیات، اردو، ہندی اور ابتدائی فارسی (فارسی کی پہلی)۔
پھر 1983ء تا 1986ء مدرسہ معارف العلوم جھگڑوا میں مولانا عمر فاروق شمسی، مولانا محمد طیب قاسمی اور ماسٹر شبیر احمد وغیرہ کے پاس فارسی کی دوسری، آمد نامہ، منہاج العربیہ اور سال کی قید و بند کے بغیر آزادانہ طور پر اسکول کی چھٹی جماعت تک کی کتابیں پڑھیں۔
پھر 1986ء تا 1988ء مدرسہ فلاح المسلمین، بکرم، پٹنہ میں مولانا محمد سہیل احمد قاسمی، مولانا غیاث الدین احمد قاسمی، مولانا اظہار عالم قاسمی، حافظ محمود، مولانا ابو اللیث اور مولانا عبد القدوس وغیرہ کے پاس؛ فارسی، ہدایۃ النحو کا کچھ حصہ اور بہار بورڈ کی تحتانیہ و سلطانیہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔
پھر 1989ء تا 1991ء مدرسہ قاسم العلوم، منگراواں، ضلع اعظم گڑھ (یو، پی) میں مفتی عبد القادر بستوی، مولانا سہیل احمد قاسمی مبارک پوری مولانا قمر الزماں قاسمی مبارک پوری اور مولانا محمد عارف ولید پوری وغیرہ کے پاس؛ اول، دوم اور سوم عربی اور الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کی تعلیم مکمل کی۔
پھر 1992ء تا 1995ء مدرسہ ریاض العلوم، گورینی، ضلع جونپور (یو، پی) میں حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا محمد ارشاد بھاگلپوری، مولانا محمد جمیل، مولانا عبد اللّٰہ بستوی، مولانا اکرام اللّٰہ، مولانا عبد العظیم ندوی، مولانا سعادت علی الٰہ آبادی اور مفتی محمد حنیف وغیرہ کے پاس؛ چہارم، پنجم، ششم (موقوف علیہ) تک کی تعلیم حاصل کی اور خارج اوقات میں قاری محمد شمیم صاحب سے قراءت سبعہ میں شاطبیہ پڑھی اور قرأت سبعہ کا اجراء کیا۔
فراغت:
1996ء میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے سوم پوزیشن کے ساتھ فارغ ہوئے، 1997ء میں وہیں سے افتاء، 1998ء تا 1999ء میں دو سال تدریبِ افتاء کیا اور اسی دوران میں خارج اوقات میں شعبۂ کمپیوٹر میں اولین طلبہ کے درمیان؛ اردو، عربی و انگریزی کی ٹائپ رائٹنگ سیکھی۔
دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذہ:
شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سے مولانا نے صحیح بخاری جلد اول پڑھی۔
شیخ عبد الحق محدث اعظمی سے مولانا نے صحیح بخاری جلد ثانی پڑھی۔
مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی سے مولانا نے صحیح مسلم جلد اول و سنن ابی داؤد جلد اول پڑھی۔
مولانا قمر الدین احمد گورکھپوری سے مولانا نے صحیح مسلم جلد ثانی و سنن ابی داؤد جلد اول پڑھی۔
اپنے خاص مربی حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری سے مولانا نے جامع ترمذی جلد اول و طحاوی شریف پڑھی۔
مولانا سید محمد ارشد مدنی سے مولانا نے جامع ترمذی جلد ثانی پڑھی۔
مولانا عبد الخالق مدراسی سے مولانا نے شمائلِ ترمذی پڑھی۔
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری سے مولانا نے سنن ابن ماجہ پڑھی۔
اپنے پیر و مرشد حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی سے بخاری شریف کتاب الایمان تبرکاً اور سنن نسائی مستقلاً پڑھی اگلے سال شرح عقود رسم المفتی پڑھی اور ان کے پاس تمرین فتاویٰ بھی کی۔
مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی اعظمی سے مولانا نے موطا امام محمد پڑھی۔
مولانا قاری عثمان منصور پوری سے مولانا نے موطا امام مالک پڑھی۔
مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی سے مولانا نے سراجی، الدر المختار (مقدمہ، کتاب الوقف) پڑھی اور ان کے پاس تدریب فی الافتاء کے دونوں سال تمرین فتاویٰ بھی کی۔
مفتی ظفیر الدین احمد مفتاحی سے مولانا نے الدر المختار (کتاب النکاح، کتاب الطلاق) پڑھی اور ان کے پاس تمرین فتاویٰ بھی کی اور ان سے فتویٰ نویسی کے اصول و ضوابط سیکھے۔
مفتی محمود حسن بلند شہری سے باضابطہ تمرین فتاویٰ کی۔
مفتی نظام الدین اعظمی، سابق مفتی دار العلوم دیوبند سے مولانا نے قواعد الفقہ پڑھی۔
مفتی محمد طاہر غازی آبادی سے مولانا نے الاشباہ و النظائر پڑھی۔

دار العلوم دیوبند میں معین مدرس:
1999ء تا 2000ء دار العلوم دیوبند میں معین مدرس رہے اور اول دوم عربی کی ساری کتابیں یعنی قدوری و کافیہ بحث فعل و حرف تک کی کتابیں ان سے متعلق تھیں۔

دار العلوم حیدر آباد میں:
2000ء تا 2008ء دار العلوم حیدر آباد میں مدرس رہے، جس درمیان اعدادیہ سے ہفتم عربی تک مختصر المعانی، جلالین ، مشکوٰۃ المصابیح جیسی کتابیں اور افتاء میں الاشباہ و النظائر، رسم المفتی اور سراجی ان سے متعلق تھیں۔
دار العلوم دیوبند میں تقرر:
2008ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہوا اور اس وقت سے اب (2021ء) تک اول عربی سے ششم عربی تک؛ مفتاح العربیہ، ہدایۃ النحو، نور الایضاح، مرقاۃ، قدوری، آسان منطق، کافیہ، شرح تہذیب، قطبی، القراءۃ الواضحۃ حصہ سوم، تعلیم المتعلم، نفحۃ العرب، مشکوٰۃ الآثار، الفیۃ الحدیث، ترجمۂ قرآن (شروع سے سورۃ الحجرات تک)، نور الانوار، ہدایہ اولین ، قطبی، دروس البلاغہ، اصول الشاشی، تسہیل الاصول، مختلف مراحل میں ان سے متعلق رہی ہیں اور بعض ہیں۔
قلمی سرگرمیاں:
مولانا کی قلمی سرگرمیوں میں طرازی شرح اردو سراجی، خاصیاتِ فصولِ اکبری پر تحقیق و تعلیق، مختصر خاصیاتِ ابواب (اردو)، مولانا بستوی کا ذکر جمیل، زیب و زینت کے احکام، کلیاتِ کاشف کی ترتیب اور تقریباً پانچ غیر مطبوعہ تصانیف، سفرنامے، ترجمۂ قرآن بھی شامل ہیں۔

مقالات و مضامین:
رونامہ منصف حیدرآباد، روزنامہ اعتقاد حیدرآباد، ماہنامہ حسامی حیدرآباد، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ ترجمانِ دیوبند، آئینۂ دار العلوم دیوبند، فکر و تحریر کلکتہ، سہ ماہی بحث و نظر حیدرآباد، ہماری زبان انجمن ترقی اردو، روزنامہ سہارا انڈیا، المفتاح حیدرآباد، ماہنامہ حضرت عائشہ حیدرآباد، ماہنامہ السعید پرنام بٹ (تمل ناڈو) وغیرہ میں مولانا کے تقریباً ڈھائی سو مقالات و مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
بعض مشہور و اہم مقالات کا ذکر:
مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی – حیات و خدمات
ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ
صحابۂ کرام کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف
حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فن تاریخ گوئی
کاتبین پیغمبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ایک تعارف
تدوین قرآن مجید – ایک تحقیقی جائزہ
عربی تفسیروں کے اردو ترجمے- تعارف و تجزیہ
نیٹ ورک مارکیٹنگ – اقتصادی اور اسلامی نقطۂ نظر
حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی غزلیہ شاعری – معاصر ادباء کی نظر میں
اسلام كا نظام سلام و مصافحہ
انقلابِ ماہیت – اسلامی نقطۂ نظر
مدارس میں زکوٰة کی فراہمی اور طریقۂ استعمال

اردو ادب:
آپ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ہیں۔
مقالۂ ایم فِل کا عنوان تھا: ” چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ” یہ مقالہ سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ،سابق مفتی دار العلوم دیوبند مولانا کفیل الرحمن نشاط عثمانی اور استاذ حدیث دار العلوم دیوبند مولانا ریاست علی ظفر بجنوری رحمہم اللّٰہ کی مطبوعہ شاعری کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل تھا۔
مقالۂ پی ایچ ڈی کا عنوان تھا: (آزادی سے قبل) "علمائے دیوبند کی سوانح نگاری کا تنقیدی جائزہ”

Comments are closed.