سی بی آئی اور دہلی کا فساد

اعظم شہاب
دہلی کے حالیہ فساد میں چونکہ نہ صرف پولس نے ن اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی دکھائی بلکہ اس کے عملاً ملوث ہونے کے شواہد بھی ذرائع ابلاغ میں آگئے۔ سوشیل میڈیا کے اس دور میں کئی ایسی ویڈیوز یو ٹیوب پر موجود ہیں جن میں پولس اور بلوائی شانہ بشانہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن ان کا انکار بہت سہل تھا۔ ملزمین کی شناخت تقریباً ناممکن تھی لیکن موبائل کیمرے نے یہ کام آسان کردیا ہے۔ ایسے میں اگر غیر جانبدانہ تفتیش ہو تو اس تشددمیں ملوث لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا بہت آسان ہے۔ پولس کمشنر اور اعلیٰ افسران کا تبادلہ دراصل اس حقیقت کا سرکاری اعتراف ہے لیکن کیا پولس کا محکمہ اپنے ہی افسران کے خلاف ثبوت پیش کرکے ان کو سزا دلوائے گا۔ اس کا امکان بالکل نہیں ہے اس لیے کچھ لوگ سی بی آئی کے ذریعہ تفتیش کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کا یہ نامور ادارہ غیر جانبدارانہ انداز میں اس ذمہ داری کو ادا کرپائے گا؟ اس سوال کاحقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے لیے سی بی آئی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر ایک غائر نظر ڈال لینا کافی ہے۔
ایک سال یہ قبل رافیل بدعنوانی کا معاملہ وزیراعظم مودی کے لیے عذاب جان بنا ہوا تھا اور ان کا سنگھاسن ڈول رہا تھا ۔ سی بی آئی سربراہ آلوک ورما نے مودی کے خلاف محاذ کھول کر ان کی نیند حرام کررکھی تھی ۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے سی وی سی رپورٹ کی سہارا لے کر ورما کو ہٹا دیاد گیا حالانکہ سی وی سی نہ تو سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار تھا اور نہ و ہ اسے ہٹا سکتی تھی ۔ اس اہانت آمیز رویہ کے خلاف ورما نے استعفیٰ دے دیا تو انتقامی کارروائی کرتے ہوئے حکومت نے ان کا پنشن وغیرہ روک لیا گیا ۔ بنگلا دیش ، پاکستان اور افغانستان کے اندر معتوب ہندووں کے درد میں تڑپنے والی سرکار اپنے ملک کے ہندو افسران پر عتاب کا کوڑا برسانے لگی۔ آلوک ورما سے مرکزی حکومت کی ناراضگی اس لیے تھی کیونکہ انہوں نے مودی جی کے منظور نظر راکیش استھانہ کے ڈائرکٹر بننے کی راہ میں رشوت خوری کا الزام لگا کر ایف آئی آر درج کروادی تھی۔راکیش استھانہ2017 سے گوشت برآمد کرنے والے تاجر معین قریشی کے خلاف تفتیش کررہا تھا۔ راکیش استھانہ پر حیدر آباد کے تاجر ستیش سانا نے ۱۰ کروڈ روپئے مانگنے کا الزام لگایا تھا اور رشوت نہ دینے پر جینا حرام کردینے کی مبینہ دھمکی دی تھی ۔
ان الزامات کے تحت سب سے پہلے سی بی آئی نے منوج پرساد نامی دلال کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور اس میں دیویندر سنگھ کے علاوہ راکیش استھانہ کا بھی نام تھا۔ اس ایف آئی آر کو منسوخ کرانے کی خاطر دہلی ہائی کورٹ میں استھانہ نے درخواست دی تو اسے مسترد کردیا گیا۔ اس طرح گویا عدالت رشوت کے الزامات کی جانچ جاری رکھنے کومنظوری دے دی۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ استھانہ کی شکایت پر حکومت نے آلوک ورما کو عہدے سے ہٹا دیا لیکن تفتیش تو سی بی آئی کے ذمہ تھی جس پر حکومت نے اپنے وفادار کو مسلط کردیا۔ اس نے حق نمک ادا کرتے ہوے دلال پرساد تک پر ۶۰ دن کے اندر اپنی رپورٹ داخل کرنے میں ناکام رہی اس طرح پہلے اس کی اور آگ چل کر سبھی ملزمین کے لیے ضمانت کا دروازہ کھل گیا۔ کیا اسی کو نہ کھاوں اور نہ کھاوں گا کہتے ہیں ؟ اس کے بعد پلوامہ اور نام نہاد ائیر اسٹرائیک کے سہارے جس کا ثبوت مانگا جائے تو حکومت بلبلا اٹھتی ہے مودی جی دوبارہ برسرِ اقتدار آگئے اور رافیل کے ساتھ ساتھ لوگ استھانہ کے کالے کارناموں کو بھی بھول بھال گئے۔
راکیش آستھانہ سے قبل ڈی ایس پی دیویندر کمار کو سی بی آئی نے گرفتار کیا تھا اور رآ کے سربراہ ایس کے گویل کا نام بھی چارج شیٹ میں شامل تھا لیکن وقت کے ساتھ سی بی آئی نے ان لوگوں کی ٹھیک سے نہ جانچ کی اور نہ وقت پر رپورٹ جمع کی اس لیے ضمانت خود بہ خود کلین چٹ بن گئی ۔ اس فیصلے کے بعد یہ اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ آلوک ورما کو انتقاماً بہتان لگانےاور راکیش کو پھنسا کر ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات لگیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دہلی کی عدالت عالیہ نے راکیش استھانہ کا لائی ٖیٹیکٹر (جھوٹ بولنے والی مشین) ٹسٹ نہیں کرانے پر سی بی آئی کی کھنچائی کردی اور اس معاملے کے تفتیشی افسر اجئے کمار بسیّ کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دے دیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی کسی معاملے میں کوئی بارسوخ فرد ملوث ہوتا ہے لوگ قومی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی ) کے ذریعہ جانچ پڑتال کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ عوام کو اپنی مقامی پولس پر زیادہ اعتماد ہونا چاہیے لیکن یہ اعتبار پہلے تو کم ہوا اور اب جامعہ کی ویڈیو کے بعد پوری طرح ختم ہوگیا ہے۔
جرائم کی تفتیش کی خاطر اس کی معیاری صلاحیت اور غیر جانبداری سب سے اہم ہوتی ہے۔ جہاں تک صلاحیت کا تعلق ہے سی بی آئی کے سارے افسران پولس فورس سے وہاں منتقل کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ادارے میں توکسی خاص افسر کی کارکردگی کمتر ہو اور دوسرے میں منتقلی کے بعد اچانک بہتر ہوجائے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی سرکار نے سی بی آئی کے افسران کی خصوصی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا ۔ ۱۹۴۱کے اندر دوسری جنگ عظیم کے دوران اسلحہ کی خریدی میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے اس ادارے کی اختیارات میں بھی کوئی اضافہ تک نہیں کیا گیا کیونکہ حکومت اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور کمزور رکھنا چاہتی ہے۔ آلوک ورما کے معاملے میں مودی سرکار کی ویسے بھی بڑی بدنامی ہوئی لیکن اس سے پہلے بھی اس کی حیثیت سرکس کے شیر کی رہی ہے ۔
راجیو گاندھی کے زمانے میں حکومت یہ فرمان سنا دیا کہ جوائنٹ سکریٹری اور اس سے اعلیٰ تر کسی بھی افسر کے خلاف سربراہِ مملکت کی تحریری توثیق کے بغیر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائےگا ۔ سپریم کورٹ نے حوالہ معاملے میں سماعت کے دوران اس قانون کو منسوخ کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کامیابی پر بغلیں بجانے والی بی جے پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ۲۰۰۳ میں نیا قانون بنا کر اس پابندی کو بحال کردیا ۔ اس پتہ چلتا ہے اپنی من مانی کی خاطر تمام ہی سیاسی جماعتوں کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ سی بی آئی کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی خاطر اس کا معروضی اور غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے تاکہ کوئی مجرم اس کے چنگل سے بچ نہیں سکے لیکن سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرمین کا بری ہوجانا ان چیزوں کا شدید فقدان کی گواہی دیتا ہے ۔
اگست ۲۰۱۸میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جسٹس گوگوئی نے اپنے ایک خطاب میں سوال کیا تھا کہ غیر سیاسی معاملات میں سی بی آئی کی کارگزاری کیوں بہتر ہوجاتی ہے؟ چدمبرم کا معاملہ اگر وہ دیکھتے تو کہتے کہ حکومت مخالف سیاستدانوں کی بابت سی بی بی کیوں بے حد فعال اور موثر ہوجاتی ہے؟ جسٹس گوگوئی کے خیال میں اس کے قیام کی بنیاد دہلی خصوصی پولس انتظامیہ کا قانون ۱۰۴۶ ہونے کے سبب یہ حکومت کا آلۂ کار بن کر رہ گئی ہے۔ خود مختاری میں فقدان کے سبب عدل کے نفاذ کی بابت وہ کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ا س کے باوجود سی بی آئی کا رعب داب اپنی جگہ تھا۔ لوگ پولس پر اس لیے بھی اعتبار نہیں کرتے تھےکہ مقامی سیاستدانوں کے ذریعہ انتظامیہ پر دباو بنانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن باہر سے آنے والے اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن مودی یگ میں یہ خوش فہمی بھی پوری طرح ختم ہوگئی ہے۔ مودی جی نے جن سرکاری اداروں کے وقار کو پامال کیا ہے ان میں سی بی آئی سر فہرست ہے۔ اس تابوت کی آخری کیل اس وقت ٹھونکی جائے گی جب راکیش استھانہ کو سی بی آئی کا سربراہ بنادیا جائے گا۔ راکیش استھانہ کو سی بی آئی عدالت کے ذریعہ کلین چٹ دلا کر اس کا راستہ صاف کردیا گیا ۔ نریندر مودی کی ضدی طبیعت سے قوی توقع ہے کہ وہ یہ کارنامہ انجام دے کر سی بی آئی کی ارتھی اپنے ہاتھوں سے جلائیں گے ایسے میں توقع کرنا کہ سی بی آئی فساد کی آگ بھڑکانے والے بی جے پی رہنماوں کو سزا دلواکر مظلوموں کی داد رسی کرے گی ایک خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔
Comments are closed.