آر ایس ایس سے این پی آر، یس بینک تک کی کرونولوجی

شہاب مرزا
کون کہتا ہے کہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر اور بینک کا مالی بحران، مٹھی بھر سرمایہ داروں کے پاس پوری دولت کا ہونا مودی، شاہ کی ’جوڑی‘ کی محنت ہے – یہ تو 95 برس پرانا وہ ایجنڈا ہے جس پر آر ایس ایس کام کر رہی ہے ، جسے سنگھ کے بانی کیشو ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد ساورکر اور گرو گوالکر اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے اسکی پوری کرونولوجی ہے جسے امیت شاہ بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہے
حالیہ میں یس بینک نے لوگوں کو ایسے کنگال کیا ھیکہ وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے لیکن یہ تو صرف پردہ پر نظر آنے والا محض ایک ٹریلر ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کے سو سے زائد بینک ایسے ہیں جن پر ریزرو بینک آف انڈیا نے پابندی عائد کی ہے ان بینکوں کی فہرست میں زیادہ امدادی بینکوں کی فہرست کافی طویل ہے اکولہ ضلع کوآپریٹو بینک نے تو ایک معروف اخبار میں باقاعدہ پبلک نوٹس کے ذریعے اعلان کیا ھیکہ ریزرو بینک نے اس پر پابندی عائد کرنے کے سبب چیک کلیرنگ ATM کا نظام متاثر ہوا ہے لہذا گزارش کی جاتی ہے کہ آپ کو ہونے والی عدم سہولت کے لئے ہم آپ سے معافی کی درخواست کرتے ہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ یس بینک میں اربوں، کھربوں کا قرض کارپوریٹ سیکٹرس اور بڑے بڑے صنعتکاروں تاجروں کو دے دیا گیا ہے جن سے واپسی کی کوئی امید باقی نہیں!
انیل امبانی کو ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ، ایس آر گروپ کو ایک لاکھ ایک ہزار کروڑ، گوتم اڈانی کو 96 ہزار 30 کروڑ، ایم وینو گوپال کو 45 ہزار چار سو پانچ کروڑ، ایس بی سنگھال کو 37 ہزار دو سو پینتالیس کروڑ کا قرض دیا گیا کل ملا کر ملک کے سرمایہ داروں کو 10 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا قرض دیا جا چکا ہے جسکی واپسی کی امید اب معدوم ہو چکا ہے اسطرح کی لوٹ مار نے عوام کو پوری طرح سے لوٹ کر کنگال بنادیا ہے
ملک کے اندر مفلسی محتاجی اور بھکمری نے انسانیت کے سینے پر ننگا رقص ایسے مچایا ہے کہ زمین و آسمان کانپ اٹھے ہے ایسی صورتحال تاریخ انسانیت میں اس سے پہلے شائد کبھی نہ دیکھی ملک میں جاری مذہب کے نام پر انسانیت کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی سے متعلق انا ڈانگے نے کہا تھا کہ دنیا میں مذہب کے تخلیق اس غرض سے ہوئی ہیکہ محنت کشوں کی دولت کو مفت میں لوٹ کر حاصل کرنے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اقتدار حاصل کرنے کی خاطر دنیا کے چند مکاروں میں مذہب کی تخلیق کی ہے
لہذا اس ملک کے اندر 1925 میں قائم کردہ آر ایس ایس نے سرمایہ داروں کی سفلی تسکین کو ہوا دیکر ایک ایسا انسانیت سوز نظریہ تخلیق کیا جو سونے سے بنی ہوئی جان لیوا چھری کی طرح چمچماتا اور جس سے آنکھیں چندیہ کر انسانی شعور معوف ہوتا ہو اور اور اس چھری کے استعمال سے معصوموں، بے قصوروں کے خون جگر کا نذرانہ اقتدار کے دیوتا کے ماتھے پر سجانے میں اپنی روحانی تسکین حاصل کرتا ہو-
یہی ہوتا آیا گزشتہ 72 سالوں سے ہر بہانے بے قصور، معصوم بچوں کو یتیم کرتے ہوئے، ابن حوا کی عصمت کو تار تار کرتے ہوئے چند مٹھی سرمایہ داروں کی تجوریاں بھر کر ان کے چندوں سے اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے جنون نے ملک سے انسانیت کا بچا کچا سرمایہ بھی بڑی بے رحمی سے تہہ تیغ کرلیا – اب چونکہ عوام سے لوٹی ہوئی دولت کو چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے لئے اور حاصل کردہ تخت کو انہی انہی مظلوم لوٹی ہوئی عوام کے سینوں پر برقرار رکھنے کے لئے اقتدار کے دیوتا کے ہاتھ میں وندے ماترم کا پرچم دے کر مظلوموں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے بند کیے جانے منصوبے کا نام سی اے اے، این آر سی اور این پی آر ہیں –
بہر کیف بھارت سرکار چیخ چیخ کر خود کا گلا پھاڑ رہی ھیکہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے ملک کے باشندوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ جملہ ایسا ہی جملہ ہے جب ملک کے پردھان نے جشودابین کے ساتھ سات پھیرے لے کر ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسم کھائی تھی اور گجرات فسادات کے وقت مسلمانوں سے مخاطب ہوکر راج دھرم کا پالن کرنے کا جملہ کہا تھا اور نوٹ بندی کے وقت چوراہے پر لاکر پھانسی پر چڑھانے کا جملہ کہا تھا لیکن
بڑا غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کے مصداق این پی آر کی پہلی سیڑھی بھی این آر سی سے گزر کر ڈیٹینشن کیمپ میں ناصرف مسلمانوں کی جائیداد بلکہ آدیواسی کی لاکھوں ایکڑ زمینات اور پسماندوں کے ریزرویشن پر تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ڈاکہ ثابت ہوگا۔
Comments are closed.