این پی آر؛تعارف لائحہ عمل

مہدی حسن عینی قاسمی
ڈائریکٹراسلامک اکیڈمی دیوبند
مرکزی حکومت نے ملک کی تمام ریاستوں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک این پی آر اپڈیٹ کرنے کا عمل مکمل کیا جائے،
این پی آر کو لے کر ملک کی عوام میں شکوک و شبہات ہیں، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے 14 جون 2014 کو کہا تھا کہ این پی آر ہی این آر سی کی پہلی سیڑھی ہے
اس کے بعد سابق وزیر داخلہ برائے مملکت کرن رجیجو نے پارلیمنٹ میں دسمبر 2014 میں کہا تھا کہ این پی آر کا ڈیٹا این آر سی کے لیے استعمال ہوگا، اس کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی کرونالوجی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں- آپ کرونولوجی سمجھیے پہلے سی اے اے آئیگا پھر این آر سی ہوگی،پھر این پی آر ہوگا۔لیکن معاملہ ہوا ایسا کہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا، دہلی کے شاہین باغ سے نکلی چنگاری نے ملک بھر میں 1500 سے زائد شاہین باغ آباد کردیئے، ہر شہر، ہر قصبے میں شاہین باغ آباد ہے اور احتجاج جاری ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کل تک وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ملک میں این آر سی ہو کر رہے گی، حکومت ایک انچ پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے لیکن آج کہہ رہے ھیکہ ہم نے ابھی این آرسی پر کچھ سوچا ہی نہیں،جبکہ گزشتہ 6 سالوں میں 9 مرتبہ لوک سبھا و راجیہ سبھا میں این پی آر کو این آرسی سے جوڑ کر مرکزی حکومت نے تذکرہ کیا،اس کے علاوہ وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر 2019 کی رپورٹ میں بھی بہت واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ این پی آر این آرسی کے لئے پہلا قدم ہے۔
پورا ملک متنازعہ قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر ہے،اس لیے حکومت نے چال چلی کہ اگر این آر سی کی مخالفت ہو رہی ہے تو این پی آر کو این آر سی کا متبادل بناکر استعمال کرتے ہیں، اور اسے مردم شماری کی آڑ میں نافذ کرلیتے ہیں،ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے، مردم شماری میں عوام کو کسی طرح کے کوئی کاغذات دکھانے نہیں پڑتے تھے،لیکن اس مرتبہ مردم شماری کے ساتھ ساتھ این پی آر کو بھی نافذ کرکے عوام کو الجھایا جارہا ہے،مردم شماری میں شہریت ثابت نہیں کرنی پڑتی،کیونکہ اس کی بنیاد Census Act 1948 ہے۔
شہریت ثابت کرنے کے بات این آر سی میں ہے جس کی بنیاد Citizenship Act 1955 کی 2003 کی ترمیم ہے،جو دفعہ 14A ہے،2003 میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کی سرکار نے Citizenship Rules 2003شہریت قواعد 2003 وضع کئے، جس میں ملک کے تمام شہریوں کا ایک قومی رجسٹر بنائے جانے کی بات کہی تاکہ غیر قانونی تارکین اور مشکوک شہریوں کی شناخت کی جاسکے،اس رجسٹر کا نام این آر آئی سی ہوگا،
اس سے پہلے ملک کی پوری آبادی کا ایک رجسٹر بنانے کی بات کہی گئی جس میں ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگوں کا نام درج کیا جائے گا چاہے وہ ہندوستانی ہو یا غیر ملکی،چاہے قانونی طور پر ہندوستان میں رہتا ہو یا غیر قانونی طور پر،اس رجسٹر کا نام نیشنل پاپولیشن رجسٹر رکھا گیا،جس میں تمام آبادی کا اندراج ہوگا اور پھر سب کا ویری فیکیشن کرنے کے بعد ثابت شدہ شہریوں کی معلومات کو این آر آئی سی قومی شہریت رجسٹر میں منتقل کیا جائے گا۔
سرکاری اہلکار ان معلومات کی تحقیق کریں گے،سرکاری اہلکار کو اختیار ہوگا کہ جسے چاہے شہری رکھے اور جسے چاہے مشکوک قرار دے دے،یعنی ان کے نام کے سامنے D لکھ دیں، اس کے بعد جتنے مشکوک افراد ہونگے ان کو مجسٹریٹ کے یہاں سے نوٹس بھیجا جائے گا پھر وہ 30 دنوں کے اندر اپنی شہریت ثابت کریں گے،ورنہ تو ان کی زمین جائداد،بینک اکاؤنٹ سمیت سبھی چیزیں سیز کرکےحراستی مرکز میں بھیج دیاجائے گا،
جو لوگ کہتےہیں این پی آر اور این آر سی بالکل الگ ہے دونوں کا کوئی واسطہ نہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر قانونی نظریے سے دیکھا جائے تو این پی آر کی معلومات این آر سی کے علاوہ کہی بھی استعمال نہیں کی جاسکتی جو معلومات این پی آر میں حاصل کی جا رہی ہے اس کی بنیاد پر ہی این آر سی ہو سکتی ہے۔
این پی آر کی معلومات این آر سی میں کس طرح استعمال ہوگی یہ 2003 کے قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ سرکاری اہلکار کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی شہری کو مشکوک قرار دے دیں اس کے لئے سرکاری اہلکار کو کوئی پیمانہ نہیں دیا گیا یہ بہت بڑا اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک قرار دیدے جسے مشکوک قراردیدیا گیا وہ شہری نہیں ہے،پھر اسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک کا شہری ہے جب این پی آر کا رجسٹر بن جائے گا، تو بھی اس علاقے کے باشندے کو اختیارات دیئے گئے ہیں کہ کسی بھی شہری کے خلاف اعتراض داخل کرسکتا ہے کہ فلاں فلاں شخص یہاں کا شہری نہیں ہے جس کی سرکاری اہلکار ایک بار پھر جانچ کریں گے کہ یہ حقیقت میں یہاں کا شہری ہے یا نہیں!
اگر آپ کا کوئی دشمن ہے تو حکومت نے اسے اختیارات دیئے ہیں کہ وہ آپ کی شہریت پر سوال کھڑا کرسکتا ہے بعد میں آپ کو ثابت کرتے رہنا پڑے گا کہ آپ یہی کے ہیں آپ کے والد یہی پیدا ہوئے اور آپ کے دادا یہی کے تھے وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کی وجہ سے آسام میں کافی دقتیں پیش آئی کیونکہ آسام میں این آر سی ہوچکی ہے اس لیے ہمیں وہاں کی مثال ملتی ہے کہ وہاں کس طرح کے اعتراض داخل کئے گئے،یعنی جس کا جیسا من چاہا ویسے اعتراض داخل کرکے کسی کی بھی شہریت مشکوک کردی۔
بہرکیف ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ این پی آر کا مردم شماری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،مردم شماری الگ چیز ہے اور این پی آر الگ،اس لیے اب جب کہ مردم شماری کے آڑ میں این پی آر شروع کیا جا رہا ہے تو ہمیں اس طرف توجہ دینا ضروری ہے اور این پی آر کے تعلق سے عوامی بیداری ضروری ہےکہ ہم اس کا مکمل بائیکاٹ کریں،اگر آپ کے محلے گلی میں این پی آر کے لیے سرکاری اہلکار آتے ہیں تو انہیں کہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی معلومات نہ دیں گے،
ہم این پی آر کا بائیکاٹ کرتے ہیں کوئی سرکاری اہلکار یا کوئی شہری ہماری شہریت پر سوال اٹھائے ہمیں منظور نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ مردم شماری ہر دس سال بعد ھوتی ھے تو 2011 سے دس سال 2021 میں ہونے والی ہے پھر 2020 میں اس پر عمل کیوں کیا جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ این آر سی سے آسام میں عوام کو جو تکلیف ہوئی اس کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ ہم نے این آر سی نافذ کرنے کی کوئی بات نہیں کی جبکہ امیت شاہ کی کرونولوجی والی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے جس میں کہا گیا ہےکہ ملک میں این آر سی کسی بھی قیمت پر ہوکر رہے گی،تو بات صاف ہے کہ عوامی احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جارہا ہے،این پی آر کے تحت چور راستہ بنایا گیا کہ جو معلومات این پی آر میں لی جائے گی اسے این آر سی کے لئے استعمال کیا جائے گا،ملک کے زیادہ تر دانشور حضرات نے اس معاملے میں واضح کیا ہےکہ این پی آر ہی این آر سی ہے اس لیے عوام کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے نہ صرف مخالفت کرے بلکہ اس کا مکمل بائیکاٹ کرے اور اپنے محلے گلی میں کمیٹی تشکیل دیں اور یہ طے کرے کہ ہمیں این پی آر میں حصہ نہیں لینا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا فارم بھرنا ہے اگر این پی آر میں معلومات نہیں دی گئی تو اس کا جرمانہ 1 ہزار روپئے ہوتا ہے یا کچھ دنوں کی جیل ہوگی، ہمیں جرمانہ یا سزا منظور ہے لیکن کوئی ہماری شہریت پر سوال اٹھائے یہ منظور نہیں!
Comments are closed.