اعتدال ہی پسندیدہ راہ

مزاج عشق تو اپنا ہے اعتدال پسند
ڈاكٹرمفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی
عمیدكلیۃ البحث و التحقیق،جامعۃ العلوم گڑھا – گجرات
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایك سے زائد مقام پر اپنے بندوں سے كائنات میں غور وفكر كرنے كا مطالبہ كیا ہے ، اسی طرح جا بجا انسانوں سے خود اپنی ذات میں غور و فكر كرنے كے لئے كہا ۔ كائنات اور انسان كی تخلیقی میں غور وفكر كرنے سے دو باتیں كُھل كر سامنے آتی ہیں ، ایك تو یہ اللہ كی بے پناہ قدرت كی شاہكار ومظہر ہے ۔ دوسری بات یہ ہے كہ اس میں پورے طور پر توازن واعتدال ہے ، كہیں كسی جگہ سے بے اعتدالی اور بے جا كمی بیشی نظر نہیں آئےگی ، جس كا سیدھا سادہ پیغام انسانوں كے نام بقول شاعر لیث قریشی:
مزاج عشق تو اپنا ہے اعتدال پسند
یہی روش ہے كچھ كم نہیں زیادہ نہیں
اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہےكہ اعتدال فطرت كی آواز ہے، بےاعتدالی دوسرے معروف الفاظ میں افراط وتفریط فطرت سے بغاوت ہے ، اور فطرت سے بغات شر وفتنہ كی بنیاد اور اس كی جڑ ہے ، اور قول وعمل كے اعتبار سے بے راہ روی اور گمراہی ہے ، اور گمراہی انسان كو جہاں سیدہے راستہ سے ہٹاتی ہے وہیں ہلاكت كے گڑھے میں گراتی ہے ، جس كو یوں سمجھا جا سكتا ہے كہ پانی انسان كے حرز جان اور سرچشمۂ حیات ہے ، اس كے بغیرزندگی كا تصور نہیں ،{وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ}[انبیاء:۳۰]“اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز بنائی ہے ”، یہی پانی جب امنڈتا ہوا سیلاب كی شكل اختیار كرتا ہے تو پروانۂ موت ثابت ہوتاہے ، اور بڑی بے رحمی كے ساتھ جانداروں كومو ت كی نیند سلاكر جاتا ہے ۔اسی طرح فكروعمل كی بے اعتدالی بھی انسان كو ہر اعتبار سے تباہ وبرباد كركے ركھ دیتی ہے ، اس كی واضح مثال یہود ونصاری ہیں ، عیسائیو ں نے افراط كا راستہ اختیار كیا اور یہودیوں نے تفریط كی راہ كواپنا یا تو اللہ تعالی نے ان دونوں كے راستہ پر چلنے سے بچنے كے لئے دعا سكھائی اور اس سے بچنے كا حكم دیا{اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ . صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}[فاتحہ:۶ – ۷] “ہمیں درست راستہ پرچلائیے،ان لوگوں كے راستہ پر جن پر آپ نے انعام فرمایا ، ان لوگوں كا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا، اورنہ ان لوگوں كا جوراہ حق سے بھٹكے ہوئے ہیں”۔
بنیادی طور پر اعتدال كے دو پہلو ہیں ، جس كو اچھی طرح سے سمجھنے كی ضرورت ہے ، بلكہ دل ودماغ میں بیٹھانے كی ضرورت ہے ؛ تاكہ مروّت ورواداری میں حد اعتدال سے تجاوز كرنے سے بچا جاسكے،ایك پہلو :اپنے مذہب ومسلك پر تصلب كے ساتھ استقامت وثبات قدمی۔ دوسرا پہلو: دوسرے مذہب وملت كے ساتھ رواداری ان كی اہم اور مقدس شخصیتوں كا احترام اور ان كے مذہبی مقدسات كی توقیر وتكریم ۔ اس میں افراط وتفریط سے بچنے كی ضرورت ہے اس طور پر كہ انسان میں اتنی رواداری نہ ہوكہ اپنے مذہبی ودینی تشخصات وامتیازات اور اپنی اصل شناخت وپہچان سے محروم ہوجائے،اتنی نرمی نہ ہو كہ جو جدھر چاہے خش وخاشاك كی طرح بہا لے چلاجائے ،گویا موم بتی كی ناك بن كرنہ رہے كہ جو جدھر چاہے موڑ دے ، اتنی سختی وتشدد نہ ہو كہ ایك دوسرے كے ساتھ بیٹھنا گوارا نہ ہو،اور نہ ہی بات چیت ممكن ہو،انسان میں بیلینس و توازن ہو،جیساكہ دبستان شعرو سخن كے شہسوارنامور شاعراور نقادشمس العلماءخواجہ الطاف حسین حالیؒ نے مزاج شریعت كو پہچانا اورآنحضرت ﷺ كے تربیت یافتہ حضرات صحابہ كرام ؓ كی خصوصیات كا نقشہ كھینچتے ہوئے كیا خوب اور سچ كہا:
جہاں كردیا نرم ،نرما گئے وہ
جہاں كردیا گرم، گرما گئے وہ
قرآن نے مخلوط آبادی میں كیسے زندگی بسر كی جائے ؟ اور باہمی رواداری كے ماحول میں دوسروں كے ساتھ كیسا سلوك اور رویہ اختیار كرنا چاہئیے ؟ پرروشنی ڈالی ہے اور اہل ایمان كو حكم دیا :“اللہ كے سوا وہ جن كی عبادت كرتے ہیں ، ان كو برا بھلا نہ كہو، كہ وہ بھی حد سے تجاوز كرتے ہوئے جہالت كی وجہ سے اللہ كو برا بھلا كہنے لگیں گے” [انعام:۱۰۸]۔ معلوم ہوا كہ دوسروں كے مذہبی افعال كی بے احترامی اور مذہبی مقدسات كی اہانت سے بچنے كا حكم ہے ، یہی حكم مكہ كے مخلوط ماحول میں مسلمانوں كو دو ٹوك انداز میں ہدایت دی “:آپ كہہ دیجئے: اے ایمان سے انكار كرنے والو! نہ تو میں اس كی عبادت كرتا ہوں، جس كی تم پوچا كرتے ہو، اور نہ تم اس كی عبادت كرتے ہو، جس كی عبادت میں كرتا ہوں اور (آئندہ بھی) نہ میں اس كی عبادت كروں گا، جس كو تم پوجتے ہو، اور نہ تم(موجودہ صورت حال كے اعتبار سے) اس خدا كی عبادت كرنے والے ہو، جس كی میں عبادت كرتا ہوں، تو تمہارےلئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین !”[كافرون:۱ – ۶]۔ اسی طرح اللہ تعالی اور اس كے رسول ﷺ نے اس بات سے بھی روكا ہے كہ ہم مسلمان اپنی شناخت وپہچان كو مٹاكر دوسری قوموں كی شناخت وپہچان اختیار كریں ؛ چنانچہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [مائده:۵۱] “اے ایمان والو!(اِن) یہود ونصاری كو دوست نہ بناؤ، وہ ایك دوسرے كے دوسرے كے دوست ہیں اور توتم میں سے جو اُن سے دوستی كرےگا، بے شك وہ بھی اُنہیں میں سے (شمار) ہوگا”۔ دلوں كا حال اللہ كومعلوم ؛لیكن ظاہری لباس وپوشاك اور حالت كے ذریعہ ایسی مشابہت كا اظہار جو لباس وپوشاك اورحالت ان كی شناخت ہو، بھی اس میں شامل ہے؛ اسی وجہ سے اللہ رسول ﷺ نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا:«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»أبوداود، لباس، باب في لبس الشهرة، حدیث:۴۰۳۱، طبراني حدیث:۸۳۲۷) “جس كسی نےكسی اور قوم كی مشابہت اختیار كی وہ ان ہی میں سے ہے ”۔نیز تھوڑے سے الفاظ كے فرق كے ساتھ فرمایا: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا» ترمذي،الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِشَارَةِ اليَدِ بِالسَّلَامِ، حدیث:۲۶۹۵، طبراني حدیث:۷۳۸۰) “جس نے ہمارے غیر كی مشابہت اختیار كی وہ ہم میں سے نہیں ہے”۔ یہ بھی حقیقت ہے كہ اسلام نے غیروں كو اسلامی عبادت كرنے اور اسلامی لباس وپوشاك اختیار كرنے كا نہ حكم دیتا ہے اور نہ ہی ان كو ترغیب دیتا ہے۔
اس وقت CAA, NRC, اور NPR كے خلاف پور ے ملك میں صدائے احتجاج بلند ہے ، یہ حق وصداقت اور عدل انصاف كی لڑائی ہے ، یقینا وہ لوگ قابل ستائش وتحسین، مباركباد، اورتمام باشندگان ہند كی طرف سے شكریہ كے مستحق ہیں ، جو بلاامتیاز مذہب وملت اورمسلك ومشرب كے اس میں شریك ہیں ، اورسب ایك دوسرے كو گلے لگا كر احتجاج كررہے ہیں ،اور خوب یكجہتی ویگانگت كا ثبوت دے رہے ہیں ، یقنا یہ اچھی چیز ہے ؛ البتہ بسااوقات اس میں اتنا غلو ہوجاتا ہے كہ مسلمان بھائی بہنیں اپنی شناخت سے محروم ہوجاتی ہیں ،یكجہتی اور یگانگت كے خلوص میں حد اعتدال كو پار كرجاتے ہیں جیسے غیر كی مذہبی پہچان پیشان پر قشقہ كا لگانا ہے ، وہ لگالیتے ہیں ، جے شری رام كا نعرہ میں ہم آواز ہوجاتے ہیں اور وندے ماترم میں شریك ہوجاتے ہیں ،یہ اچھی چیزیں نہیں ہیں ۔شاید شاعرمنور ھاشمی نے ایسے ہی موقعوں كے لئے كہا ہے :
محبتوں میں بھی لازم ہے اعتدال كا رنگ
خلوص حد سے بڑھا جب تو لوگ بھی ڈر گئے
شرعی نقطۂ نظر سے یہ ہمارے اسلامی عقائد كے خلاف بھی ہے ؛ اس لئے كسی مسلمان مرد اور عورت كے لئے پیشانی پر قشقے لگانا ، جےشری رام كے نعرےلگانا اور وندے ماترم پڑھنا شرعًا درست نہیں ہوگا ،یہ مذہبی انضمام ہے ، یگانگت واتحاد نہیں ہے ، مذہبی انضمام كا مطلب ، غیر كے مذہب كی تائید كرنا ، جس كا سیدھا سادہ مفہوم نكل كر آتا ہے كہ غیر مذہب درست وبرحق ہے ، اورغیر كو یہ پیغام دینا ہوتا ہے كہ آپ جس مذہب كومانتے ہیں ، وہ مذہب درست اور آپ كا عقیدہ صحیح ہے ، آپ اس پرقائم اور ثابت قدم رہیں ۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے كہ ہم خالص اسلامی نعرے لگانے شروع كردیں ، حیسے : لاالہ الا اللہ ، اللہ اكبر، نعرہ تكبیر اللہ اكبروغیرہ اور خلافت قائم كرنے كی بات شروع كردیں ،یقنا بات برحق اور درست ہیں ؛ لیكن ہردرست بات ہر جگہ نہیں كہی جاتی ہے ، درست بات یا درست نعرہ لگانے كے لئے درست اور صحیح موقع بھی ہونا ضروری ہے ، یہا ں اس كا موقع نہیں ہے ؛ كیونكہ یہ احتجاج صرف مسلمانوں كا نہیں ہے بلكہ ہندو مسلم، سكھ عیسائی، بودھ او كمیونسٹ سب مل كر احتجاج كررہے ہیں ، اور انصاف كی لڑائی لڑ رہے ہیں،یہاں كسی ایك مذہب والے كا اپنے مذہبی نعرہ پر اصرار كرنا اجتجاج كو ایك طرف ایك خاص گروہ كی پہچان بنانا ہوگا اوردوسری طرف اس احتجاج كو كمزور كرنا ہوگا او دشمن كی سازش كو تقویت پہونچا نا اور اس كو كامیاب بنانا ہوگا ۔
یہ موقع ہے مشترك باتوں كو لے كر آگے بڑھنے كی ہے ، حب الوطنی سیكولر نعرے ہوں ، جیسے :آزادی ، انقلاب زندہ باد، اسی طرح قومی یكجہتی كے طور پر مسلمان مرد ٹوپی لگا كر احتجاج میں شریك نہ ہوں بلكہ ٹوپی اتار دیں ، اس سے غیروں كومسلمانوں كے خلاف افواہ پھیلانے كا موقع ملتا ہے اور ہندوؤں كو بھڑكا نے كا بہانہ ملتا ہے ،اسی طرح جھنڈا قومی ہو مذہبی نہ ہو،قانون بچاؤ، ملك بچاؤ، دستور بچاؤ، عدل وانصاف چاہئیے ، حقوق چاہئیےاور امن وامان وغیرہ چاہئیےمطالبے ہوں ۔اس سلسلہ میں ہمیں قرآن اِسی كی تعلیم دیتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالی نے اہل كتاب سے كہا : “اے اہل كتاب !ایك ایسی بات كی طرف آجاؤ جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترك ہے الخ” [آل عمران:۶۴]۔ اس وقت یہی اعتدال پسندیدہ حكمت عملی ہے ، اسی سے كامیابی ملےگی، اور ہماری كشتی عافیت كے ساتھ ساحل كامیابی وكامرانی سے ہم كنار ہوگی۔
Comments are closed.