بنگلور کے تعلیمی سفر کی مختصر آپ بیتی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
بنگلور میں عصری ودینی علوم کے سنگم ’’وزڈم انٹرنیشنل اسکول‘‘ کے سالانہ پروگرام میں شرکت کے لئے ۶ مارچ ۲۰۲۰ء بروز جمعہ دہلی کے لئے سنبھل سے روانگی ہوئی۔ مسافر ہونے کی وجہ سے نمازِ جمعہ کی جگہ نمازِ ظہر ادا کرنے کی اجازت تھی، مگر رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عظیمت پر عمل کیا اور دہلی شاہراہ پر واقع ایک مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نام سے موسوم دہلی کے ہوائی اڈہ پر پہنچتے ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی جو تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی، جس کی وجہ سے اُس وقت کی تمام ہی فلائٹیں کم وبیش دو گھنٹے کے لئے ملتوی ہوگئیں۔ ہماری ایئرانڈیا کی فلائٹ بھی دو گھنٹے تاخیر سے ساڑھے نو بجے رات کو روانہ ہوئی۔ رات بارہ بجے بنگلور ایئرپورٹ پر پہنچے۔ دروس قرآن ودروس حدیث کے سو سے زیادہ انگریزی نسخے تقسیم کرنے کے لئے لگیج میں ساتھ رکھ لئے تھے۔ ایئرپورٹ کا نظام صحیح نہ ہونے کی وجہ سے سامان تاخیر سے ملا۔ ریاض میں مقیم میرے عزیز دوست جناب حامد علی صاحب کے نسبتی برادر مولانا عبد السلام گنگوہی کے ہمراہ بنگلور ایئرپورٹ سے وزڈم گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے بانی جناب فیاض شریف صاحب کے گھر رات دو بجے پہنچنے پر سوائے آرام کرنے کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ نمازِ فجر کے بعد فیاض شریف صاحب کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے اسکول کے قیام کے مقصد اور کارکردگی پر گفتگو ہوئی۔ ناشتہ سے فراغت کے بعد وزڈم انٹرنیشنل اسکول کی عمارتوں کا معاینہ کرتے ہوئے دسویں جماعت کے طلبہ وطالبات کے لئے منعقد ہونے والی اس پروقار الوداعی تقریب میں شرکت کی۔ بنگلور میں اسکولوں وکالجوں کا جال ہے۔ عیسائیوں کے بھی کافی تعداد میں اسکول ہیں۔ بیس سال قبل وزڈم انٹرنیشنل اسکول ایک طالبہ سے شروع ہوا تھا، جس کی اب ۱۸ شاخوں میں الحمد للہ بارہ ہزارطلبہ وطالبات نرسری سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ نرسری سے دوسری جماعت تک مخلوط تعلیم ہے لیکن تیسری جماعت سے دسویں جماعت تک لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ تعلیم حاصل کرتے ہیں حتی کہ طلبہ وطالبات کے آنے اور جانے کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ کا فرق رکھا گیا ہے۔ صوبۂ کرناٹک سے منظور شدہ اس اسکول میں عصری علوم کی بہترین تعلیم کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کا خاص انتظام کیا گیا ہے۔ ماشاء اللہ وزڈم انٹرنیشنل اسکول کے سابق طلبہ وطالبات کی اچھی خاصی تعداد دیگر کالج ویونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے اچھے عہدوں پر فائض ہے۔ انہیں طلبہ میں سے ڈاکٹر سہیل احمد بھی ہیں جنہوں نے B.Tech اور M.Techکرنے کے بعد Ph.D کی، اور آج وہ اپنے ہی اسکول کے سالانہ پروگرام میں مہمان اعزازی کے طور پر تشریف لائے۔
دارالعلوم دیوبند، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکابرین کی سرپرستی میں ہم نے بھی سنبھل میں گزشتہ سال النور پبلک اسکول کا قیام کیا، جس میں عصری علوم کی تعلیم کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کا خاص انتظام کیا گیا۔ اسکول کے پہلے ہی سال دوسو سے زیادہ طلبہ وطالبات زیر تعلیم رہے، امسال جنوری میں ہی دوسو سے زیادہ مزید داخلے ہوگئے یعنی اب النور پبلک اسکول میں نئے تعلیمی سیشن کے لئے چارسو سے زیادہ بچے ہیں۔ ۳ لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر سنبھل میں ۷۵ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ مگر افسوس اور فکر کی بات ہے کہ کالج بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی اسلام مخالف طاقتیں چلارہی ہیں، صبح کو اسمبلی میں مسلم بچوں کو بھی روزانہ مورتی کے آگے ہاتھ جوڑکر کھڑا کیا جاتا ہے۔ جمعہ کی نماز تک کے لئے چھٹی نہیں دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری نسلیں اپنی آخرت کو خراب کررہی ہیں۔ ابھی تو ان بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کی آخرت کی فکر ہے اور شہر میں دینی ماحول بھی ہے ، جس کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول سے واقفیت موجود ہے، لیکن آئندہ نسل کو مرتد ہونے سے بچانا آسان نہیں ہے۔ اور خود ہمارے مسلم بھائیوں کی نگرانی میں چلنے والے اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیم اور تربیت موجود نہیں ہے، حالانکہ مسلم بچوں اور بچیوں کے لیے انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام اس اعلان کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان میں دینی تعلیم وتربیت کا بھی انتظام کیا جائے گا، کیونکہ آج بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد اپنی اولاد کواسکول وکالج میں اعلیٰ تعلیم دلاکر یہ ضرور چاہتی ہے کہ ان کے بچے اپنے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کے ساتھ اتنا دینی علم ضرور حاصل کرلیں کہ وہ کم از کم نماز وروزہ کے پابند بنیں اور بڑے ہوکر اپنے ماں باپ کا ادب واحترام کریں۔ مگر آہستہ آہستہ یہ اسکول بھی مغربی تہذیب سے ایسا متاثر ہوجاتے ہیں کہ مسلم اسکولوں اور دیگر اسکولوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ اقرأ جیسے خالص اسلامی ناموں سے اسکول کو موسوم کرکے بھی دین کے فرائض تک کا خیال نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے ہماری بچے دینی ضروری معلومات اور اردوسے بالکل ناواقف ہورہے ہیں حتی کہ انہیں اللہ، رسول، فرشتے، موت، قبر، قیامت اور جنت ودوزخ سے متعلق بنیادی عقائد بھی معلوم نہیں ہوتے ۔ انتہائی فکر کی بات ہے کہ آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا؟ اس لیے ضروری ہے کہ علماء کرام مدارس اسلامیہ کی بقا کی کوشش کے ساتھ ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چل کر وقت کی پکار پر لبیک کہہ کر انگلش میڈیم اسکولوں وکالجوں کو قائم کرنے میں خود سبقت کریں اور آنے والی نسلوں کے ایمان وعمل کی حفاظت کریں۔ زرا سوچیں کہ آج سے سو سال پہلے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں علماء کرام اور دانشورانِ قوم کی ایک جماعت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں عصری درسگاہ کی بنیاد رکھی تھی۔
مسلم طلبہ وطالبات کی بہت بڑی تعداد اب مدارس کے بجائے اسکولوں اورکالجوں کا رخ کرتی ہے، اور یہ تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو، مگر ان کی معیاری عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا ہم سب کا پہلا اور بنیادی مقصد ہے۔ علماء کرام نے مدارس کی ذمہ داری اپنے ذمہ اور اسکولوں وکالجوں کے قیام اور اُن کو چلانے کی مکمل ذمہ داری عملی طور پر غیر علماء کو دے رکھی ہے، لیکن ضرورت ہے کہ علماء کرام کی سرپرستی میں ہر علاقہ میں اسکولوں اور کالجوں کا قیام کیا جائے تاکہ ہمارے بچوں کی ایسی تعلیم وتربیت کی جائے کہ وہ جہاں اچھے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، پروفیسر، افسر اور سائنس داں بنیں، وہیں وہ امانت دار، جھوٹ نہ بولنے والے، رشوت نہ لینے والے، ملاوٹ نہ کرنے والے، دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے، حرام لقمہ نہ کھانے والے اور نماز وروزہ کی پابندی کرنے والے مسلمان بھی بنیں تاکہ اُن کو دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی ملے اور آخرت کے بہت بڑے خسارے، نقصان اور دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔
وزڈم انٹرنیشنل اسکول کے تعلیمی وانتظامی امور کو دیکھ کر مجھے جو خوشی ومسرت ہوئی، اُن کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جن عزائم کو لے کر ہم نے اپنے وطن سنبھل میں گزشتہ سال دارالعلوم دیوبند، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکابرین کی سرپرستی میں اسکول قائم کیا ہے وہ الحمد للہ وزڈم انٹرنیشنل اسکول میں کافی حد تک موجود ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ اسکول نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں ایک موڈل کے طور پر سامنے آئے تاکہ اس نظام کے تحت ہر جگہ اسکول وکالج قائم کئے جائیں کیونکہ سارے بچوں کا ہمارے اسکول میں داخلہ ممکن نہیں ہے، اور نہ ہی ہمارا یہ مقصد ہے کہ دیگر اسکول بند ہوجائیں، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دیگر اسکولوں وکالجوں میں زیر تعلیم بچوں کے لیے بھی دینی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے۔ عمومی طور پر انگلش میڈیم اسکولوں میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے، جس کے نقصانات سے پوری قوم اچھی طرح واقف ہے۔ حتی کہ بعض غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے چلائے جانے والے مخلوط تعلیمی اداروں میں ہماری مسلم بچیاں غیر مسلم بچوں کے ساتھ پڑھ کر اپنے ایمان وعمل کا سودا کررہی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہر علاقہ میں خاص طور پر بچیوں کے لئے اسکولوں اور کالجوں کا قیام کیا جائے۔ ظہر کی اذان تک کامیاب پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں طلبہ وطالبات کے ساتھ بچوں کے والدین بھی کثیر تعداد میں شریک تھے۔
ظہر اور عصر کے درمیان وزڈم انٹرنیشنل اسکول کے اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کے د وران میں نے اساتذہ سے کہا کہ وقت امانت ہے، اس لئے اسکول کے دوران وقت کا صحیح استعمال کرکے جہاں بچوں کو عصری علوم کا ماہر بنایا جائے وہیں ان کی دینی تربیت بھی کی جائے۔ نیز بتایا کہ جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے اسی طرح اسکول میں وقت کا حتی الامکان صحیح استعمال کرنا بھی عبادت ہے۔ عصر اور مغرب کے درمیان بنگلور شہر کی بعض مشہور مساجد دیکھنے کے لئے جانا ہوا۔ بنگلور کے یتیم خانہ اور اس کے اسکول کو بھی دیکھا۔ بنگلور شہر میں نکاح عموماً سادگی کے ساتھ مساجد میں ادا ہوتا ہے اور ہر مکتب فکر کے لوگ دوسرے مکتب فکر کی مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں، غرضیکہ اختلاف تو ہے لیکن اس میں شدت نہیں ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے علاقہ کے مسلمانوں میں بھی اتحاد واتفاق پیدا فرمائے۔ آمین۔ عشا کے بعد بنگلور کے مشہور اردو اخبار ’’سالار‘‘ کے دفتر جانا ہوا جہاں سالار کے منیجر جناب عثمان صاحب اور ایڈیٹر جناب اسجد نواز سے بھی ملاقات ہوئی۔ تقریباً ایک لاکھ نسخے شائع ہونے والے جنوب کے سب سے بڑے اردو اخبار ’’سالار‘‘ میں ہمارے مضامین کثرت سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد شاہین باغ کے طرز پر بلال باغ میں منعقد خواتین کے احتجاج میں شرکت کی، جس میں تقریباً ۲۵ منٹ کی گفتگو کرکے CAA، NPR اور NRC کی وجہ سے ملک میں ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرکے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان قوانین کو ملک کے دستور کی حفاظت کے لئے واپس لیا جائے۔ دوسرے دن ۸ مارچ کو نماز فجر سے فراغت کے بعد تقریباً دو گھنٹے فیاض شریف صاحب کے تجربات کی روشنی میں النور پبلک اسکول کو مزید بہتر طریقہ سے چلانے کے لئے گفت وشنید ہوئی۔ دعا ہے کہ النور پبلک اسکول کی بھی مختلف شاخیں سنبھل اور سنبھل کے باہر قائم ہوں۔ ناشتہ سے فراغت کے بعد مولانا عبد السلام صاحب کی معیت میں مدرسہ مسیح العلوم جانا ہوا جہاں دورۂ حدیث تک تعلیم ہوتی ہے، مدرسہ کے مہتمم جناب مفتی محمد شعیب اللہ صاحب اور چند اساتذہ کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ مفتی محمد شعیب اللہ صاحب نے بھی دینی تربیت کے ساتھ ایک اسکول قائم کیا ہے۔ اس کے بعد بنگلور کے ایک دوسرے تعلیمی ادارہ ’’مدرسہ سبیل الرشاد‘‘ کی شاندار عمارتوں کو دیکھ کر دارالعلوم دیوبند کی زندگی یاد آگئی۔ واپسی میں دارالعلوم شاہ ولی اللہ بھی جانا ہوا۔ مدرسہ کے مہتمم مولانا زین العابدین صاحب کی عدم موجودگی میں دیگر اساتذہ سے ملاقات ہوئی، تعلیم کے نظام کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔سنبھل کے مشہور عالم دین مفتی عبد الغفور قاسمی، جو فی الحال بنگلور شہر میں بغرض علاج مقیم ہیں اور بنگلور شہر کے ایک دوسرے بڑے عالم دین مفتی عبدالغفار قاسمی سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ مفتی عبدالغفار قاسمی دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۸۹ء میں فارغ ہوئے تھے مگر تکمیل ادب، تکمیل تفسیر اور افتاء کی تعلیم کی وجہ سے میرے ۱۹۹۴ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے تک وہ دارالعلوم دیوبند میں مقیم تھے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ دار جناب سلیمان خان نے بروز اتوار نماز ظہر سے فراغت کے بعد فیاض شریف صاحب کے دولت کدہ پر آل انڈیا ملی کونسل صوبہ کرناٹک کے ذمہ داروں اور شہر کی سرکردہ شخصیات کو جمع کرکے خواص کا ایک اہم اجتماع منعقد کیا، جس میں بندہ کو ’’ہندوستان کے موجودہ تناظر میں ہم کیا کریں‘‘ کے موضوع پربات کرنے کا مکلف بنایا گیا۔ اللہ کے فضل وکرم سے ۴۰ منٹ کی اپنے بات میں لوگوں کو پیغام دیا کہ سب سے پہلے ہم اپنا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے مضبوط کریں، دوسرے آپس میں اتحاد واتفاق کی کوشش کریں اور امت کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کے لئے عملی اقدام بھی کئے جائیں۔ تیسرا پیغام غیر مسلمین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے متعلق تھا تاکہ ہندومسلم کے درمیان پیدا شدہ نفرت کو کم کیا جائے جس سے ملک میں امن وسکون وشانتی کا ماحول پیدا ہو۔ نیز میں نے CAA، NPR اور NRC کے خلاف پر امن احتجاج کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا تاکہ حکومت ملک کے دستور کے خلاف ان قوانین کو واپس لے۔
Comments are closed.