جمعہ نامہ : حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ

ڈاکٹر سلیم خان
چچاجمن اپنے ساتھ للن اور کلن کو ایک انقلابی اسلامی تربیت گاہ میں لے گئے۔ ۔ للن اسلام اور کلن انقلاب کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا تھا لیکن ان کے باہمی تعلق سے وہ واقف نہیں تھے اس لیے تیار ہوگئے ۔ اجتماع شہر کے بہترین شادی خانے میں تھا ۔ ماہ ِمحرم کے سبب خالی تقریب گاہ مفت میں مل گئی ۔ کاروباری ذہنیت کے مالک نے سوچا اجتماع میں آنے والےنوجوان اپنی اور بزرگ اپنے بچوں کے شادی کے موقع پر اِس سخاوت کی قدر دانی کریں گے ۔ صبح صبح ورزش کے بعد پسینے سے شرابور للن اور کلن کے بیچ پہلے نہانے پر تنازع ہوگیا ۔ دونوں پہنچے جمن کے پاس تو انہوں نے جیب سے سکہ نکال کر کہا دیکھو تمہارا فیصلہ یہ کرے گا۔ للن نے پوچھا یہ کیسے کرے گا ؟ اس کو نہ عقل ہے اور نہ زبان ہے ؟ جمن نے مشہورقوالی کا مطلع سنا دیا ؎
سنسار میں باجے ڈھول یہ دنیا میری طرح ہے گول یہ پیسہ بولتا ہے ، یہ پیسہ بولتا ہے
اسی کے ساتھ جمن نے سکہ ہوا میں اچھا کر کہا بولو کاٹا یا چھاپا ۔ اس سے پہلے کے للن منہ کھولتا کلن نے کہا کاٹا۔ سکہ زمین پر آیا تو سیدھا کھڑا تھا ۔ نہ چت نہ پٹ۔ جمن نے للن سے پوچھا اب تم بولو ۔ للن بھی بولا کاٹا۔ جمن نے آنکھ بند کر سکےّ کو مس کیا تو چھاپا تھا ، دونوں ہار گئے ۔ جمن نے کہا اب دونوں ایک ساتھ نہا لو۔ وہ بولے یہ نہیں ہوگا ۔ ہم اس بے جان سکےّ کی نہیں آپ کی مانیں گے ۔ ا ٓپ فیصلہ کریں ۔ جمن بولے پہلے للن اور پھر کلن۔ للن حمام میں گیا تو دیکھا گیزر پہلے سے چل رہا ۔ اس نے دروازے کے اوپری سرے پر لگی دیسی چٹخنی چڑھائی اور نہانے لگا۔ گرم پانی نے اس کے چودہ طبق روشن کردیئے۔ باہر سے کلن کی آواز آئی کیا شام تک نہاتے رہوگے۔ آج جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھوگے کیا؟یہ سن کر للن نے کام تمام کیا اور تولیے سے بدن خشک کرنے کے بعد دروازے کے ہینڈل کے نیچےچمکتے دمکتے انگریزی لاک(تالہ) کو دیکھا ۔ وہ اس تالے کے بٹن کو کبھی دائیں جانب(کلاک وائز) تو کبھی (اینٹی کلاک وائز) گھماتا لیکن دروازہ تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا ۔
کلن پھر سے آواز دی ابے کیا کررہا ہے چٹخنی پھنس گئی ہے کیا؟ یہ سن کر للن کو اوپر لگی چٹخنی کا خیال اور وہ اسے کھول کر باہر آگیا۔ کلن نے پوچھا مسئلہ کیا تھا ؟ للن کے بتانے پر قطار میں کھڑے جمن چچا بولے حمام کوجس چٹخنی سے بندکیا جائے تو اسی سےکھولیں پروہ کھلتا ہے۔ دیسی کنڈی سے بندہونے والا دروازہ انگریزی لاک پر زور لگانےسے نہیں کھلتا ۔ کلن اور للن کی تربیت کے لیے یہ پہلا سبق تھا۔حمام میں جاتے ہوئے کلن نے پوچھا بھائی پانی تو گرم آرہا ہے؟ للن نے ہاں کہا۔ کچھ دیر بعد پھر سے وہ لڑ رہے تھے کلن کہہ رہا تھا یارمیں نے سوچا کہ تم کم ازکم اجتماع میں جھوٹ نہیں بولو گے؟ للن چڑ کر بولا یہ تو عجیب بات ہے کہ اگر میں تائید کروں تو اس کا مطلب ہوگا اجتماع کے علاوہ جھوٹ بولتا ہوں اور انکار کروں تو اس کے معنیٰ ہوں گے اجتماع میں بھی جھوٹ بولتا ہوں۔ کلن بولا اچھا تو کیاتم کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ للن شرما کر بولا بھائی ایسا کون ہوگا جو کبھی بھی جھوٹ نہ بولتا ہو۔
کلن نے سوال کیا اچھا تواب سچ سچ بولو کہ تم نے پانی کے متعلق یہ کیوں کہا کہ وہ گرم ہے؟ وہ تو پانی ٹھنڈا تھا۔ للن بولا تم جھوٹ بول رہے ہو پانی گرم تھا ۔ کلن بولا نہیں تم جھوٹے ہو پانی ٹھنڈا تھا ۔ جمن چچا نے صلح صفائی کراتے ہوئے کہا میں نے فجر سے پہلے گیزر چلا دیا تھا۔ اس سے جو پانی گرم ہوا وہ للن نے استعمال کرلیا ۔ اس دوران گیزر میں جو ٹھنڈا پانی گیا اس کو کلن کے نہانے سے قبل گرم ہونے کا موقع نہیں ملا اس لیے تم دونوں سچے ہو ۔ یہ ان کا دوسرا سبق تھا کہ اختلاف کے باوجود دونوں درست تھے ۔ کمرے میں آکر کلن نے کہا یار یہ مچھر بھگاو چراغ رات بھر جلا مگر مچھر نہیں بھاگے ۔ للن نے جواب دیا بھائی اس کے اندر کا تیل(مائع) ختم ہوگیا اس لیے صرف بتی کو جلتا دیکھ کر ہم تو بہل سکتے ہیں لیکن مچھر نہیں بھاگ سکتے۔ کلن نے شیشی کو دیکھا تو وہ خشک تھی ۔ یہ تیسرا سبق بھی انہوں نے بغیر تقریر کے سیکھ لیاتھا کہ مچھر کو بیوقوف بنانا انسان کو بیوقوف بنانے سے مشکل ہے۔
Comments are closed.