امیت شاہ جی! دہلی فساد کا سچ تو بتائیں!

شکیل رشید
ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن
دہلی کا تشدد منظم سازش تھا!
یہ ہمارے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے ۔ اور یہ بات انہوں نے کہیں کسی سڑک یا چوراہے پر کسی مجمع سے خطاب کرتے ہوئے نہیں ، پارلیمنٹ میں دہلی تشدد پر بات کرتے ہوئے کہی ہے ۔ انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی کہ اترپردیش (یوپی) سے کوئی تین سو افراد تشدد کے لئے دہلی آئے تھے اور یہ کہ ان کی شناخت کا کام جاری ہے ، اور جلد ہی دہلی تشدد کی سازش رچنے والے بے نقاب کئے جائیں گے ۔ امیت شاہ نے دہلی پولس کی پیٹھ بھی تھپتھپائی کہ اس نے ’’ محض ۳۶ گھنٹے میں دہلی کے تشدد پر قابو پالیا ‘‘۔۔۔ ویسے سچ یہ ہے کہ سازش کی ، وہ بھی منظم سازش کی بات کرنے والے ہمارے مرکزی وزیر داخلہ کا حافظہ کبھی کبھی ان کا ساتھ نہیں دیتا ، بالکل’ دروغ گوراحافظہ نباشد‘ کے مصداق ۔ ۲۵؍ فروری کو انہوں نے دہلی کے نومنتخب وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور لیفٹنٹ گورنر انل بیجل کے ساتھ دہلی کے حالات پر غوروخوض کے لئے ایک میٹنگ لی تھی ، اس کے بعد پی آئی بی کی طرف سے ان کا ایک بیان جاری کیا گیا تھا کہ ’’ شری شاہ نے کہا ہے کہ پیشہ ورانہ اندازہ یہ ہے کہ راجدھانی میں تشدد اچانک تھا۔‘ ‘ خیر، وہ جب اور جس طرح چاہیں اپنے کہے ہوئے سے پھر سکتے ہیں ، بھارت ان کی جاگیر جو ٹہرا۔ لیکن ان کے پھرنے اور مُکرنے کے باوجود بات تو ہوگی ۔
اگر یہ کہا جائے کہ دہلی کا تشدد ان کے لئے جو اس تشدد سے متاثر ہوئے ، اچانک اور فوری تھا تو بات مانی جاسکتی ہے ۔ عام طور پر لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ دہلی میں اتنے بڑے پیمانے پر ایک فرقے کے خلاف تشدد ہوسکتا ہے ۔ لیکن یہ بات بہرحال سچ ہے کہ یہ فساد، جسے ’ مسلم مخالف فساد‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ، منصوبہ بند تھا، سازش تھا۔ اور اس منظم تشدد اور سازش کے چہرے اور مُہرے اور منصوبہ ساز کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں ، ہمارے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے تو بالکل نہیں ۔
امیت شاہ سارے تشدد کو سازش تو قررا دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ اپوزیشن نے بالخصوص کانگریس اور صدر کانگریس سونیا گاندھی نے جو ’’نفرت بھری تقریریں‘‘ کیں ، اور جو سی اے اے مخالف مظاہرین کو ’’اکسایا، بھڑکایا‘‘ اس نے دہلی کو تشدد کی بھینٹ چڑھایا ۔ گویا یہ کہ یہ سازش اپوزیشن کی تھی ! اور اس میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کا ’ کردار‘ تھا کہ وہ اپوزیشن کے اکسانے اور بھڑکانے میں آئے ۔ یعنی سارا کا سارا قصور اپوزیشن اور سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کا ہے ، اور وہ جو اپنی زہریلی تقریروں کے باوجود آج تک آزاد ہیں ، جن کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ہے ، معصوم محض ہیں! ملک کا وزیرداخلہ یوں حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے بات کرے تو افسوس ہوتا ہے ، ہونا بھی چاہیئے لیکن امیت شاہ کے کہے پرافسوس اس لئے نہیں ہورہا ہے کہ وہ ’ ’ایسے ہی ہیں ‘‘! لوگ یہ دریافت کرتے ہیں کہ بھلا وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، اور کپل مشرا کے نام کیوں نہیں لئے ؟ اس سوال کے جواب میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیوں ان لوگوں کے نام لیتے؟ ہمارے وزیر داخلہ تو اپوزیشن لیڈروں کو ’’زہریلی تقریروں‘‘ کا اور سی اے اے کے مخالفین کو ’’اکسانے اور بھڑکانے‘‘ کا قصوروار مان چکے ہیں ، لہٰذا مشرا ، ٹھاکر اور ورما کو وہ کیسے قصوروار مان سکتے ہیں !!!
حقائق کچھ اس طرح ہیں: ۲۳؍ فروری کودہلی کا تشدد شروع ہوا جو ۳۶ گھنٹے کے بعد بھی چلتا رہا ۔ تشدد میں سیکڑوں افراد تباہ وبرباد ہوگئے ، مکانوں اور دوکانوں اور کاروباری سینٹروں کو لوٹا اور جلایا گیا ۔ اور بے شمار افرار بے گھر ہوگئے ، مرنے والوں کی تعداد کوئی ۵۳ رہی ۔۔۔ یوں تو پارلیمنٹ میں سی اے اے کی منظوری کے بعد ہی ملک بھر میں ایک طرح کی کشیدگی پھیل گئی تھی۔ اس سیاہ قانون کے خلاف ملک گیر احتجاجات شروع ہوگئے تھے ، جو آج بھی شروع ہیں ، اور مسلمانوں کے ساتھ ہندو اور دوسرے مذاہب کے بے شمار افراد بھی اس سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں ۔ بی جے پی کو یہ لگ رہا تھا کہ سی اے اے کی منظوری سے اسے سیاسی فائدہ حاصل ہوگا مگر دہلی میں عام آدمی پارٹی کے سامنے اسے شرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھیم آرمی کے ’’بھارت بند‘‘ کے اعلان کے بعد جعفر آباد میں میٹرو اسٹیشن کے پاس ، سڑک کے ایک حصے پر خواتین نے ۲۲؍ فروری کی شب احتجاجی مظاہرہ شروع کیا ۔ بی جے پی کے کپل مشرا نے پولس کو دھمکی دے کر تین دن کے اندر سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرہ ختم کرنے کو کہا ۔ کپل مشرا نے ٹوئیٹ کحا کہ ’’جعفر آباد کو خالی کرالیا گیا ہے ۔ اب دوسرا شاہین باغ نہیں بنے گا ۔ ‘‘ اس سے قبل انہوں نے ’’سڑکوں پر اتریں گے ‘‘ اور ’’امن برقرار نہیں رہے گا ‘‘ جیسی دھمکیاں دی تھیں ۔۔۔ الیکشن مہم کے دوران بھی انہوں نے نفرت سے بھری ہوئی باتیں کی تھیں ۔ دہلی اسمبلی الیکشن کو انہوں نے ’’دہلی کی سڑک پر ہندوستان اور پاکستان کا مقابلہ ‘‘ قرار دے دیا تھا۔۔۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے ان پر اسمبلی مہم میں مزید حصہ لینے پر پابندی عائد کردی تھی لیکن ان کے نفرت بھرے بیانات تھمے نہیں تھے ۔۔۔ ۲۳؍ فروری کو کپل مشرا نے ریلی نکالی ،ان کی ریلی سے دس کلو میٹر کی دوری پر کھجوری خاص میں ایک اور ریلی نکالی گئی جس میں ’’ جے شری رام‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ سڑک گھیرنے والوں کو ہٹائیں ۔ لوگوں نے دوکانیں بند کرائیں اور پیر کے روز چن چن کر مسلمانوں کی دوکانوں اور عبادت گاہوں کو تباہ اور جلانے کا عمل شروع ہوگیا ۔۔۔ ۲۶؍ فروری تک لوٹ پاٹ ، جلانے اور تجارتی مراکز، دوکانوں، مکانوں کو برباد کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔۔۔ انگریزی نیوز پورٹل ’’اسکرال ڈاٹ اِن‘‘ نے تشدد کی جو رپورٹ شائع کی ہے ان کے ان الفاظ پر غور کریں ۔’’تشدد صریح فرقہ وارانہ تھا۔ دونوں طرف کی بھیڑ نے ایک دوسرے پر ڈنڈے ، گولیوں اور پٹرول بموں سے حملہ کیا ۔ مسلمانوں کے اوپر حملہ بہت شدید تھا۔ ان کے احتجاجی مظاہروں کے ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا گا ۔ ان کی عبادت گاہیں بھی نہیں چھوڑی گئیں ۔ تشدد کے دوران بہت ساری مسجدوں پر حملے کئے گئے اور اشوک نگر کی مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرادیا گیا ۔ پولس کی ملی بھگت واضح تھی، وہ یا تو تشدد سے آنکھیں بند کئے رہی یا بہت سی جگہ پر بذات خود لوگوں کو تشدد پر اکساتی یا اس میں عملی حصہ لیتی رہی ۔‘‘ کپل مشرا کا کردار دہلی تشدد میں کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اگر کپل مشرا پولس کو دھمکی نہ دیتے اور ریلی نہ نکالتے تو دہلی شاید نہ جلتا ۔۔۔ مزید چہرے ہیں جنہیں ہمارے وزیرداخلہ نہیں دیکھ پارہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ اندیکھا کررہے ہیں ۔ پرویش ورمااور انوراگ ٹھاکر ۔ بی جے پی کے ان دونوں لیڈروں کی ’’زہریلی تقریریں‘‘ دہلی کے ماحول کو کشیدہ کرنے کا کام کرتی رہی ہیں ۔ کپل مشرا ہی کی طرح اسمبلی الیکشن کی مہم میں ان دونوں نے بھی زہریلی تقریریں کی تھیں ۔ کیا’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ زہریلا نعرہ نہیں ہے ؟ ہے ، بالکل ہے لیکن ہمارے مرکزی وزیر داخلہ نہ جانے کیوں اسے زہریلا ماننے کو تیار نہیں ہیں ، ہاں لیکن اپوزیشن کے ان لیڈروں کی تقریروں کو ، جنہوں نے سی اے اے کی مخالفت میں شاہین باغ اور دوسرے احتجاجی مراکز کی آواز میں آواز ملائی ، جنہوں نے غیر آئینی سیاہ قانون پر نکتہ چینی کی اور اسے واپس لینے کی مانگ کی ، وہ زہریلا اور نفرت بھرا، مان بھی رہے ہیں اور اعلان بھی کررہے ہیں کہ اپوزیشن کی ’’زہریلی تقریروں‘‘ سے دہلی میں تشدد ہوا ۔۔۔
پولس کا جو کردار رہا ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ رپورٹیں آئی ہیں جن میں پولس اور فسادیوں کے درمیان تال میل کے ثبوت پیش کئے گئے ہیں ۔ ویڈیو آئے ہیں جن میں پولس والوں کو فسادیوں کے ساتھ مل کر پتھراؤ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ مسجد میں آگ لگاتے اور بے قصوروں کو بے تحاشہ پیٹیے ہوئے بتایا گیا ہے ۔یہ دہلی پولس ہی تو تھی جس نے تین مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر قومی ترانہ پڑھنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔ ان میں سے ایک نوجوان فیضان جس کی عمر ۲۳ برس کی تھی ، بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔۔۔ پولس کا کردار ’ظالمانہ‘ اور ’ جانبدارانہ‘ تھا لیکن ہمارے وزیرداخلہ اس پولس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں ۔ جب لوگ مدد کے لئے آوازیں لگارہے تھے تب پولس کے کان یا تو بند تھے یا وہ پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ فسادیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔
یہ فسادی کون تھے ؟ پولس جنہیں گرفتار کررہی ہے ان میں ایک اطلاع کے مطابق متاثرین ہی کو فسادی بنادیاگیا ہے !! اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گرفتار شدگان میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی ہی ہوگی ۔ ہمارے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ یوپی سے تین سو کے قریب لوگ دہلی تشدد کے لئے آئے تھے (دہلی اقلیتی کمیشن کا کہنا ہے کہ باہر سے۲ہزار لوگ دہلی جلانے کے لئے آئے تھے ) اب اگر یہ مسلمان تھے تو سوال یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان تھے کہ اپنی ہی مسجدیں جلائیں ، بھگوا جھنڈا لہرایا ، اور سی اے اے کے مخالف مسلم مظاہرین پر حملہ کیا !! یہ ممکن نہیں ہے ۔ فسادیوں کی شناخت کوئی مشکل نہیں ہے ، آڈیو اور ویڈیو جو سامنے آئے ہیں ان میں انہیں ’’جئے شری رام ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔ امیت شاہ سے دوسوال ہیں : یوپی میں تو بی جے پی کی ہی حکومت ہے ، یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ ہیں ، ان کی پولس سی اے اے مخالفین پر تو گولی باری بھی کرتی ہے ، بھلا کیا وہ اس وقت سورہی تھی جب یہ فسادی یوپی کی سرحد پارکرکے دہلی میں داخل ہورہے تھے ؟؟ کہیں یہ تو نہیں کہ یہ سب سنگھی پیدل فوج کا حصہ تھے اور سنگھی پیدل فوج کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہے ۔ مزید یہ سوال ، دہلی کی پولس تو وزیرداخلہ جی آپ کے ہاتھ میں ہے پھر یہ ۳۶ گھنٹے کیوں تشدد پر قابو پانے میں لگے؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ ’’ انٹلی جنس ناکام‘‘ رہا ؟ اور سب سے اہم سوال ، کیا وہ تقریریں جو آپ نے اور یوگی نے دہلی اسمبلی الیکشن کے موقع پر کی تھیں ، بھڑکاؤ ، اکسانے والی اور اشتعال انگیز نہیں تھیں؟؟ کہا تو یہی جاتا ہے کہ یہ تقریریں اشتعال انگیز تھیں ، پھر آپ دونوں کیسے دہلی تشدد میں اپنے کردار سے پلّہ جھاڑ سکتے ہیں؟؟ دہلی فساد کا یہ وہ سچ ہے جو حکومت بتانے کو تیار نہیں ہے ۔
Comments are closed.