مدھیہ پردیش کا سیاسی بحران، غلطی کس کی؟

 

ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ

8527118529

مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کی قیاد ت والی کانگریس حکومت کے خلاف جیوتی رادتیہ سندھیا کی بغاوت،استعفیٰ اور آنا فاناً میں بی جے پی میں ان کی شمولیت کانگریس قیادت کیلئے جہاں ایک طرف بہت بڑا دھچکاہے وہیں دیگر کانگریس حکومت والی ریاستوں میں سدھار لانے کا ایک بہترین موقع بھی ہے۔کمل ناتھ کی حکومت برقرار رہے گی یا پھر بی جے پی کا ایک بار پھر پرچم لہرائے گا ،یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا لیکن مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کے بحران میں شدت پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے ہے ۔سوال یہ ہونا چاہئے کہ آخر 18سے مسلسل خدمات انجام دینے والے سندھیا نے پارٹی چھوڑنے کا اتنا بڑا فیصلہ کیوں اور کس وجہ سے لیا؟آخربی جے پی کو سندھیا میں وہ کونسی خوبی نظرآئی جس کی وجہ سے وہ عہدہ دینے پر تیار ہوگئی جسے کانگریس نے دینے سے انکارکردیاتھا؟۔کیا کانگریس کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا یا پھر کانگریس سندھیا کی سیاسی صلاحیت کو پہچان نہیں سکی۔کمل ناتھ تجربہ کار اور بہت ہی سینئر سیاست داں ہیں لیکن جیوتی رادتیہ سندھیا نہ صرف نوجوان سیاست دان ہیں بلکہ ان کی سیاسی فہم و فراست سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔یہ ان ہی کی سیاسی بصیرت تھی کہ 15سال سے قائم شیو راج سنگھ چوہان کی قیادت والی بی جے پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں کانگریس کامیاب ہوئی۔حکومت کی تشکیل کے بعد سے ہی مدھیہ پردیش اور راجستھان کی سیاست میں ایک بار اتھل پتھل شروع ہوگئی تھی۔مدھیہ پردیش میں سندھیا اور راجستھان میں سچن پائلٹ کی انتھک کوششوں سے ہی وہاں کانگریس کی حکومت تشکیل کرپائی تھی۔جس کے بعد دونوں ہی نوجوان وزیر اعلیٰ بننے کے دعوے دار تھے لیکن دونوں ہی کو اس عہدے سے محروم کردیاگیا۔کرناٹک کی طرح دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی مضبوط اپوزیشن میں ہے ،اس لئے جب کرناٹک میں بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس کے ممبروں کو خریدنے میں نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ ضمنی انتخابات میں زبردست جیت درج کرواکر ریاست میں ایک مضبوط حکومت کی تشکیل دے دی ،ایسے میں کانگریس کا اپنی ہی حکومت والی ریاستوں کے اندر چل رہی سیاسی چپقلش سے غافل رہ کر بی جے پی پر کانگریسی ممبران اسمبلی کوتوڑنے اور وہاں کی منتخب حکومتوں کو ختم کرنے کا الزم دینا کہاں کی دوراندیشی ہے؟ وقت سے قبل کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے ان کے درمیان جاری سیاسی تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟جیوتی رادتیہ سندھیا کوئی چھوٹے موٹے لیڈر نہیں کہ انہیں اس طرح نظرانداز کردیاجائے۔حقیقت تو یہ ہے کہ قیادت کی ناکامی کی وجہ سے کانگریس جو تھوڑی سنبھلتی ہوئی نظرآرہی تھی اب پورے طورپر بکھرگئی ہے۔کانگریس کے اندرون شگاف واضح طور پر نظرآنے لگاہے۔ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی میں قیادت کی منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہر ریاست اور اکائی میں کانگریس میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں یوتھ بمقابلہ سینئر کے مابین قیادت کی جدوجہد جاری ہے۔جیوتی رادتیہ سندھیا مدھیہ ریاست کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے، لیکن کمل ناتھ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سندھیا کے حامیوں کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش نہیں آئے ،جس کی وجہ سے سندھیا کی ریاستی اور مرکزی قیادت سے ناراضگی بڑھتی چلی گئی۔اگر کانگریس کی اعلیٰ قیادت چاہتی ، تو وہ وقت سے قبل ہر صورتحال پر قابو پا سکتی تھی۔ راہل گاندھی کے کانگریس صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد ، صورتحال اور بھی غیر مساوی ہوگئی۔ ناراضگی بڑھتی گئی ، شگاف گہرا ہوتا گیا اور اقتدار کے منہ پر بیٹھے بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھالیا۔یہ سب کچھ تو سیاست میں ہوتارہتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاسندھیا، بی جے پی میں جاکر مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ بن سکیں گے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ جس طرح سندھیا، کانگریس میں پورے مدھیہ پردیش کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ لیڈر تھے ، کیا انہیں یہ اعزاز بی جے پی میں ملے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا گوالیار-چمبل ڈویزن میں پہلے سے موجود بی جے پی قائدین کی ایک مضبوط ٹیم انہیں اپنا قائد تسلیم کرے گی ؟خاص طور پر جب ان رہنماو¿ں کی سیاست کی بنیاد برسوں سے سندھیا کی مخالفت پر رہی ہے ۔ ویسے بھی ، سندھیا گھرانا کو اپنے قد کے مطابق بی جے پی میں کبھی بھی اقتدار میں حصہ نہیں ملا۔ تاہم ، مدھیہ پردیش کانگریس میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا تھا ، کانگریس میں ہر کوئی اس سے واقف تھا۔ تعداد کی طاقت بھی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ آرام سے بیٹھیں۔ اس لمحے آپریشن لوٹس کے امکانات تھے۔ اس کے باوجود ، کانگریس نے سب کچھ کمل ناتھ پر کیوں چھوڑ دیا؟۔یہ سچ ہے کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت اب پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہے۔ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد اس میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں ، نوجوانوں کی امنگ کو برقرار رکھنا کانگریس کے مستقبل کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ صرف نوجوان ہی کانگریس کے لئے اچھے دن لے سکتے ہیں۔ بزرگ کانگریس کیقیادت نئے اور نوجوان کانگریسیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، یہ کانگریس کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔راجستھان میں بھی سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے درمیان صورتحال بالکل وہی ہے جو مدھیہ پردیش میں سندھیا اور کمل ناتھ کے درمیان تھی۔ لہٰذا نوجوان قیادت کس سمت میں سوچ رہی ہے ، کانگریس کی سینئر قیادت کو جلد ہی اس معاملہ پر غور و خوض کرے تاکہ پارٹی کے اندر اعتماد بحال ہوسکے۔

Comments are closed.