حکومت کا آمرانہ رویہ ملک کے لیے خطرات کی تمہید

مولانا احمدحسین قاسمی
معاون ناظم امارت شرعیہ

جمہوریت اور سیکولرزم کا عظیم نمائندہ ملک بھارت، جو اپنے تکثیری سماج کے حوالے سے پوری دنیا میں معروف ہے ، گذشتہ چند دہائیوں سے اس کے افق پر فرقہ پرستی اور مذہبی جنون کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں ، خاص کر جب سے موجودہ حکومت اقتدار میںآئی ہے ، ملک میں ایک بڑی آبادی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت اور عداوت کے ماحول کو بڑا فروغ ملا ہے،آج سیاست کی تمام جد و جہد میں مذہب اور فرقہ پرستی کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے ، ملک گیر سطح پر سادہ اور صاف ذہن کو ہندو تو اکے نام پر پراگندہ کرنے کی منظم کوشش کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے دو بڑے مذہب کے پیرو کاروں کے درمیان غیر معمولی دوریاں اور نفرت کی گہری خلیج حائل ہو گئی ہے ۔ بر سر اقتدار حکومت کا سیاسی نقطۂ نظر اور اس کی پشت پر کار فرما RSSکی تنظیمی طاقتیں ملک کے آئین و دستور کے حق میں کتنی موافق اور کتنی مخالف ہیں؟ملک و بیرو ن ملک کے تمام با خبر لوگ اس سے کسی قدر واقف ہو چکے ہیں ۔حالیہ دنوں میں حکومت نے پے در پے اقلیتوں کو سامنے رکھ کر ملک کے اکثریتی طبقہ سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے جو اہم فیصلے لیے ہیں ، وہ ان کے اگلے ایجنڈے کی خطرناکیوں کی غماز ہے ، جن سے صرف نظر کرنا فقط ناعاقبت اندیشی نہیں بلکہ ملک کی سا لمیت اور اس کی جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف اور اپنے قومی وجود کو فنا کرنے کے برابر ہوگا۔اس میں ذرہ برابر بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ ملک کی حکومت ملک کی ضروریات اور تقاضوں پر کم اور اپنے سیاسی منشور پر زیادہ کام کر رہی ہے ، جس کا و ہ بار ہا فخریہ طور پر بر ملا اظہار بھی کرتی نظر آرہی ہے ، سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی جیسا متنازع قانون بھی اسی منشور کا ایک سازشی منظم حصہ ہے ، جس کی وجہ سے پورا ملک سراپا احتجاج نظر آرہا ہے ، ملک کی راجدھانی ’’دہلی‘‘بھی اسی کی نذر ہو گئی ، مگر حکومت پر اس اندوہناک اور سیاہ حادثے کا کوئی اثر نہیں پڑا ، اس کے کانو ں پر جوں تک نہیں رینگی ، کتنی معصوم جانیں ، خاندان ، محلے ، گھر ، سازو سامان ، کل متاع حیات اوراربوں کے املاک لٹ گئے اور خاک ہو گئے ، مگر وقت کے حاکموں اور آمروں کی آنکھ سے گھڑیالی آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکا۔
کسی نے خود کو مٹا دیا ہے وفا میں آنسو بہا بہا کے
کسی کی چشم جفا سے اشکوں کا ایک قطرہ گرا نہیں ہے
متنازع شہریت ترمیمی قانون ۲۰۱۹ء کے خلاف اتنا ہمہ گیر احتجاج اور ایسے پر امن طویل مسلسل دھرنے جس کی مثال آزادی کے بعد ملک کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی ، ملک کا کوئی ایسا شہر اور قابل شمار خطہ نہیں ،جہاں اس عوامی تحریک نے مہینوں تک صدائے احتجاج بلند نہ کی ہو ،اور آج تک یہ دھرنے پوری قوت کے ساتھ پر امن طریقے پر ملک کے اہم مقامات پر جاری ہیں ۔

دوسری جانب حکومت کا رویہ حد درجہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے کہ وہ ان احتجاج ومظاہروں سے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی منفی سوچ پر بضد ہے،جمہوریت کی آوازکودبانے کی نت نئی سازشیں کررہی ہے اور یہاں کے ایک خاص طبقے کی رضاجوئی اور اپنے سیاسی ایجنڈے کو رو بہ عمل لانے کے لئے ملک کے دیگر طبقوں کو نظر اندازکر رہی ہے ، اس کے رویے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اس قانون سے متعلق ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں ، اور اگر کہتی بھی ہے تو وہ فقط زبانی جمع خرچ ہے ۔واضح رہے کہ یہ خالص فاشسٹ ، نازی، متشدد اور آمرانہ نظریہ ہے ، جو ایک جمہوری ملک کے لیے پیش آنے والے سنگین خطرات کی تمہید سے کم نہیں۔
جیسا کہ ملک کا حکمراں طبقہ سیاسی سبھاوئوں میںاپنی حکومت کے انہیں کارناموں اور فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مستقبل میں لینے والے اسی قبیل کے اہم فیصلو ں کا ان کونمونہ قرار دے رہاہے ، جس سے بھارت میں اقلیتوں کو خوفناک مستقبل کا اشارہ ملتا ہے ۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کی فرقہ پرستی اور ان کے لیڈروں اور رضا کاروں کی مستقل زہر افشانیوں اور اشتعال انگیز بیانات نے ملک کے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیاہے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو دوبارہ دو نفرت کے خیموں میں تقسیم کرنے کا عملی کام انجام دیا ہے ۔ جس حکومت سے نفرت کے سوتے پھوٹتے ہوں ،جس کی فکری بنیادیں تشدد اور فرقہ پرستی کو جنم دیتی ہوں ، جس کا وجود ہی رواداری ، وسعت ظرفی اور مثبت نظریات کی نفی کرتا ہو ، ایسی حکومت ہر گز اپنے فرائض منصبی اور قومی امن و امان کا فریضہ انجام نہیں دے سکتی ۔ جس متنازع قانون کو لے کر منظم سازش کے تحت ملک کی راجدھانی دہلی کئی دنوں تک جلتی رہی ، انتظامیہ اور پولیس اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام نظر آئی اور ملک کے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب سے لے کر بیرون ممالک تک بھارت کے اقلیتوں میں خوف و ہراس اور ان کے عدم تحفظ کے خدشات پر اہم تبصرے ہو رہے ہیں اور دنیا کے موقر اخبار و جرائد میں اس موضوع پر ادارتی کالم لکھے جارہے ہیں اور حکومت اپنے فیصلے سے ایک انچ ہٹنے کو اگر تیار نہیں ہے تو یہ اس ملک کی جمہوریت اور اس کی عزت و وقار پر حرف لانے والا بڑا سوال ہے۔
حکومت کے آمرانہ رویے کی ایک مثال کشمیر کے موجود ہ بدترین حالات بھی ہیں کہ بلا ہو م ورک کے انسانی زندگی کے تقاضوں کی پرواہ کئے بغیر ۔جھوٹ کا سہارا لے کر خفیہ طورپر پورے کشمیر کو ایک سے دو دن میں فوجی چھائونی میں تبدیل کردیا گیا، تمام سیاسی وسماجی لیڈروں کو طویل مدت تک نظر بند رکھاگیا،غیر معینہ مدت تک کے لئے انٹرنیٹ ودیگر سہولیات سے کشمیری عوام کو یکسر محروم کردیاگیا، ایک لمبی مدت تک تعلیمی اوررفاہی ادارے مقفل رہے اورچلتی پھرتی زندگیاں گھروں میں بے بس بنا کرغیر انسانی طریقے پر محبوس کردی گئیں، جس کا گھٹن اورکرب آج تک وہا ں محسوس کیا جارہا ہے۔ حکومت کایہ قدم بھی حقوق انسانی کے زاویہ سے بالکل آمرانہ تھا، حکومت نے اپنی آمریت وطاقت کے اندازہ لگانے کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہے جس سے کئی طرح کے خدشات یہاں کی اقلیتوں میں پیدا ہورہے ہیں۔حکومت کا اگلا قدم اس ملک میں یکساں سول کوڈ اورہندوراشٹر کے لئے کیاہوگا ؟کہنا مشکل ہے تاہم اس پر اہل نظر کی توجہ ہے اورملک کا پڑھا لکھا طبقہ اس کوایک حساس موضوع کے طور پردیکھ رہا ہے اور اس کا سیاسی وغیر سیاسی تجزیہ کررہاہے اورملک کے آئین ودستور اورجمہوریت کی بقاء کے لئے عملی طورپر بے حد فکر مندہے اوراس کے لئے ہرطرح کی قربانی دینے کے لئے تیاربھی ہے۔ RSSکی فوجی تنظیم سے ملک کے سیکولر ڈھانچے کوجو خطرہ لاحق ہے اس سے ملک کو بچانا یہاں کے ہرامن پسند شہری کا ملکی فریضہ ہے، بپن راوت کے ذریعہ بریہ، بحریہ اورفضائیہ فوج کو یکجاکرنے کا کام اس کے آمرانہ مزاج کاواضح پتہ دیتاہے جو ملک کے مستقبل کی منفی صورتحال کی جانب اشارہ بھی کررہاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اور پیش رو حکومتوں کے درمیان غیر معمولی سطح پر نظریاتی وفکری فرق و فاصلے ہیں۔یہ حکومت جہاں سے اپنی فکری غذاکشید کرتی ہے وہ موساد(اسرائیلی تنظیم) کے بعد دنیا کی دوسری بڑی مسلم مخالف متشددتنظیم ہے ،جس کی تمام تحریکی کوششوں کامحورفقط ایک طبقہ کے خلاف منصوبے تیارکرنااورملک میں جمہوریت کی جگہ منووادی نظام کو دوبارہ نافذکرناہے تا کہ وہ پھرسے یہاں کی قدیم آبادی ـمول نواسیوں (OBC,SC,ST (کوغلام بناسکے ۔۲۰۱۴ سے آج تک برسر اقتدار حکومت جن خطوط پر چل کرسی ، اے،اے جیسا متنازع قانون بنانے تک پہنچی ہے اس کا بے لاگ جائزہ لینے کے بعد ملک کی عوام اور سیکولر طبقہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آرایس ایس اب اپنی منزل سے بہت قریب آچکی ہے۔ ملک میں پھیلی انارکی ،منصوبہ بندفر قہ ورانہ فسادات،مہینوں سے جاری دھرنے اوراقلیتوں میں بے انتہاخوف وہراس کا عالم جس کا واضح ثبوت ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی ملک میں غیر متوقع حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ملک کی معیشت بد ترین دور سے گذررہی ہے ، ملکی املاک کو بڑے وسیع پیمانے پرشخصی بنایاجارہاہے ،حکومت چلانے کے لیے RBIسے باربارقرضے لیے جارہے ہیں دن بہ دن ملکی وقومی بینک کا سرمایہ مزید بحران کا شکار ہو رہا ہے اور یس بینک نے تو عوام کی بے چینی کوانتہا درجہ تک پہنچا دیا ہے،مگرحکومت ہے کہ وہ اپنی فرقہ پرستی کی سیاست میں مشغول ہے اوراپنے سیاسی منہج سے ہٹ نے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہے جو ملک کے لیے خطرات کا پیش خیمہ ہے ایسے میں ملک کی عوام کی ذمہ داریاں بے حد بڑھ جاتی ہیں۔ اللہ ہی اس ملک کا حافظ وناصر ہے۔

Comments are closed.