’’آج ہی کے دن‘‘

تحریر: ــــ شہلا کلیم
۱۵ مارچ ۲۰۱۹ کو نیوزی لینڈ کی مسجد میں پیش آنے والے کربناک واقعے کا ایک برس مکمل ہواـ گزشتہ برس جب یہ دلسوز سانحہ پیش آیا اس وقت دنیا میں تہلکہ بھلے نہ مچا ہو لیکن انٹرنیشل میڈیا کو انسانی لہو میں ڈوبی سرخیوں کے روپ میں مہینوں بھر کا کاروبار اور انسانیت کے لبادے میں ملبوس ناہنجازوں کیلیے ذہنی عیاشی کا سامان ضرور فراہم ہو گیا اور قوم کے حساس دلوں میں بھی ایک آتش فشاں بھڑک اٹھا جو مخلتف آرا و نظریات کی صورت میں لاوا بن کر بہہ نکلا لیکن بہت جلد ہر سانحے کی طرح یہ بھی وقت کی دبیز تہہ کے نیچے ماضی کے کسی سرد خانے میں جا پڑاـ دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا وہ دلسوز سانحہ آج شاید ہم برسیاں منانے والے لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کی نوٹیفکیشن ہی یاد دلائےـ۔
گزشتہ برس کئی ماہ تک یہ انسانیت سوز سانحہ ہر خاص و عام کی گفتگو کا موضوع رہا ـ مغربی ممالک کے رد عمل ، حکومت نیوزی لینڈ اور مسلم ممالک کے موقف، اس حملے کے اسباب و نتائج اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی بے شمار تجزیاتی مضامین لکھے گئے ـ لیکن آج ہم صرف اس آسٹریلیا نزاد شہری کی نفرت انگیز سوچ پر بات کرینگے جس کا نام برینٹن ٹرینٹ ہےـ ایک خوفزدہ اور بزدل مرد ؛ جس نے مالک حقیقی کے نہتے بندوں کو عین اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ وہ اپنے معبود کے آگے سجدہ ریز تھے، حالانکہ اسے اپنے ڈرپوک اور بزدل ہونے سے انکار ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس کی بزدلی اس کے فعل اور اس کا خوف اس کے قول سے عیاں ہےـ جب وہ اپنی بزدلی کی پردہ پوشی کیلیے تاویلات پیش کرتا ہے تو اس کے الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ـ پھر جب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس کا عمل اسلام سے خوف کی دلیل ہے؟ تب اس کے پیش کردہ دلائل خود اسی کا مضحکہ اڑاتے نظر آتے ہیں ـ اس کو دعوی اسلام سے نفرت اور دشمنی کا ہے جبکہ اس کا بزدلانہ فعل گواہ ہے اور اس کے الفاظ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ اس لفظ کو سوچتے وقت اس کی روح کانپتی ہے، اس لفظ کی ادائگی پر زبان لڑکھڑاتی ہے، لکھتے وقت اس کے ہاتھ لرزتے ہیں اور اس کا قلم تھرا اٹھتا ہےـ اسلام کی تاریخ نے اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اسلام سے دشمنی نے اس کے خیالات کو منتشر اور اسلام سے نفرت نے اس کے ذہن کو کبھی نہ سلجھنے والی گتھی میں الجھا کر رکھ دیا ہےـ اور اس الجھی ڈور کو نفرت سے سلجھانے کی کوشش میں اس کے اپنے وجود کے دھاگے الجھ کر رہ جاتے ہیں جن کو وہ خرد باختہ ہو کر ادھیڑتا ہے اور خود بھی بکھر کر رہ جاتا ہےـ وہ دنیا کا قابل رحم شخص ہے کیونکہ شدید نفرت کی فضا میں اسکی ذہنیت سازی کی گئی اور اس کی مثال اس ہٹ دھرم جیسی ہے جو جانتا ہے حق کیا ہے لیکن اس کے اندر کی نفرت اسے تسلیم کرنے سے روکے رکھتی ہےـ نتیجتا بغاوت کے شعلوں میں اس کے تخیل کی رگیں پگھل کر نفرت بن بن کر اس کے ہتھیار پہ ٹپکنے لگتی ہیں ـ اور یہ قطرے سیاہی بن کر اس کے اسلحے پر چند شر انگیز نام اور جملے رقم کر دیتے ہیں ـ انسانیت کے علمبرداروں نے کمال ہنر مندی سے اس کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ وہ اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا ہےـ۔
برینٹن ٹرینٹ ایک عام سا سفید فام شخص ، جس کی پیدائش آسٹریلیا میں ایک محنت کش گھرانے میں ہوئی ـ والدین نسلی اعتبار سے اسکاٹش آئرش اور انگریزی ہیں ـ ابتدا سے ہی تعلیم میں بہت کم دلچسپی تھی لہذا یونیورسٹی کا رخ نہیں کیا کیونکہ یونیورسٹیز کے فراہم کردہ تعلیمی مواد سے اسے نہ کوئی دلچسپی تھی نہ ہی ذہنی مناسبت ـ چند ملازمتوں کے بعد بٹکونکٹ bitconnect میں رقم لگائی اور حاصل شدہ منافع سے مختلف ممالک کا سفر شروع کیاـ یہ سفر محض تفریح کیلیے نہیں تھےـ اس دوران وہ ہر ملک میں مسلمانوں کی تعداد انکے طور طریقوں، انکے ملکی، معاشی اور معاشرتی حالات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کرتا رہا اور قتل و غارت گری کی راہیں بھی تلاش کرتا رہا ـ بالآخر ۱۵ مارچ ۲۰۱۹ کو نیوزی لینڈ میں وہ اپنی اس نفرت کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہواـ برینٹن ٹرینٹ نے نیوزی لینڈ مساجد کے حملے سے پہلے ایک طویل نوٹ تیار کیا جو حملے کے بعد بہت عام ہوا اور جس کا اردو ترجمہ شان محمد ندوی نے "ایک دہشت گرد کی ڈائری” کے عنوان سے کیاـ اس ڈائری کو پڑھ کر اسلام مخالف ذہنیت اور اسلامو فوبیا کے پروپیگنڈہ کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہےـ اس طویل نوٹ میں برینٹین نے حملے سے قبل خود ہی ممکنہ سوالات قائم کیے اور پھر ان کے جوابات لکھ کر اپنی سفید فام قوم سے خطاب کیاـ فاشزم کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت اسکے ہر جملے سے عیاں ہےـ اس کا صرف ایک ہی ہدف ہے مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلم مہاجرین کا اپنی سر زمین سے مکمل صفایا ـ وہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں اضافے سے خوفزدہ اور مغربی تہذیب سے نالاں ہے جو کہ سفید فام قوم کی شرح پیدائش کی گراوٹ کا اصل سبب ہےـ۔
اس نے نفرت کے جذبات سے لبریز ہو کر حملہ کیا ،اسے خوف تھا کہ مہاجرین کی بڑھتی آبادی سفید فام نسل پرستوں کی تعداد کم کر دےگی ـ اور اس سے بھی بڑھ کر خوف زدہ وہ مسلمانوں کی تہذیبی خصوصیات اور ثقافتی و مذہبی شناخت سے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلمان اپنے طور طریقوں اور تہذیب کے ذریعے ہی اسلام کی تبلیغ میں کامیاب ہیں ـ اس سلسلے میں وہ خود کہتا ہے کہ ـ "مجھے ان لوگوں سے زیادہ نفرت ہے جنھوں نے یہاں اسلام کو قبول کیا ہے، اور اپنے آبائی دین اور آبائی وراثت کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
برینٹین ٹرینٹ فسطائیت کا پیروکار ایک سفید فام نسل پرست ہے ـ حیرت انگیز طور پر برینٹین کا ہر قول ہمارے ملک کے ہندو فاشسٹ سے مطابقت رکھتا ہےـ جب وہ مسلمان مہاجروں کی شرح پیدائش میں اضافے سے خوفزدہ نظر آتا ہے تب بھارت کے اس ہندو فاشسٹ نظریے کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے جو ملسم مرد کی چار شادیوں کا محض شرح پیدائش میں اضافے کی بنیاد پر سخت مخالف ہےـ جب اسے یہ بات بے چین رکھتی ہے کہ مسلمان جہاں کہیں آباد ہوتے ہیں وہ اپنی تہذیبی خصوصیات اور ثقافتی و مذہبی شناخت کے ساتھ آباد ہوتے ہیں تب ہندوستان کے وہ شر پسند بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں جو جہاد کی مختلف اقسام سے عوام کو روشناس کرانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ـ جب وہ کہتا ہے کہ جمہوریت کوئی حل نہیں ہماری زمینوں میں ہمارے دشمن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، تب اس کا یہ قول ہندو فاشسٹ کے اس نظریے کا مصداق نظر آتا ہے جو مسلم نسل کشی کا حامی ہےـ جب وہ کہتا ہے کہ مسلم مہاجروں کو ان کی سرزمینوں کی جانب کھدیڑ دو اور اپنی سر زمین کو ان کے وجود سے آزاد کرو تب ہند کے اس انتہا پسند طبقے کے نظریات کی تصدیق ہو جاتی ہے جو شہریت ترمیم بل کے نفاذ کا سبب ہواـ اور صرف ہندوستان ہی کیوں اس کے نظریات کے تناظر میں دوغلی پالیسی اپنانے والے تمام جمہوری ممالک کی اسلام دشمنی کو بھی باآسانی سمجھا جا سکتا ہےـ ہماری میڈیا کی دبیٹ میں مسلمانوں سے اکثر ایک نہایت ہی مضحکہ خیز سوال کیا جاتا ہے کہ آیا مسلمانوں کو کسی قسم کا ڈر ہے؟ جبکہ تمام تر تاریخی اور حالیہ پس منظر میں حقیقی سوال یہ ہے، اور ہم دنیا بھر کے ممالک سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں؛ کہ آخر اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر خوف کیوں؟؟
Comments are closed.