الیکٹرانک میڈیا اور جمعہ کے خطبات

عمر فراہی
کچھ بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے ممبئی کی ایک مشہور مسجد کے مولانانے قناعت کےموضوع پرجمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے اپنی خواہشات کو اتنا بڑھا لیا ہے کہ رہنے کو گھر میسر ہو بھی جائے پھر بھی دیواروں کو وسعت دینے کی لالچ میں ہم اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر اتنا چھوٹا تھا اتنا چھوٹا تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو آپ کا بدن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بدن سے چھو جاتا تھا۔بخاری کی یہ حدیث قناعت کے موضوع پر نہیں بلکہ نماز کے مسائل کے تعلق سے میری نظر سے گزر چکی تھی اس لئے میں نماز بعد مولانا کے پاس منبر کے قریب پہنچا اور کہا کہ حضرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر اتنا چھوٹا تھا تو آپ لوگوں سے ملاقات کہاں کرتے تھے ۔انہوں نے کہا مسجد نبوی میں ۔میں نے کہا اتنا چھوٹا تھا تو اسی گھر میں آپ کے علاوہ دو صحابہ کرام کی مزارات کیسے ہے جو کہ آج بھی موجود ہے اور کیا آپ کے گھر میں کوئی غسل خانہ یا رسوئی خانہ نہیں تھا یا ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کھانہ بھی باہر بناتی تھیں ۔میں نےدیکھا کہ میرے بے وقت کے سوالات سے مولانا اور مولانا کے ساتھیوں کے مزاج میں کچھ تلملاہٹ سی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے تو سلام کرکے واپس ہو لیا اور دل میں کہا عمر صاحب اب وہ دور نہیں رہا جب وقت کے امیرالمومنین حضرت عمر کو ایک بڑھیا عین خطبے کے وقت ٹوک دیتی ہے اور امیرالمومنین اس کے احسان مند ہوتے ہیں کہ تم نے مجھے گمراہی سے بچا لیا۔ اب خلافت تو رہی نہیں لیکن جدید جمہوری انقلاب کے بعد علماء نے جب سے خود کو زوال یافتہ خلافت کا جانشین تصور کر لیا ہے وہ اپنی لغزش کا اعتراف کرنے کی بجائے بحث و مباحثہ پر اتارو ہو جاتے ہیں ۔
لوگ کہتے ہیں کہ دور خلافت کے بعد ملوکیت اور بادشاہت ایک فتنہ تھا ۔بیشک شاہوں کے دور کا خلفائے راشدین سے موازنہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن شاہوں کے دور میں ملت اتنا منتشر نہیں تھی جتنا ان کے خاتمے کے بعد اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مغربی طرز جمہوریت میں علماء دین نے آزادی اظہار کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاسلام کو بھی دیگر مذاھب کے برابر لا کر کھڑا کر دیا اور دیگر مذاھب کے لوگ اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم میں اور آپ میں صرف طریقہ عبادت کا فرق ہےورنہ اختلافات تو آپ میں بھی اتنا ہی ہے جتنا ہمارے اندر ہے۔یہ بنیادی عقائد میں اختلاف نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک عالم نے دوسرے عالم کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہ ٹھہرایا اور ان کے پیرو کاروں نے جمہوری آزادی کا فائٹ اٹھاتے ہوئےدھڑا دھڑ مسجدیں بھی الگ کر لیں ۔فرقے وجود میں آئے۔ہر فرقے کے علماءنے دوسروں کے خلاف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قرآن و حدیث کی اپنی اپنی تاویلات اور ترجمے پیش کرنا شروع کر دیئے۔
اب حالات ایسے ہیں کہ مسجدوں کے خطیب حضرات کی اکثریت کو حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہی یا وہ حالات سے بخوبی باخبر نہیں رہے ۔وہ کہیں سے بھی بات شروع کرتے ہیں اور کچھ قصے کہانیوں اور روایتوں اور رٹی رٹائی حدیثوں کا حوالہ دیکر بات کو ایسی جگہ ختم کرتے ہیں جس کا کوئی عنوان ہی نہیں ہوتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے تھے اور عوام نے سمجھا کیا ؟
یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی نماز بھی مسلمانوں کیلئے ایک رسم کی طرح رہ گئی ہے ۔اکثر خطبات کے وقت نیند آنے لگتی ہے یا پھر دعا کرنا پڑتا ہے کہ یااللہ خطیب صاحب کو جلد اپنی بات ختم کرنے کی ہدایت دے ۔مگر یہ دعا بھی قبول کیسے ہو بے چارےخطیب کو بھی تو اپنی پوری بات مقرروقت میں ہی ختم کرنے کی تنخواہ ملتی ہے ۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ٹرسٹ کا کوئی شخص مولانا کو عین وقت پر منع کردیتا ہے کہ آج مسجد میں جماعت آرہی ہے اس لئے تقریر کوئی جماعتی بھائی کرے گا ۔کھی کبھی مولانا کا وقت باہر سے چندے کے لئے آئے ہوئے سفیر صاحب لے لیتے ہیں ۔خظیب بھی سوچتا ہے چلو آج جان چھوٹی۔
میرا کہنے کا مطلب ہے کہ مسلمان ہمیشہ روتا ہے کہ اس کا کوئی الیکٹرانک چینل اور میڈیا نہیں ہے ۔میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کے پاس مسجد اور جمعہ کے خطبے سے بہتر اور کیسا میڈیا اور چینل ہو سکتا ہے جو اپنے آپ میں ہزاروں چینل کے برابر ہے ہے جیسا کہ ہر ہفتے ہر جمعہ سے سیکڑوں زبان میں ہزاروں خطیب لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ آخر مسلمانوں کے خطیب مسجد کے منبر سے عام فہم زبان کا استعمال کیوں نہیں کرتے جو اطراف اور محلے کے غیر مسلم بھائیوں کو بھی سمجھ میں آئے۔آخر مسلمانوں کے اہل دانش رویش کمار، ابھیشار شرما ،ونود دوا،عارفہ خانم اور اپوروا نند کی باتیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر مجبور کیوں ہیں ۔علماء کو اپنی زبان اور اپنی معلومات کے دائرے کا احتساب کرنا ہوگا کہ ان کی باتیں جب مسلم معاشرے میں ہی اثر انداز نہیں ہو پارہی ہیں تو توحید کی وہ دعوت جو وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں ان کی اس دعوت سے دوسرے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں ۔ سوچئے کہ جس طرح مسلمان غیر مسلم صحافیوں کو بے صبری سے فالو کرتے ہیں تاکہ انہیں سنیں کیا ہندو بھی کسی مسجد کے خطیب کو سننے کیلئے کسی جمعہ کا بے صبری سے انتظار کرتا ہے کہ آج دیکھیں مولانا صاحب کس موضوع پر بات کرتے ہیں ۔میری معلومات میں ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ کسی مسجد کے خطبے کو سننے کیلئے کسی محلے کے ایک یا دو غیر مسلم کسی مسجد کا رخ کرتے ہوں ۔باقی جو لوگ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کر رہے ہیں ممکن ہے احتراماً ان کی بات سن لی جاتی ہو لیکن پیاسہ جب تک کنوئیں کے پاس نہ جائے یہ سمجھنا چاہئے کہ جو پانی آپ اپنی طرف سے لوگوں کو پیش کر رہے ہیں اس پانی میں یقیناً شک نہیں کیا جاسکتا لیکن جس برتن میں جو پانی پیش کیا جارہا ہے پیش کرنے کے طریقہ کار اور برتن میں نقص ہے اس لئے وہ آپ سے اپنی پریشانیوں اور بے چینیوں کا علاج ڈھونڈھنے کیلئے آپ سے خود ملنے کا طلبگار نہیں ہے ورنہ پریشان کون نہیں ہے اور کون نہیں چاہتا کہ اسے دمن اور سکون کا ماحول میسر نہ ہو !

Comments are closed.