کورونا – قدرتی آبادی رجسٹریشن کا خوفناک سایہ

ابو تراب ندوی
گذشتہ چند مہینوں سے جس طرح پورا ملک CAA, NCR, NPR کے قضیہ میں سلگ رہاہے، اس پر عالمی حالات کے نئے سایوں کے پھیلنے کا شدید خدشہ ہے ، حالات بالکل ہی مختلف رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ قومی آبادی رجسٹریشن NPR کی جگہ اب قدرتی آبادی رجسٹریشن کا عالمی عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس کے مہیب سایے ہندوستان کو اپنی چپیٹ میں نہ لے لیں، اس پہلو سے بھی ملماونوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، نہ جانے پڑوسی ملک چین سےشروع ہونے والا یہ عمل کب ہندوستان پہونچ جائے جسے شاید ہی پہونچنے سے روکا جاسکے۔ اس صورتحال میں نہ صرف ہمارے مظاہرے بند ہوسکتے ہیں بلکہ اس میں بھگوا حکومت کے لئے قدرت کی طرف سے ایک کھلا پیغام بھی ہوکہ آبادی ساری یکساں ہوتی ہے، جب مصیبت میں سارے شہری یکساں ہوتے ہیں تو انہیں حکومت کے رجسٹر میں بانٹا نہیں جاسکتا ۔
ہمیں اس خطرناک وائرس سے جو کورونا نام سے معروف ہے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ اگر یہ خطرناک وبا ہندوستان میں پھوٹ پڑی تو تفرقہ کی سیاست کرنے والی ، ملک کی اقتصادی حالت کو چوپٹ کرنے والی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی کہ اس پر قابو پاسکے۔ چین جو ایک عالمی طاقت ہے ، جس کے پاس دنیا کا بہترین نظام، انتہائی درجہ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے کارندے ہیں وہ جب اس وبا پر قابو پانے میں مہینوں ناکام رہا تو ہندوستان کی سڑکوں کی سیاست کرنے والی موجودہ حکومت سے اس بات کی توقع کرنا بے سود ہے ۔
جس طرح اس وبا نے عالمی سطح پر خوف و دہشت پھیلایا ہوا ہے، ہندوستان میں اس کی آہٹ، بطور خاص شمالی ہند میں اس وبا سے چنداموات پورے ملک کو شہر خموشاں میں بدلنے کیلئے کافی ہونگی۔ یہ وائرس ہے ہی اتنا خطرناک کہ عام لوگوں کے درمیان چنداموات سینکڑوں لوگوں میں خاموشی کے ساتھ اس کے پھیل جانے کا ثبوت ہوگا۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس بیماری کے معالج سے لے کر ہاسپیٹل کے سربراہ تک کوئی اس کے بے رحم پنجے سے بچ نہیں پاتا۔
یہ بیماری اس طرح دبے پاؤں آتی ہے کہ کسی کو اسکی آہٹ بھی نہیں سنائی نہیں دیتی اور جب تک کسی مریض کے جسم میں اس کی آہٹ ہو تب تک اس کے ارد گرد لوگ اس کی زد میں آچکے ہوتے ہیں۔ ایک تو اس کا علاج مشکل ہے ، اور اگر علاج کارگر ہوا بھی تو اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس سےشفا یاب ہونے والے مریض کو دوبارہ یہ وائرس اپنا شکار نہ بنا لے۔ حاملہ عورت اپنے بچے، باپ اپنے بیٹے ، بھائی اپنی بہن کوئی کسی کو بچا نہیں پاتا۔ چین میں جس ڈاکٹر نے اس خطرہ کی گھنٹی سب سے پہلے بجائی وہ بظاہر صحت یاب تھا جبکہ اسکی فیملی کے دیگر افراد اس کا شکار ہوتے رہےبالآخر وہ بھی داعئ اجل کو لبیک کہنے پر مجبور ہوا، ایک مشہور فلم پروڈیوسر اس بیماری کی زد میں آیا تو پوری فیملی کے ساتھ دوسری دنیا کی آبادی کے رجسٹر میں درج کر لیا گیا۔ چین کا ایک بڑا اقتصادی شہر ووہان Wuhan قبرستان میں تبدیل ہوگیا، دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والا شہر اپنے باشندوں کی لاشیں گننے سے عاجز ہوگیا۔ چین نے ابتدا میں بالکلیہ پردہ پوشی کی کوشش کی لیکن قدرتی مار کی گونج ہی ایسی تھی کہ اسکی گرج سے پوری دنیا ہل گئی ، چین آج تک حقیقی اموات کے اعدادوشمار کو چھپاتا چلا آرہاہے، اسکے پاس اپنے مغرور سر کو خاک آلود کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اللہ کی لعنت اس پر جگ ظاہر ہے۔
ساری دنیا کے حدود اس پر بند ہوگئے، اپنے سارے اثر و رسوخ اور ثروت کا استعمال کرتے ہوئے وہ بہت سارے ممالک سے دست بستہ درخواست کرتا رہا کہ اس برے وقت میں اسکے منہ پر دروازے بند نہ کئے جائیں۔ لیکن مشکل یہ ہے اس کے ساتھ اب ایران کے سرحد کو بھی اسکے پڑوسیوں نے بند کردیا ہے، گویا تعاون کی قیمت بڑی مہنگی چکانی پڑ ی۔ اس وبا کے قہر کو بیان کرنے کے لئے ایک پوری کتاب درکار ہے، آئیے ذرا اسکے اسباب و وجوہات پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس بیماری کے بارے میں اب تک جو اسباب بیان کئے جارہے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یہ وائرس چین کے شہر ووہان کی جانور منڈی اور گوشت مارکٹ سے پھیلا ۔ یہ چین کا سرکاری موقف ہے۔
2) یہ جان لیوا وائرس چین کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لئے امریکہ کے ذریعہ چھوڑا گیا ۔
بی بی سی کی اس رپورٹ کو ملاحظہ کریں روسی وزیر خارجہ کی خاتون ترجمان نے اس بات کی تردید کی کہ روس نواز سوشل میڈیا صارفین امریکہ کے خلاف اس الزام کو ہوا دے رہے ہیں کہ چین میں پھوٹ پڑنے والی "کورونا” وبا دراصل ایک حیاتیاتی حملہ ہے جو امریکہ نے چینی تجارت کو تہس نہس کرنے کے لئے کیا ہے ۔
3) دنیا کی آبادی کو تباہ کرنے کے لئے یہودی حملہ اور دجال کے ظہور کی تیاری۔
اس نظریہ کے حاملین وہ عرب ماہرین ہیں جو آخری زمانہ کےفتنوں اور جنگوں پر نظر رکھے ہوئے اس پس منظر میں حوادث کی تشریح پیش کرتے رہتے ہیں ۔
4) ایغور مسلمانوں پر توڑے جارہے مظالم کے خلاف اللہ کی پکڑ۔
– اگر پہلے نکتہ پر نظر ڈالی جائے تو اس کا پس منظر انتہائی کریہہ ہے، جب دنیا کے سامنے چینیوں کی یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ یہ قوم سانپ ، بندر، زندہ مینڈک، چوہوں کے ساتھ چمگاڈر بھی کھاتی اور اسکا سوپ پیتی ہے، خنزیر اور کتوں کی تو بات ہی چھوڑدین، ان جانوروں کو کھانے کے کریہہ مناظر بطور ثبوت عالمی سوشل میڈیا پر گشت میں ہیں۔ اگر چینیوں کے کھانے اور طرز معاشرت کی مزید تفصیل میں جائیں تو کئی دنوں کے لئے طبیعت مکدر ہوجائے اور کئی دنوں تک کھانا، پینا دشوار ہوجائے ۔ چنانچہ اسی طرز زندگی کے نتیجہ میں ان کی جانور منڈی سے یہ بیماری سانپوں یا پھر چمگاڈروں کے ذریعہ پھیلی۔ لیکن یہ نظریہ بعد کی تحقیقات میں قطعی طور پر ثابت نہیں ہوسکا۔
– دوسرے نکتہ کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا کی عالمی طاقتیں مستقبل میں کیسی تباہ کن جنگیں چھیڑنے کی تیاریاں کررہی ہیں کہ اس کے تصور سے انسانیت کانپ اٹھے۔ اگر روسی سوشل میڈیا گروپ امریکہ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں تو یہ بات جگ ظاہر ہے کہ یہ ساری عالمی ابلیسی طاقتیں خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار تیار کرچکی ہیں ۔ ایسے ہتھیار کہ جو صرف انسانوں کو تباہ کرسکیں، جو دیگر جانوروں اور اشیا پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے ہوں، چنانچہ حملہ کی صورت میں ایک شہر یا ملک کی انسانی آبادی تو ختم ہوجائے لیکن باقی ساری چیزیں اپنی جگہ استفادہ کے لئے موجود ہوں۔ یہ وائرس کس کا بائیلوجیکل ہتھیار ہے اس کا اندازہ اسی سے ہوجائے گا کہ اس کا علاج لے کر کون سامنے آتاہے، چونکہ یہ اس طرح کے ہتھیار تیار کرنے کے ساتھ ہی اس کا توڑ بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔
– ایک دوسرا نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے جس کی طرف ہندوستان میں کانگریس لیڈر مینش تیواری نے اپنے ٹیوٹ میں اشارہ کیا ، تیواری نے اپنے ٹیوٹ میں 1981 میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناول The Eyes of Darkness کو پڑھنے کا مشورہ دیا ، مشہور امریکی جاسوسی ناول نگار Dean Koontz اپنے جاسوسی ناول میں ایک حیاتیاتی ہتھیار biological weapon کا ذکر کرتا ہے جس کا نام Wuhan-400 ہے۔ دراصل منیش تیواری مغرب میں چل رہے اس بحث کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس میں یہ الزام خود چین پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہر ووہان کے باہر ایک لیب میں اس وائرس پر کام کررہاتھا جو ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر مستقبل میں دشمن ملک کے خلاف استعمال کیا جاسکے، تجرباتی مرحلہ میں سرزد ہونے والی کسی خطا کے نتیجہ میں یہ ہتھیار چین کے شہر ووہان کی انسانی آبادی میں سرایت کرگیا جسے آج ہم” کورونا” کی وبا کے نام سے جانتے ہیں ۔
یہ ایک لمبی بحث ہوسکتی ہے کہ کیا امریکی ناول نگار جس نے 1981 کے ایڈیشن میں روس کا ذکر کیا تھا، بعد میں 2008کے ایڈیشن میں چین کے شہر ووہان کی طرف اس ہتھیار کی نسبت کردی، کیا یہ ایک یہودی سازش تھی جو پہلے ہی اس تھیوری کو پھیلا رہی تھی جسکا استعمال اسے بعد میں چین یا دنیا کے خلاف کرنا تھا، یا یہ نظریہ صحیح ہے کہ خود چین دیگر ابلیسی عالمی طاقتوں کی طرح اس خطرناک ہتھیار پر کام کررہا تھا، یہ سارے امکانات اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حیاتیاتی ہتھیاروں پر سبھی کام کرتے ہوئے نسل انسانی کے خلاف ابلیسی مہم کو تیز کررہے ہیں۔
اگر ہم اس عالمی وبا کو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ٹوٹ رہے مظالم کے پس منظر میں دیکھیں تو چین میں ایغور مسلمانوں کے آنسووں اور آہوں کو بھلایا نہیں جاسکتا ، چین نے جس طرح زنجیانگ کی مسلم ریاست کےاسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی، وہاں چین کے دوسرے علاقوں سے اپنے لوگوں کو لا کر بسایا ، اور پھر عالمی مسلم برادری کی خاموشی سے شہ پاکرمسلمانوں کو مٹانے کی مہم میں وہ انسانیت سوز حرکتیں کرتا چلا آرہا ہے، اس کے بعد آہوں اور سسکیوں کے سوا کیا بچتا ہے، اگر یہی سسکیاں "کورونا” بن کر چینیوں کے سینوں میں اتر جائیں تو اس میں سب کے لئے عبرت کا سامان ہے۔ چین نے جس طرح زنجیانگ کے مسلمانوں کو بڑے بڑے قید خانوں میں ڈال کر لاکھوں جانوں کو گلا گھونٹ کر مارنے کا بے رحم تجربہ کیا، آج وہ بعینہ اسی سزا میں گرفتار ہوگیا، اسکے شہر زنجیانگ کے مسلم کیمپوں کا نظارہ پیش کررہے ہیں ، اموات بھی اسی انداز و رفتار سے ہورہی ہیں جو ان کیمپوں کے اندر ہوتی ہیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ مظلوموں کی آہوں کا قہر ہے، یا حیاتیاتی ہتھیاروں کا کھیل ہے یا پھر چین کی تجارت کو روکنے کے لئے امریکہ کا حملہ ہے یا اسکے علاوہ دوا کی کمپنیوں یا یہودیوں کی سازش ہے۔
حقیقت ابھی تک مخفی ہے تو ظاہری اسباب پوری طاقت سے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں کہ ہم چینی مسلمانوں کے کرب کو اس وبا کے پس منظر میں یاد کرلیں۔ چینی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہونے کے دلخراش حقائق کی ایک جھلک حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں دیکھیں جو China’s Mass Surveillance Phone App اور China’s Algorithms of Repression کے عنوان کے تحت اسکی سائٹ پر موجود ہے، اس کے علاوہ مصدقہ خبروں اور رپورٹوں کے مطابق مسلم ریاست زنجیانگ میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات اس حدتک تنگ کیا جاچکا ہے کہ کسی بھی مسلمان کی نجی زندگی اسکی ذاتی زندگی نہیں رہ گئی ۔ چینی حکومت جدید ٹکنالوجی سے ہر مسلمان کی نگرانی کچھ اس طرح کرتی ہے کہ اس کے سونے جاگنے سے لے کر اس کی آمدو رفت پر بھی مکمل نظر رکھ سکے۔ ایک شخص کہاں گیا اور کہاں ٹہرا، اپنے علاقہ سے باہر اگر وہ کہیں ٹہرا تو اس نے پولیس سے اجازت لی یا نہیں، گھر میں رات کو کب لائٹیں بند کی گئیں اور صبح کب لائٹیں کھولی گئیں ۔چینی حکومت کے اس ایپلی کیشن سے اس شخص کی گفتگو بھی ریکارڈ کی جاسکتی ہے ۔ یہ سب اس لیے کیا گیا ہے کہ چینی ادارے کسی بھی مسلمان کے بارے میں جان سکیں کہ وہ صبح جلدی اٹھ کر نماز تو نہیں پڑھتا، کسی مسجد میں تو نہیں جاتا ، موبائل پر اس نے قرآن کی کسی آیت کا ترجمہ تو نہیں دیکھا، یہ شخص قرآن کی تلاوت یا روزے تو نہیں رکھتا ۔ جس ایغور مسلمان پر ذرا سا بھی شک ہو تو اس کے گھر ایک مبصر بھیج دیا جاتا ہے جو شب و روز اس کے گھر میں رہ کر اس کی نگرانی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ شخص حراستی مرکز میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ 12 سے لے کر 65 برس تک کے ہر ایغور مسلم کا پورا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے یعنی ان کا ڈی این اے ، فنگر پرنٹ اور قرنیہ کی اسکیننگ ، اس سب کا ریکارڈ چینی حکومت کے پاس ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کہتی ہے:
ہم لوگوں نے زنجیانگ میں ایسے شواہد دیکھے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ صوبہ مکمل نگرانی میں ہے۔ جو چینی قیدی حراستی مرکز سے نکلنے میں کامیاب ہوئے انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کے پروگرام سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔
ایک شخص عمر نے بتایا:وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، وہ ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جبکہ تاروں کو موڑ کر انھوں نے کوڑے بنا رکھے تھے، جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر کبھی بھی استعمال کیا جاتا۔ ہم دوسرے لوگوں کی چیخیں بھی سنتے۔
ایک دوسرے شخص عزت نے بتایا: رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹ کا خالی کٹورا لیے کھڑے تھے اور انھیں چین کے حق میں گیت گانا تھا تاکہ انھیں کھانا ملے۔ وہ ربوٹ کی طرح تھے۔ ان کی روحیں مر چکی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا۔ ہم ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے تھے۔ لیکن اب وہ اس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے جیسے کسی کار کریش کے بعد ان کی یادداشت جاتی رہی ہو ۔
ایغور مسلمانوں کے ایک جلاوطن رہنما کے مطابق اس کے علاقے میں ایسی تمام مسلم خواتین کو جو ماں بننے کے قابل تھیں زبردستی طبی مراکز لے جا کر بانجھ کردیا گیا ہے ۔
سینکڑوں عورتیں اپنے شیر خوار بچوں سے الگ کرکے ان کیمپوں میں لے جائی جاتی ہیں ، انہیں الیکٹرک شوک لگائے جاتے اور طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں، اور جب وہ بیمار ہو تی ہیں تو بغیر علاج و دوا کے لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔
نازی جرمنی کی کہانی صحیح ہو یا نہیں البتہ اس خوفناک تصور کو حقیقت کی سرزمین پر دیکھنا ہو تو چین کے ان خوفناک جیلوں کو دیکھیں جو مسلمانوں کو ان کے دین اور قومی تشخص سے محروم کرنے کے لئے قائم کئے گئے اور چلائے جارہے ہیں۔
اسکے بالمقابل اتنے وسیع عالم اسلامی سے کوئی حرف احتجاج بلند نہیں ہوتا، چین کے سامانوں کے بائیکاٹ کی کوئی عوامی مہم نہیں چلتی ، کہیں بھی کوئی درد یا بے چینی محسوس نہیں کی جاتی۔ مسلم حکومتیں اگر آواز نہیں اٹھا سکتیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، کہ مسلمانوں کے خلاف خود ان ممالک میں مظالم کے پہاڑ توڑنے کے بعد وہ کس طرح چین جیسی طاقت کے خلاف زبان کھولیں۔ مسلم ممالک کو افلاس کے کگار پر پہونچانے کے بعد چین کی کاسہ لیسی کرنے اور اسکے دست نگر بننے کے بعد وہ کس طرح اس نئے آقا کے خلاف کچھ بولیں ، اگر وہ اس نئے آقا کے اشاروں پر حقوق انسانی کے پلیٹ فارم پر بھی اس کے خلاف نہیں بول سکے تو علامہ اقبال نے اس امت کو کب کا کہا تھا :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
کورونا کی وبا ظالم حکومتوں کو قدرت کی تنبیہ
کسی نے بہت صحیح کہا کہ جب ظلم گذرتا ہے حد سے قدرت کو جلال آجاتا ہے، "کورونا” کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، صاف نظر آتا ہے کہ یہ چینی جرائم کی پاداش میں قدرت کی مار ہے ، وہ جرائم جن کا ارتکاب اس نے برما سے لے کر زنجیانگ تک کیا۔ برما میں مسلمانوں کی زمینوں کو اپنے اقتصادی مقاصد کے لئے ہتھیانے کی غرض سے اس نے لاکھوںمسلمانوں کوبے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنےاورجلاوطن کرنے میں برمی درندوں کا استعمال کیا، زنجیانگ میں وہ جن جرائم کا ارتکاب پوری ڈھٹائی سے کرتا چلا آرہاہے اس سب کے بعد جو پیغام ملتا ہے ، جو درس ملتا ہے اس میں ساری دنیا کے لئے عبرت، ہماری حکومت کے لئے اور ہم مسلمانوں کے لئے بھی۔
اس وبا کے عالمی پھیلاؤ میں ایک دوسرا مجرم ایران بھی پوری طرح پکڑا جاچکاہے۔ اس کا شہر "قم” جو اسلام مخالف افکار و سازش کا مرکز مانا جاتا ہے اس پر یہ قہر اسی طرح نازل ہوا ہے جیسے اس نے سیریا کے نہتے مسلمانوں ، مردو زن، بچوں بوڑھوں کے سروں پر ان کی چھتیں گرائی تھیں۔ ایران ہر اس شخص کو جیل میں ڈال دے رہا ہے جو اس قہر کی رپورٹنگ کرتاہو۔ پچھلے دنوں قم کے مردہ خانوں میں پانچ دن سے غسل کے انتظار میں سیاہ کپڑوں میں لپٹی ہوئی لاشیں سیریا کے سفید کفن میں لپٹی ہوئی لاشوں کی یاد دلاتی ہیں۔ بے قصور وہ بھی ہیں جو سیریا میں شہید کئےجارہے ہیں اور بے قصور وہ بھی ہیں جن کی لاشوں کو پانچ دنوں سےکفنا یا، دفنایا نہیں جاسکا۔ ظالم سیاہ عماموں میں ملوں کی ایرانی حکومت ہے جس نے اپنی مجرمانہ ذہنیت سے پورے ملک کو اس وبا میں ڈھکیل دیا جس طرح انہوں نے سیریا کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ایک ایک ظالم پر قدرت کا قہر ٹوٹے گا، روس ان میں جلد ہی نشان عبرت بن کر ہمارے سامنے ہوگا۔
ایسا نہیں کہ ہم خود کو اس وبا سے محفوظ سمجھتے اور اس عالمی وبا میں کسی کےگرفتار ہونے پر خوش ہورہے ہیں، لیکن کیا کیجئے، جب پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہو، ایک کے بعد ایک ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہو، تو آسمان کی طرف ٹکی ہوئی آنکھوں کو قدرت کے ہر فیصلہ سے کوئی نہ کوئی شگون تو ملتا ہی ہے۔ شاید یہ وبا دنیا کی توجہ مسلمانوں کے قتل عام اور جلاوطنی کی تحریکوں سے ہٹا کر دنیا میں انسانوں کی مشترکہ بھلائی کی طرف لے جاسکے، شاید مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والوں کو عبرت حاصل ہو کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے قتل عام سے لذت حاصل کرنے والوں ، منافقانہ انسانیت کا مظاہرہ کرنے والوں، اور عالمی تجارت میں مگن ان طاقتوں کو بھی اس چوٹ کا درد محسوس ہو کہ تمہاری تجارت کی منڈیاں جیلوں میں بدل سکتی ہیں۔
ا س وبا کے دنیا بھر میں پھیلنے کی خدشات میں ہندوستان کا سوچ کر ہی ایک خوفناک منظر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔اگر یہ اخروی آبادی رجسٹریشن ہندوستان میں شروع ہوگیا تو اس میں سبھی شامل ہونگے، پھر کسی کی سازش کام نہیں کرے گی کہ کس مذہب کو اس فہرست میں رکھا جائے اور کسے نکالا جائے ، سی اے اے لانے والوں کو قدرت کا کھلا پیغام ہے ۔
کوئی مسلمان اس لسٹ میں شامل ہو یا خارج وہ اللہ کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہوگا، وہ اس موقع پر اس پہلو پر توجہ دے گا کہ اس کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کہاں تک باقی رہ گئیں ہیں۔ اسلام صفائی و ستھرائی کا دین ہے، کیا مسلمان صاف رہتا ہے، اسلام پنج وقتہ نمازوں کا دین ہے ، اس طرح ایک مسلمان پانچ وقت اپنے ان اعضا کو دھلتا ہے جو کھلے رہتے ہیں اور جن پر وائرس کا حملہ ہوتا ہے، تو یوں بھی کہا جارہاہے کہ جو اپنے ہاتھ منہ دھوتا رہے وہ اس بیماری سے بچ سکتا ہے۔ تو مومنانہ صفات ایک مسلمان کی حفاظت کے ضامن ہیں، مسلمان وہ ہے جو ہر نماز میں اللہ سے مدد کا طالب ہوتا ہے، تو کیا اسے کوئی بیماری ڈرا سکتی ہے، مسلمان اپنے دل کو ٹٹولے گا کہ کیا اس کےسینے میں قلب سلیم ہے، کیا وہ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ والوں میں شامل ہے؟ اس لئے کہ اخروی آبادی میں نجات صرف اسی کو ہوگی جو اللہ کے پاس سیدھے دل سے پہونچا۔
کیا اس کا نفس اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے لئے مطمئن ہے؟
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿٢٩﴾ وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿٣٠﴾
اگر ہاں تو پھر اسے خوفزدہ ہونے کی قطعا ضرورت نہیں، یہ بیماری اسے چھو کے نہیں گذرے گی، اسے اپنے رب پر یقین رکھنا چاہئے۔
اسے اللہ کے اس وعدہ پر یقین رکھنا چاہئے :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ (يونس:107)
اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو ہمارے لئے اب بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
کچھ ہو نہ ہو یہ وبا مسلمانوں کو بدل دے گی، نمازوں میں خشوع و خضوع سکھلادے گی، بس ہمیں اس خوف کی حالت میں خود پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،خوف کی حالت میں ہماری کیفیت کیا بنتی ہے، پھر ہم کس طرح اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور اس سے اپنا تعلق مضبوط کرتے ہیں، دل کی اس نورانی کیفیت کو جو اس خوف کی حالت میں پیدا ہوگی، ہم ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کا سرمایہ بنالیں ۔
خوف تو ایسا پھیلے گا کہ بیان سے باہر ہوگا، نہ جانے کہاں سے، کیسے یہ بیماری آلے، نہ جانے کس کے ذریعہ، باپ ، بھائی اولاد یا کسی دوست کے ذریعہ، اب ہر ایک موت کا فرشتہ بن کر سامنے کھڑا ہوگا۔ اب تنہائی اور فرصت کے وہ لمحات جو صرف واٹس اپ، فیس بک اور انٹر نٹ پر لغویات میں گذرتے تھے وہ سب ہمارے حساب میں آجائیں گے۔ وہ اللہ جو ہماری تنہائی کا ساتھی نہیں رہ گیا وہ ضرور یاد آئےگا، اب وہ دعائیں بھی سمجھ میں آجائیں گی جو اللہ کے رسول ﷺ صبح و شام فرمایا کرتے تھے، جسے ہم نےکبھی قابل اعتنا ہی نہ سمجھا، جیسے ان ساری بیماریوں کا خطرہ نعوذ باللہ صرف اللہ کے رسول ﷺ کو ہی تھا، ہم تو بے نیاز تھے۔
"کورونا” تو بس ایک مناسبت ہے ، زندگی تو کسی بھی وقت اللہ کی پکڑ سے خالی نہیں۔ ان سارے غافلوں کے لئے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا دعوی کرنے کے باوجود دنیاوی ملذات کے اسیر بنے ہیں ۔
جنہوں نے سماج میں فساد برپا کیا، اپنے اخلاق، اپنے عمل سے، کیا آج ہمارے اس سماج میں ڈھونڈنے سے بھی ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جو وہ اپنی زبان سے کہہ رہے ہوں اس میں صادق بھی ہوں۔ جو کررہے ہوں اس میں اللہ کا خوف ملحوظ ہو ، اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان میں برادران وطن ہمیں ہار پہنا رہے ہوتے نہ کہ ہمیں نکالنے کی تدبیریں کررہے ہوتے، ہمارے سامنے دونوں طرح کی آبادی رجسٹریشن کھلے ہیں اور ہمیں دونوں سے چوکنا رہنے کے لئے فوری جدو جہد کی ضرورت ہے، یہ جد و جہد سب سے پہلے اپنے دل کو ٹٹول کر ، اپنے نفس کے اطمئنان کو دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اللہ نہ کرے اگر اس وبا میں ہندوستانی شہریت قانون کے خلاف تحریک رکتی ہے توہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ تحریک دوبارہ کس طرح کھڑی ہوسکے گی ۔ ہمیں یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہمیں جس طرح بھی آزمایا جائے ہم اس تحریک کو منزل تک پہونچا کر ہی دم لیں گے۔
إِن يَمسَسكُم قَرحٌ فَقَد مَسَّ القَومَ قَرحٌ مِثلُهُ ۚ وَتِلكَ الأَيّامُ نُداوِلُها بَينَ النّاسِ وَلِيَعلَمَ اللَّـهُ الَّذينَ ءامَنوا وَيَتَّخِذَ مِنكُم شُهَداءَ ۗ وَاللَّـهُ لا يُحِبُّ الظّـٰلِمينَ ﴿سورة آل عمران ١٤٠﴾
ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور تم میں سے بعض کو شہادت کا رتبہ عطا کرے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
Comments are closed.