کھلے ثبوتوں کے باوجود لگے سات سال‘میڈیا اور مختلف سماجی تنظیموں کی کوشش رنگ لائی

ہندوستان کی بیٹی نربھیا کی آتما کوملی شانتی‘تمام چاروںملزمین کوپھانسی پر لٹکادیاگیا
محسن خان۔حیدرآباد‘تلنگانہ
دہلی 16ڈسمبر 2012کی ایک بھیانک رات تھی جس نے ساری دنیا کوہلاکر رکھ دیا۔انسان سوچتا کچھ اور ہوتا کچھ ہے ۔جے این یو کے قریب رہنے والے دوست کے ساتھ تھری ڈی فلم’’ لائف آف پائی ‘‘دیکھنے کے بعدجب 23سالہ نربھیا واپس ہورہی تھی‘ ایک بس رکی اس میں سے ایک سولہا سالہ لڑکے پون گپتا کی آواز آئی دیدی کہاں جانا ہے؟ ۔نربھیا نے کہا دوریکا جانا ہے۔ اس بس میں تین لوگ پہلے سے موجود تھے ۔ وہ لوگ ان کومسافر سمجھ رہے تھے۔پانچوں ملزمین نے نربھیا کے دوست کوراڈ سے مارکر زخمی کردیا اورنربھیا کوبھی راڈ سے مارنے لگے ۔نربھیا کی یہ چھ لوگوں نے اجتماعی عصمت ریزی کی‘جانور بھی جیسا سلوک نہیں کرتاویسا کیاگیا‘ ان لوگوں نے بس کاپانا اور دوسری چیزیں اس کی شرم گاہ میں ڈال دیا‘ اس کو لہولہان کردیاگیا‘ اس کی آنتیں تک پیٹ سے باہر آگئی تھیں ۔پھرسارے کپڑے اتار کردونوں کو دہلی کی سرد رات میں سڑک پرپھینک دیا۔اسے دہلی کے صدر جنگ ہاسپٹل میں شریک کرایاگیاپھر بعدمیں اس کو بیرون ملک سنگاپور کے ایک ہاسپٹل لے جایاگیا جہاں اس نے29ڈسمبر کواپنی آخری سانس لی۔ سوری ممی ۔ نربھیا کے آخری الفاظ تھے۔کانگریس کوبھی اس کیس کی وجہ سے دہلی میں حکومت گنوانی پڑیں۔
بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں مکیش سنگھ نے کہاکہ لڑکیوں کواس طرح راتوں میں گھومنا نہیں چاہئے ‘ جو لڑکیاں رات میں گھومنے نکلتی ہیں وہ خراب ہوتی ہیںاوراس نے کئی غلط باتیں کہیں اس میں جوبعدمیں اس کوپھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں ثبوت کا ذریعہ بنیں۔
اے پی سنگھ :
اے پی سنگھ نے موت کی سزاٹالنے میں سات سال کا وقت لگایا۔ ہندوستان کی تاریخ میں تین بار ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے باوجود بھی اے پی سنگھ نے ان کی سزائے موت کورکوانے میں تمام ہتھکنڈے آزمائے۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے والوں اورپریکٹس کرنے والوں کے لیے کئی ایسی باتیں بتائیں جواب تک کسی کونہیں معلوم تھیں۔انہوں نے سارے میڈیا‘ این جی اوز اوردیگر اداروں کے پریشرکوخاطرمیں نہیں لایا اور مختلف قانونی دائو کھیلتے ہوئے سزائے موت کوٹالتے رہے یہاں تک کہ پھانسی سے چار گھنٹے قبل تک بھی انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھلوایا اور پورے ہندوستا ن کوجگائے رکھا۔ ان کامانناتھا کہ وہ مجرموں کے وکیل ہیں اور ان کی ماں نے کہاتھا کہ وہ یہ کیس لڑیں اور انہوں نے پوری ایمانداری اور مجرموں کے بھروسہ پرقائم رہتے ہوئے کیس کو لڑا۔نربھیا کیس کی سماعت کے دوران ایک بار جسٹس آر بھانومتی بیہوش ہوگئی تھیں۔اے پی سنگھ کوکورٹ میں اورہرجگہ گالیاں دی گئیں لیکن وہ ہربار خاموشی سے اس کومسکراکر ٹالتے رہے اورآخری وقت تک کہتے رہے کہ میں ان لوگوں کوپھانسی ہونے نہیں دوں گا اور آخر میں انہوں نے یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت تک لیجانے کی کوشش کی لیکن وہاں کچھ بات نہیں بنی۔اے پی سنگھ نے اتنی پٹیشن ڈالیں کہ سارا ہندوستان پریشان ہوگیا تھا ۔
نربھیا کی ماں :
نربھیا کی ماں نے سات سال بڑی محنت سے تمام کورٹوں کی چکرلگاتی رہی اورڈ ٹ کراپنی بیٹی کوانصاف دلانے کے لیے حالات کا مقابلہ کیا۔وہ اپنی بیٹی کی حالت بیان کرتے ہوئے روپڑتی تھی کہ آخری دنوں میں وہ بیٹی کوپانی تک نہیں پلاسکتی تھی کیوں کہ اس کی تمام انتوں کو ان مجرموں نے نکال دیاتھا اور اجتماعی عصمت ریزی کے بعد اس کی بہت بری حالت کردی تھی۔ چاروں کی پھانسی پرانہوں نے خوشی کااظہار کیا۔پون کی درخواست مستردہونے پراے پی سنگھ نے نربھیا کی ماں پرشخصی ریمارک کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیسی ماں ہے جس کوپتہ نہیںبارہ بجے اس کی بیٹی کہاں تھی؟۔
پھانسی کی سزا :
رات ڈھائی بجے اسپیشل بنچ نے سپریم کورٹ میں خصوصی سماعت کی۔ساڑھے تین بجے کورٹ نے پون کی درخواست کو مستردکردیا۔پھانسی سے پہلے چاروں کوچائے پلائی گئی۔ سات سال تین مہینے تین دن بعدچاروں کو20مارچ 2020کو صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی کے تختہ پرلٹکایاگیا۔ آدھے گھنٹے تک لاش لٹکی رہی۔ چوتھے ڈیتھ وارنٹ پر یہ پھانسی ہوئی۔پون نے پھانسی سے چند گھنٹے قبل آدھی رات کودہلی ہائی کورٹ میں درخواست داخل کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ وہ واردات کے وقت نابالغ تھا اس لیے اس کی پھانسی کی سزا روک دی جائے۔ لورکورٹ‘ہائی کورٹ‘سپریم کورٹ اورمختلف جگہوں سے گھومتے گھومتے سات سال بعد سزا ہوئی۔ اس کیس میں رام سنگھ ڈرائیور تھا مکیش کمار‘ونئے شرما‘ جونائیل پون گپتا‘اکشے ٹھاکر شامل تھے۔رام سنگھ تہاڑ جیل میں مرجاتا ہے۔ایک جونائیل کوتین سال کی سزا کے بعداس کوبری کردیاگیا۔ میرٹھ کے پون جلاد نے پہلی بار تہاڑ جیل میں صبح ساڑھے پانچ بجے ایک ساتھ چار لوگوں کوپھانسی دی ۔اس دن مکیش اور ونئے نے ڈنرکیا اوردومجرموں نے نہیں کیا۔حیدرآباد کیس نے نربھیا کیس میں نئی جان پھونکی۔
Comments are closed.