کرونا وائرس اور اس سے بچاؤ

مولانامحمد تنویر صدیقی
ترجمان: آل انڈیا مجلس صدائے حق
ان دنوں دنیا کئی چند مہلک جراثیم سے نبرد آزماہے ان میں سے ایک سب سے خطر ناک وائرس کرونا وائرس ہے، یہ وائرس اپنی نو عیت کا پہلا وائرس ہے جس کو عالمی ادارہ صحت نے کو و ڈ 19 کا نام دیا ہے
کرونا وائرس کیا ہے۔
کرونا وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہو ئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کر تا ہے اور جان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے-
اس سے قبل 2003ء میں چین میں سارس نامی وائرس سے بے شمار افراد تباہی کا شکار ہو چکے ہیں اور کرونا وائرس سے اب تک تقریباً سات ھزار افراد لقمہ? اجل ہو چکے ہیں اور لا کھوں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں-
کرونا وائرس کہنے کی وجہ
اس مہلک وائرس کو کرونا وائرس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس نصف دائرے کی شکل میں نظر آیا اور کنارے پر ابھار تاج کے شکل کا گول نما ہو تا ہے لاطینی زبان میں اس شکل کو کرائون کہتے ہیں اسلئے اس وائرس کا نام کرونا رکھ دیا گیا ہے-
کرونا وائرس کے اقسام
کرونا وائرس کے 13 اقسام سامنے آچکے ہیں، ان میں سے سات انسانوں مین منتقل ہو کر انہیں متاثر کر سکتی ہے، ان مین سے noval caronavirus 2019 ہے-
یہ وائرس کہاں سے پھیلا ہے
بقول ڈائریکٹر گا وفو کے یہ وائرس چین کے ووہان شہرکے ایک سمندری خوراک کے مارکیٹ میں جنگلی جانوروں سے پھیلا ہے اس مارکیٹ میں جنگلی جانور لومڑی، مگرمچھ سانپ وغیرہ فروخت ہو تے تھے-
کرو نا وائرس کی علامات
گلے میں خراش کھانسی بخار سانس لینے میں دشواری ہو تی ہے-
کرونا وائرس سے بچاؤ
عالمی ادارہ صحت نے ہدایات جاری کی ہیں:
1: باربار صابن سے ہاتھ دھوئین-
2: نزلہ اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں- کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک کو ڈھانپیں-
3: جانورں سے دور رہیں-
4: کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھو ئیں-
5: کسی کی آنکھ چہرے اور منھ کو چھو نے سے گریز کریں-
*حکومت کا اس ہمہ ہمی میں وبا ایکٹ کا نفاذ*
اس ایکٹ کے نفاذ کا مطلب اس وائرس کی توسیع کو روکنا ہے،
افواہ پھیلا نے والوں پر کاروائی ہو گی، کسی نجی لیب کو جانچ کا اختیار نہیں ہو گا-
بھیڑ کے جمع ہو نے پر روک لگائی جاسکتی ہے-
مریض کا زبردستی علاج کیا جائیگا علاج نہ کرا نے پر کاروائی ہو گی-
*حکومت کی کوشش عملی یا زبانی*
حکومت کی جانب سے ہر ممکن کوشش ہے کہ بہتر سے بہتر انتظام کیا جائے-
لیکن یہ کو شش صرف اور صرف اخبارورسائل تک محدود ہے-
کیونکہ زمینی سطح پر کوئی تد بیر سامنے نہیں آسکی ہے جس سے معلوم ہو کہ حکومت سنجیدہ ہے-
جیسے گلی محلہ پہلے کی طرح ہی گندہ ہے-
دوائی کے چھڑ کا ؤ کا کوئی انتظام نہیں ہے-
کوئی ایسی دوائی تجویز نہیں کی گئی ہے جو تقدم حفظ صحت کے طورپر ہو-
نہ ہی کوئی صابن جو مخصوص حالات میں استعمال کئے جائیں، وغیرہ ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو کر نے کی ہیں نہ کہ صرف زبانی اعلان-
اس جانب بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر واقعی غریب جنتا سے محبت ہے-
*کرونا وائرس کی آ ڑ میں گاؤ موتر اور گوبر کا کھیل*
ابھی جب کہ کرو نا وائرس نے دنیا کو دہشت میں ڈال دیا ہے، وہیں دوسری طرف کچھ غیر سماجی خیال کے افراد جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ کہتے ہیں، انہوں نے کرونا جیسے خطرناک وائرس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے اور گاؤ موتر اور گوبر میں اسکا علاج تلاش کر رہے ہیں، جگہ جگہ گاؤ متر پینے اور پلانے گو بر کھانے اور کھلانے کی پارٹی کر رہے ہیں، جب کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس سے کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک وائرس پیدا ہو سکتا ہے اس پر حکومت کو سنجیدہ ہو نے کی ضرورت ہے اور خاص کر ادارہ? صحت کو سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے-
*کیا یہ وائرس عذاب الٰہی ہے؟*
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو تا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تا ہے اس لیے اس کو اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھیں-
تر مذی شریف کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور کرتے رہنا اور ظلم کر نے والوں کا ہا تھ پکڑ کر ظلم سے روکتے رہنا ور نہ اللہ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر ماردیگا-
ایسے ہی ایک روایت میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات دیکھیں گے اور اسے تبدیل کر نے کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کر تا دیکھیں اور اسکو ظلم سے نہ رو کیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے-
بخاری کی ایک روایت ہیکہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کے شکار ہو تے ہیں-
ان روایتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنی خواہشات کا اتباع کر نے لگیں اور اللہ کے حکم کی نافر مانی کر نے لگیں حلال و حرام کے مابین تمیز نہ رکھ سکیں، جب نیکی کے بجا ئے گناہ اور اطاعت کے بجا ئے معصیت عام ہوجاتی ہے، عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا قہر وغضب وبائی امراض وغیرہ کی شکل میں نمودار ہو تا ہے-
*اس ناگفتہ بہ صو رتحال میں استغفار کی کثرت ہی نجات ہے*
اس صورت مین اگر کوئی طاقتور دافع ہے تو وہ مندرجہ ذیل چیزیں ہیں-
1: ذکر الہی- 2: صدقہ کر نا- 3: قر آن کریم کی تلاوت- 4: کیونکہ ان چیزوں کے سبب فرشتو ں کے ارواح نازل ہوتے ہیں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس صورت میں قنوت کا پڑھنا مشروع ہے-
علامہ سیو طی فر ماتے ہیں وبا کو دور کر نے کیلئے کثرت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا مجرب عمل ہے-
ایک تو احتیاط اور دوسرے رجوع الی اللہ اس وقت کی ضرورت ہے اس وائرس سے ڈر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیجیے-
آج ہم اجتماعی اور انفرادی طور پر کس حدتک پہنچ چکے ہیں اس پر غور کرنے کی کوشش کریں-

Comments are closed.