ممبرا میں سبھی مسالک کے علما کا اتحاد خوش آئند قدم

نازش ہماقاسمی
۱۷؍مارچ کو ممبرا کے جینیس اسکول متل گراؤنڈ امرت نگر میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو سے زائد علما، حفاظ، ائمہ مساجد این پی آر کے سلسلے میں ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے نظر آئے اور متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم سبھی مسالک کے علماء اس کا بائیکاٹ کریں گے اور اپنے اپنے حلقے میں اس بائیکاٹ مہم کو تیز کرتے ہوئے مساجد سے اعلان کریں گے کہ وہ این پی آر کا بائیکاٹ کریں۔ علماء کے اس فیصلے کی ہر جگہ ستائش ہورہی ہے، ان کے اس اقدام کو سراہا جارہا ہے اور مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ ہندوستان میں علماء سے عوام کا رشتہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک دوسرے مسلک کے علماء کو لڑانے، بھڑانے کی سازشیں ہورہی ہیں اس وقت یہ اتحاد نعمت غیر مترقبہ ہے ، باشندگان ممبرا کے لیے امید کی کرن اور پورے ملک کے علماء کے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر این پی آر کے بائیکاٹ کےلیے ملکی سطح پر سبھی مسالک کے علماء تمام گلے شکوے بھلاکر ملک کی سالمیت اور مسلمانوں کی بقاء کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آئیں تو اس کے نتائج دور رس ہوں گے۔ ممبرا کے علماء نے اپنا کام کردیا ہےانہوں نے اتحاد کا راستہ چن کر ہوش مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان شاء اللہ وہ اس مہم میں دل وجان سے لگ کر اپنی خدمات انجام دیں گے جس سے ممبرا کے باشندوں کو راحت و سکون آئین مخالف قانون کے خلاف اس تحریک میں مدد ملے گی؛ لیکن اگر یہی کام بڑے پیمانے پر شروع ہوجائے ، تو عوام کے دلوں سے خوف مٹ جائے گا۔ ضرورت اس وقت یہی ہے کہ پورے ملک کے علما سرجوڑ کر بیٹھیں، سیکولر برادران وطن ہمارے تعاون کو تیار ہیں، کئی بڑے چہرے ہیں جو اس مہم میں لگے ہوئے ہیں ان کی مدد سے بہت جلد اس کام کو شروع کیاجاسکتا ہے۔ تاکہ این پی آر کے نفاذ سے ہونے والی پریشانیوں سے بچاجاسکے۔ حکومت اپنے ارادے پر اٹل ہے وہ ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھاچکی ہے، جب کہ عوام این پی آر کو این آر سی کی پہلی سیڑھی تصور کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں ہیں؛ لیکن مخالفت کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور انہیں کنفیوژ کیاجارہا ہے کہ این پی آر سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اس سلسلے میں بات کی جارہی ہے کہ اگر کوئی کاغذ نہیں دکھاناچاہتا ہے تو نہ دکھائے، کوئی پورا کالم پر نہیں کرناچاہتا ہے تو نہ کرے، انہیں پریشانی نہیں ہوگی؛ لیکن عوام کو بھروسہ نہیں ہے اور بھروسہ بھی کیوں کر ہو جب کہ کئی ایسے مواقع آئے ہیں جب برسراقتدار لوگ اپنی باتوں کو ’جملہ‘ کہہ کر  ٹال گئے ہوں تو اس لیے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کاغذات ضرور درست رکھیں؛ لیکن این پی آر کی حمایت میں نہیں اس کی مخالفت میں ہمارے کاغذات درست ہونے چاہئیں ، ہمیں کاغذ نہیں دکھاناہے ہم ہندوستانی ہیں اور رہیں گے ہماری ووٹوں سے چن کر آئی ہوئی حکومت کو کون سا حق بنتا ہے کہ وہ اسی ووٹر آئی ڈی کو ناکارہ بناتے ہوئے ہمارے باپ داداؤں کے کاغذات کا مطالبہ کرے؟ کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا۔ آئین و دستور پر شب خون مارنے والوں اور منوسمرتی کو نافذ کرنے والوں سے ابھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اگر ہم جھک گئے ، رک گئے، ان کی فرمانبرداری قبول کر لی، ان کے  جھانسے میں آگئے تو ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی، آج جس طرح ہم اپنے آباؤ اجداد پر فخر کررہے ہیں اپنے علمائے سلف پر نازاں ہے اسی طرح ہماری آنے والی نسلیں بھی ہم پر نازاں ہوں اور فخر کریں، یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سبھی مسالک کے علماء وعوام دانشوران عظام اور ہوشمند افراد متفقہ طور پر پورے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک چلائیں۔ ہمیں این پی آر کی مخالفت میں کسی  عالم کے ذریعے پیش کیے گئے خدشات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم ان خدشات کو ذہن میں رکھیں اور این پی آر کی حمایت کردیں تو ان کے ذریعے پیش کیے گئے خدشات سے بھی بڑی پریشانیاں ہم پر آسکتی ہیں جن کا تصور بھی محال ہے۔ اس لیے اب وقت ہے کہ پورے ملک میں سبھی مسالک کے علما اتحاد کرتے ہوئے متفقہ طور پر اعلان کریں اور اپنے اپنے مسالک کے عوام کو اس بات پر راضی کریں کہ ہمیں کاغذ نہیں دکھانا ہے ۔ ہم اس کی مخالفت جاری رکھیں گے، ہم ذلت کی زندگی سے عزت کی موت مرنا گوارہ کریں گے یہی ہمارے اسلاف و اکابرین کا شیوہ رہا ہے انہوں نے ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں سے بے سروسامانی کے عالم میں ٹکر لی اور انہیں شکست دی اب ہم بھی ملک کی حفاظت کےلیے آئین و دستور کی سلامتی کےلیے انگریزوں کی دلالی کرنے والوں سے قانون کے دائرے میں لڑیں گے اور ملک کی حفاظت کریں گے۔ (ان شاء اللہ)

Comments are closed.