کرونا وائرس: قیامت سے پہلے قیامتیں

جاوید صدیقی
بہت سے مذہبی سکالرز ان احادیث کا حوالہ دے رہے ہیں جن میں قیامت سے پہلے بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کی پیشین گوئی موجود ہے، یوم حساب پر یقین رکھنے والے مانتے ہیں کہ کائنات کے موجودہ نظام نے ختم ہونا ہے اور اس کی جگہ ایک اور دنیا اور ایک اور نظام وجود میں آئے گا۔ سائنسدان زندگی اور کائنات کے بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ کی رائے ہے کہ قیامت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
کرونا وائرس جسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا ہے، اس بیماری سے ملتی جلتی بیماری جو اتفاق سے چین ہی میں 2002 میں شروع ہوئی تھی، بھی بڑی جان لیوا تھی۔ 2002 میں SARS نامی بیماری سامنے آئی، اس بیماری سے بھی عمل تنفس کی پیچیدگیاں پیدا ہوئی تھیں۔ سارس جسے Severe Acute Respiratory Syndrome کا نام دیا گیا، جب 2002 میں شروع ہوئی تو یہ 37 ملکوں میں پھیل گئی۔ اس وائرس کو بھی کرونا وائرس کا نام دیا گیا تھا، اس سے مجموعی طور پر 8 ہزار افراد متاثر ہوئے اور ان میں سے 800 اس بیماری سے مر گئے۔ کرونا وائرس کووڈ 19 کی طرح 2002 میں شروع ہونے والے وبائی مرض سے بھی لوگ نمونیا میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ یہ بیماری بھی متاثرین کو نمونیا کے مرض میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ نمونیا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سارے مہلک وائرس جانوروں اور پرندوں سے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2002 اور 2019 کے وائرس چین کی لائیو سٹاک مارکیٹیوں سے شروع ہوئے۔ جانور بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ان جانوروں کو بڑی محنت اور محبت سے پالا بھی جاتا ہے اور ان سے فائدے بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس دنیا میں جانور پھیلا دیئے ہیں جن سے انسان مختلف فائدے اٹھاتا ہے۔ ان کا دودھ پیتا ہے، گوشت کھاتا ہے اور انھیں سواری کیلئے بھی استعمال کرتا ہے۔ انسانی تاریخ بیماریوں کا وبا کی شکل اختیار کر کے ہزاروں لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ پچھلی صدی میں بھی لاکھوں افراد وبائی امراض سے اس دنیا سے چلے گئے تھے مثلاً 1918 میں دنیا میں انفلوئنزا کی وبا بھوٹ پڑی۔ ایک سروے کے مطابق اس وبا سے ایک کروڑ افراد اس دنیا سے چلے گئے، 2009 میں سوائن فلو کے پھیلنے سے دنیا میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مختلف متعدی امراض میں اڑھائی لاکھ سے پانچ لاکھ افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پالتو جانوروں سے پھیلنے والے وائرس بھی ہر سال ہزاروں افراد کو متاثر کرتے ہیں، پچھلی صدی میں ایک اور بیماری عالمی سطح پر لوگوں پر حملہ آور ہوئی۔ 1980 کی دہائی مین ایڈز نامی بیماری سے 6 کروڑ افراد کو متاثر کیا جن میں سے قریب تین کروڑ افراد چل بسے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایڈز جس کا سائنسی نام HIV ( Human Immune Deficiancy Syndrome ) ہے انسانی میں بندر یعنی چیمپنزی سے منتقل ہوئی، یہ ایسا وائرس ہے جو انسان میں قوت مدافعت کو ختم کر دیتا ہے۔ جب انسان کی قوت مدافعت ختم ہوتی ہے تو عام بیماریاں اس پر حملہ آور ہوتی ہیں اور جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں پچاس ہزار افراد ایڈز سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے 18 فیصد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ انھیں کوئی مرض لاحق ہے۔ ملیریا ایک زمانے میں ایک خوفناک مرض تھا جس سے لاکھوں افراد مر جاتے تھے۔ اس مرض پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن اب بھی ملیریا سے لاکھوں افراد مر رہے ہیں۔ گذشتہ صدی میں 2 کروڑ 18 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد جاں گوا بیٹھے۔ ملیریا سے متاثر ہونے والے افراد میں سے اکثریت کا تعلق افریقہ کے ممالک سے ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ٹی بی کو ایک لا علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ یہ مرض ہزاروں سال سے انسان کے پیچھے پڑا ہوا ہے، گذشتہ صدی مٰن عالمی سطح پر 80 لاکھ سے زیادہ افراد ٹی بی کے مرض کا شکار ہوئے، ان میں سے 13 لاکھ مر گئے ۔ یہ مرض اب لا علاج نہیں رہا اس کے باوجود غریب ملک جو غذائیت کی کمی کا شکار ہیں وہاں کے لوگ لاکھوںکی تعداد میں ٹی بی کے مریض بن جاتے ہیں۔
انسان زل سے بیماریوں سے لڑتا چلا آیا ہے، بیماریوں خصوصاً جان لیوا بیماریوں کیساتھ اس کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔ کرونا وائرس بھی ان متعدی بیماریوں میں سے ایک ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں میں حملہ آور ہے۔ اس وائرس سے جتنا خوف پیدا ہوا ہے، اتنا شاید ہی کسی بیماری نے لوگوں کو خوفزدہ کیا ہو گا۔ کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے علاج کیلئے ویکسین تیار کر لی گئی ہے۔ احتیاطی تدابیر سے اس کے حملہ سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس بیماری نے عالمی معیشت کا کباڑا کر دیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق اب تک اس وائرس سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ قیامت خیز بیماری دنیا کے امیر و غریب ممالک کو یکساں طور پر متاثر کئے ہوئے ہے۔ انسان اس کا توڑ تلاش کرنے کی جستجو میں ہے۔ قیامت سے پہلے اس طرح کی بیماریاں انسان پر قیامت ڈھاتی رہیں گی۔

Comments are closed.