ہندو چین کے تناظر میں کورونا وائرس

ڈاکٹر سلیم خان
دہلی کے فسادات پر کمبھ کرن کی نیند سونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کو بالآخر کورونا وائرس نے بیدار کردیا اور ان کا ٹوئٹر پھر سے غٹرغوں کرنے لگا۔ اس تعلق سے اپنی تشویش کا ظہار کرتے ہوے پہلے تو انہوں نے ’ہولی ملن‘ میں شرکت سے معذرت چاہ لی اور پھر اپنے آدرش گجرات کا دورہ بھی منسوخ کردیا۔ یہ دونوں چونکہ منفی اقدامات تھے اس لیے ذرائع ابلاغ نے ان کی جانب توجہ نہیں دی۔ ایسے میں کسی نے مودی جی کو مشورہ دیا ہوگا کہ وہ عالمی سطح کے رہنما ہیں اس لیے کرونا وائرس کے مسئلہ پر بین الاقوامی سربراہان کو خطاب فرمائیں اس طرح ممکن ہے میڈیا آپ کی جانب متوجہ ہو جائے۔ یہ مشورہ تو خوب تھا مگر پھر کسی حقیقت پسند آدمی نے صلاح دی ہوگی کہ فی الحال لوگ وقت نہیں نکالیں گے اس لیے اپنی چادر کے مطابق پیر پھیلانا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے مودی جی نے جنوب مشرق ایشیائی ممالک کے سربراہان کو انٹر نیٹ کے ذریعہ خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہو ۔ پاکستان جس کو عرصۂ دراز سے کنارے کیا جارہا تھا اس کو بھی بلایا گیا لیکن عمران خان نے غیر حاضر رہ کر انتقام لے لیا۔
کورونا وائرس کے ضمن میں سارک رہنماؤں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس پر وزیر اعظم کے خطاب سن کر ایسا لگا کہ اگر وہ زحمت نہ کرتے تو اچھا تھا ۔انہوں نے مشترکہ کوشش کے لیے ایمرجنسی فنڈ کی رضا کارانہ تجویز پیش کی اور اس میں ہندوستان کی جانب سے دس ملین ڈالر ڈالنے کی پیشکش فرمائی مگر یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا کہ وہ ایسا کرنے جا ر ہے ہیں ۔ انہوں کہا کہ ہندوستان ٹیسٹنگ کٹ اور دیگر ساز و سامان پر مشتمل ماہرین اور ڈاکٹروں کی ریپڈ رسپانس ٹیم(آر آر ٹی) تیار کر رہاہے لیکن یہ نہیں بتایا وہ لوگ کب تک میدان عمل میں آ جائیں گے ۔ آن لائن ٹریننگ پر کوئی اس لیے توجہ نہیں دے گا وہ ہندوستان سے کیوں لی جائے جبکہ یوروپ اور امریکہ اس کے لیے موجود ہے ۔ اسی کے ساتھ مشترکہ طبی یا طویل ا لمدتی اقتصادی تحقیق کی تجویز کو بھی لوگوں نے اہمیت نہیں دیں گے کیونکہ اس معاملے میں ہندوستان کی مہارت کا لوہا کوئی نہیں مانتا ۔ اس طرح کل ملا کر یہ ایک فلاپ شو تھا ۔ عالمی ذرائع ابلاغ تو دور ہندوستانی میڈیا نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
کورونا جیسے مسئلہ سے جس کی جانب پورا ملک متوجہ ہو وزیراعظم کا فائدہ نہ اٹھانا ان کے لیے تشویش کا سبب رہا ہوگا ۔اس لیے جس دن چین نے کورونا کی وباء کو قابو میں کرکے کسی بھی نئے مریض کے اندراج نہیں ہونے کی کوشخبری سنائی اسی دن وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب توفرمایا لیکن وہ بھی ڈھاک کے تین پات ثابت ہوا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ، ‘پچھلے 2 مہینوں میں ہندوستان کے عوام نے اس وبا کا مضبوطی سے مقابلہ کیا ہے۔ 22 مارچ کو جنتا کرفیو کے تحت صبح 7 بجے سے رات 9 بجے تک گھر میں ہی رہنے کی اپیل کی۔ بند کے بجائے کرفیو اور اس کے لیے اتوار کے دن انتخاب کرکے انہوں نے ازخود اس کی اہمیت کم کردی۔انہوں نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں کورونا کےمعاشی بحران کا مقابلہ کرنے کی خاطر اقتصادی ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان تو کیا لیکن نہ کسی رقم کے مختص کرنے کی بات کی اور نہ اس کےاغراض و مقاصد سے آگاہ کیا ۔ پی ایم مودی نے تاجروں سے ملازمین کی تنخواہ نہیں کاٹنے کی درخواست کی ۔ذخیرہ اندوزی سے منع کرتے ہوے پہلے جیسا ماحول رکھنے اورمایوسی یا گھبراہٹ سے بچنے کی تلقین کی ۔
اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر اعظم نے سماجی دوری بنائے رکھنے کے لیےتقریبات سے پرہیز کرتے ہوے گھر پر رہ کر کام کرنے کا مشورہ دیاجو پہلے سے ذرائع ابلاغ کے اندر زبان زدِ عام ہوچکا ہے۔ اس تقریر میں نہ تو کوئی نیا پن تھا اورنہ واضح لائحہ عمل تھا لیکن پھر بھی میڈیا میں یہ خوب چلی۔ اس طرح مودی جی آئندہ انتخاب میں کورونا کو شکست فاش سے دوچار کرنے کا دعویٰ کرکے ووٹ مانگ سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم کی تقریر سے زیادہ سکون چین سے آنے والی اس خبر نے دیا کہ اس نے کورونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہےاور یہ امید جگی کہ اس مہلک وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے۔ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے پہلی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ چین کے ہوبی صوبے میں مقامی سطح پر کورونا وائرس کا کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا، تاہم بیرون ملک سے آنے والے افراد اب بھی چین کے لیے خطرہ ہیں۔کرونا وائرس کے عتاب کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا اور اس کے بعد وہ یورپ سمیت پوری دنیا میں پھیل گیا اس لیے یہ خبر اہمیت کی حامل ہے۔ ہوبی صوبے کی پانچ کروڑ آبادی کو سخت حفاظتی اقدامات کے تحت میں 23 جنوری سے قرنطینہ (Quarantine) میں رکھا گیا تھا اور دیگر شہروں میں بھی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
چین میں جملہ 81 ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ،جس میں سے زیادہ تر افراد صحت یاب ہو چکے ہیں اور اب صرف ۷ ہزار ۲ سومریض زیر علاج ہیں۔چین میں ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار 245 ہے جبکہ عالمی سطح پر 8ہزار7 سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں یعنی دیگر ممالک میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد اب چین سے تجاوزکر چکی ہے۔ چین کے اندر صورتحال الٹ گئی ہے۔ وہاں پر بیرون ملک سے روزانہ 20 ہزار افراد داخل ہوتے ہیں اور اب ان کے ذریعہ وائرس کو دوبارہ حملہ کرنے کا خدشہ وارد ہوگیاہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے 10 مارچ کو ووہان کو دورہ کرکے کورونا وائرس کے پھیلاو پر قابو پا نے کا دعویٰ کردیا ۔ اس کے بعد وہاں لگائی جانے والی مختلف پابندیاں اٹھا لی گئیں ۔ مجموعی طور پرحالات زندگی بتدریج معمول پر آنے لگے کیونکہ کئی علاقوں میں صنعتیں اور تعلیم گاہیں یاتو کھول دیئے گئے ہیں اور بقیہ میں کھولنے کی تیاری شروع ہوگئیں۔ ہندوستان کے عوام اب مودی جی سے اس طرح کے اعلان کی منتظر ہیں ۔ چین کے بعد کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں اٹلی اور ایران شامل ہیں۔ اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
کورونا وائرس کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کا انتیس سال کی کم ترین سطح پر آ جانا ہندوستان جیسے ملک کے لیے ایک خوشخبری ہے جہاں تیل کی درآمد کے سبب قومی خزانے کا بہت بڑا خسارہ ہوتا ہے۔ خام تیل کی قیمتیں فی الحال 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق اگر حکومت چاہے تو تیل کی گرتی قیمتوں سےاپنی عوام کو بے پناہ فائدہ پہونچا سکتی ہے۔اس سےمہنگائی کی شرح کم ہو سکتی ہے اور سودکی شرح کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن موجودہ سرکار کا ایسا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ حزب اختلاف کی جماعت کانگریس مطالبہ کیا ہے کہ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت میں شدیدکمی کا فائدہ ملک کے عوام کو ملنا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں پیٹرولیم کی مصنوعات کو نومبر 2004 کی سطح پر لانا چاہئے۔ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل 38.9 ڈالر فی بیرل تھا۔ موجودہ حکومت پٹرول-ڈیزل کی قیمتوں میں محض دو روپے 69 پیسے اور دو روپے 33 پیسے کی معمولی تخفیف کر کے عوام کو لوٹ رہی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب پٹرول -ڈيزل اور رسوئی گیس کی شرح 35 سے 40 فیصد کم کی جانی چاہیے ، تاکہ عام لوگوں کمر توڑ مہنگائی، اقتصادی بحران اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے راحت مل سکے لیکن جس ملک میں الیکشن جیتنے کے لیے محض پلوامہ ، ائیر اسٹرائیک ، طلاق ثلاثہ ، رام مندر، سی اے اے اور این آر سی جیسے جذباتی نعرے کافی ہوں وہاں کوئی جمہوری سرکار عوامی فلاح و بہبود کے کام کیوں کرے؟

Comments are closed.