كرونا وائرس كی روك تھام كے لئےحفاظتی تدبیریں ،عقل ونقل كےآئینہ میں

 

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی

(عمید كلیۃ البحث والبحث جامعۃ العلوم ،گڑہا   – گجرات)

                كرونا وائرس پھیلنے والے خطرناك مرض سے بچنے كے سلسلہ میں  یا اس كی روك تھام كے لئےدرج ذیل ہدایات پر عمل كو یقینی بنایا جائے؛ كیونكہ حفظ جان بنیادی مقاصد شریعت میں سے دوسرے نمبر پرہے ، اور حفظ جان كے قبیل سے حفظ صحت ہے ، اور حفظان صحت كےلئے شریعت اسلامیہ نے  بہت ساری چیزوں كو حرام و ناجائز قرار دیا ہے ، جیسے: شراب نوشی ،خنزیر ، كتا  اور مردار كے گوشت وغیر ہ، یہ ساری چیزیں انسانی صحت كے لئے ضرررساں او ر نقصاندہ ہیں ، اس وقت كروناو ائرس  كی وباء  خود  حرام كردہ بلی ، كتا ،چمگادڑ وغیرہ  كھانے اور استعمال  كی  وجہ سے آئی ہے  ۔ معلوم ہوا  كہ حفاظتی تدابیر اختیاركرنا  شرعی حكم ، ایمان اور تقدیر كے منافی نہیں بلكہ یہ بھی علاج كا ایك حصہ ہے  اور  وبائی مرض میں تو   احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار كرنا سب سے بڑا علاج  اور كامیاب حكمت عملی ہے، خوف وبزدلی نہیں  ۔ یہاں اسی  بنیاد پر  احتیاطی تدابیر  كے طو ر پر  بعض چیزیں بیان كی جاتی ہیں ،  جن كا تعلق   ،گھروں  ، مساجد  ، دیگر عبادت خانے ،پبلك مقامات ،نمازیوں اور عام نوع انسان سے ہے ، اور وہ  یہ ہیں:

  • امام صاحب فرض نمازیں مختصر پڑھائیں ۔نمازی اپنے گھروں سے صابن سے ہاتھ دھوكر باوضو ہو كر سنت پڑھ كر نكلیں اور مسجدوں میں باجماعت فرض نماز پڑھ كر گھروں كو واپس  ہوجائیں  اور  فرض نمازوں كے بعد كی سنتیں اور  نفل گھروں میں پڑھنے كا اہتمام كریں ۔ ویسے عام اوقات میں بھی صابن سے ہاتھ  منہ دھونے كپڑے اوربدن كی صفائی كا اہتمام كریں۔
  • موجودہ صورت حال  میں مصافحہ اور معانقہ  سے پرہیز كریں؛ كیونكہ اسلامی اصول ہے كہ جب ضرر اور فائدہ  دونوں  پہلوؤں كا اجتماع ہوجائے توضرر كے پہلو كوغلبہ وترجیح حاصل ہوتی ہے [إذَا تَعَارَضَ الْمَانِعُ وَالْمُقْتَضِي قُدِّمَ الْمَانِعُ] (الأشباه والنظائر للسيوطي،ص:۱۱۵)۔  حدیث اور سیرت كی كتابوں میں آتا ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے  فتح مكہ كے موقع سے خانہ  كعبہ كو منہدم كركے كہ حضرت ابراہیم علیہ السلام كے طرز  پر دوبارہ ا س كی تعمیر كا ارادہ فرمایا تھا ؛لیكن اس  ارادہ كو  عملی جامہ پہنانے  سےرك گئے ؛ كیونكہ اس سے   نومسلم لوگوں   كےمرتد ہونے كا خطرہ تھا ۔ معلوم ہوا كہ كسی  شرعی جائز وپسندیدہ عمل كو  چھوڑا جا سكتا ہے جبكہ اس پر عمل سے ضرر كا اندیشہ ہو۔
  • كھانسی اور چھینك آتے وقت منہ پر كپڑا یا ٹشو پیپر ركھ لیں ، اگر كپڑا یا ٹشو پیپر بروقت  ساتھ نہ ہو تو  اپنی بایاں  ہتھیلی  منہ پر ركھ لیں خواہ نماز كے  اندر ہوں  یا نماز كے باہر ، ہاں! اگر نماز كی حالت ِقیام میں ہو ں تو دایاں    ہتھیلی منہ پر ركھ لیں ۔
  • وضو خانے كو خوب اچھی طرح  صاف كردیا جائے اور برابر صاف ستھر ا ركھا جائے ۔اسی طرح گھروں ،آفسوں اور دوسرے رہائشی  واقامتی مقامات كو بھی برابرخوب صاف ستھرا ركھنے كا اہتمام ہو۔
  • طہارت خانے(Toilet) غسل خانہ (Bath Room)، بیسن(Hand Wash Basin)، نلوں   كی خوب صفائی كی جائے  ، لوٹوں اور جگوں كو مانجھ كر صاف كر دیا جائے۔
  • جن لوگوں كو سردی كھانسی ، بخار، بدن میں اینٹھن ، یاسانس كی بیماری ہو،یادمہ كی شكایت ہو ، وہ گھر میں ہی نماز ادا كرلیا كریں ؛ تاكہ دوسرے بھائیوں كو ایذ پہونچانے سے محفوظ رہ سكیں ، جیسا كہ ایمان كا تقاضا  اور ایك مومن كی شان  وپہچان ہے ۔
  • مسجد كے انتظامیہ كو چاہئیے كہ وہ مسجد میں ركھے ہوئے تولیے اور ٹوپیوں كو  ہٹالیں؛ تاكہ لوگ ان كا استعمال نہ كریں، اسی طرح گھروں میں بھی ایك ہی تولیہ  كو ہر كوئی استعمال نہ كرے ؛ بلكہ اپنے اپنے تولیے یا رومال  الگ كرلیں۔
  • اپنے كپڑے ، ہاتھ ، پیربلكہ پورےبدن كی صفائی ستھرائی اورپاكیزگی كا خیال ركھیں۔ تمام مسلمانوں كو معلوم ہے كہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “پاكی آدھا ایمان ہے ”(ترمذی، دعوات، حدیث: ۳۵۱۹، امام ترمذی كا بیان ہے : حدیث حسن ہے )۔
  • مسجدوں میں بچھی جائےنمازیں اٹھالی جائیں ، اور فرش  كو اچھی طرح پانی  اور دوا كے ساتھ دھودیا جائے  اور ہرجمعہ كو اسی طرح دھونے كا اہتمام كیا جائے، ہوسكے تو مسجد كے اندرونی ماحول كو خوش بودار لكڑی سے دھونی دے كر خوشگوار بنایا جائے۔
  • مسجدوں میں ہرتین صفوں كی جگہ دو صفیں بنائی جائیں ، صفوں كے درمیان تھوڑا فاصلہ بھی ركھا جا سكتا ہے ۔
  • خطیب صاحب كو چاہئیے كہ جمعہ كا بیان اورعربی خطبہ   اورنمازكومختصر كریں ، عوام سے رجوع الی اللہ  اور گناہوں سے توبہ واستغفار  كی تلقین كریں ، مزید كرونا وائرس سے بچنے كی تدبیریں بھی مختصر  بتائیں ۔
  • جن فرض نمازوں كے بعد سنت نہ ہو ، تو ان فرض نمازوں كےبعد ، اورجن فرض نمازوں كے بعد سنت ہو تو سنت سے فراغت كے بعد كرونا وائرس  جیسی خطرناك بیماری سے حفاظت كی دعا  بڑے ہی گریہ زاری سے كی  جائے ۔خصوصی طور پر زیادہ سے زیادہ   نماز تہجدپڑھی جائے اور گناہوں سے خوب روروكرتوبہ واستغفار  كا اہتمام  كیا جائے ؛ كیونكہ اللہ كے رسول ﷺ نے مصیبتوں كے وقت كثرت سے توبہ واستغفاركرنے كی ہدایت دی ہے ۔ حضرت یو نس علیہ السلام   نے توبہ كی تو مچھلی كے پیٹ   سے باہر آئے ۔ اور ظاہر ہے  كہ مصیبت اور خاص  طور پر  اس طرح كی وباء انسانوں كی كثرت گناہ  اور ان كے برے اعمال كی وجہ سے   آتی ہے ؛ اس لئے  كہ گناہوں سے اللہ ناراض ہوتے ہیں ،  جیسا كہ اس آیت پاك سے معلوم ہوتا ہے:{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبِرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} [الروم: 41]“لوگوں كی بداعمالیوں كی وجہ سے خشكی اورتری میں فساد پھیل گیا؛تاكہ اللہ تعالی ان كو ان كے بعض كاموں كا مزا چكھائیں، شاید كہ وہ باز آجائیں”۔اور اللہ كو راضی كرنے كا راستہ اس كی عبادت كرنا ، اس كے حكم پر عمل كرنا اور گناہوں سے بكثرت  توبہ  واستغفار كرنا  ہے ، جب اللہ راضی ہوجائیں گے تو خود بخود وباء ٹل جائے گی۔
  • صدقات وخیرات بھی كریں ، اس سے اللہ رب العزت كا غصہ ٹھنڈا ہوتاہے ، اوریہ اچھا موقع ہے كہ اہل خیر حضرات ہزار یا پانچ سو روپے كے راشن كا پیكیچ بناكر مسلم اورغیر مسلم كی تفریق  كے بغیرضرورتمندوں تك پہونچا ئیں جو لاڈاؤن میں  زندگی گذاررہے ہیں۔
  • مسجد میں جمعہ اور جماعت تر ك كرنے كے بجائے نمازیوں كو ماسك پہننے كا پابند بنایا جائے؛ جمعہ اور جماعت كو موقوف كردینا كرونا وائرس كا علاج نہیں بلكہ یہ   كمزور ایمان كی بیماری ہے ۔ہاں !اتنا ضرور كیا جائے كہ اذان اورجماعت كے درمیان  وقفہ مختصر  ركھا جائے اور جماعت مختصر ہو ۔ اگر جمعہ كی نماز میں بھیڑ زیادہ ہو تو دوجماعت كرلی جائے ، دونوں جماعتوں میں ااتنا فاصلہ ہو كہ پہلی جماعت كے سب  لوگ نماز پڑھ كر  مسجد خالی كردیں تب دوسری جماعت  قائم ہو،   دوسری جماعت كے امام  پہلے امام  كی جگہ چھوڑ كر پیچھے  كھڑے ہوكر نماز پڑھائیں، بہتر ہو گا  كہ جمعہ كے امام راتب دوسری جماعت كی امامت كریں۔ واضح رہے كہ جس طرح مساجد  اور اذان شعائر اسلام میں سے ہیں اسی طرح جامع مسجدوں میں جمعہ كی نماز كا قیام اور  مسجدوں میں نماز باجماعت كا ہونا بھی شعائر اسلام میں سے ہیں؛ اس لئے مطلق ترك جمعہ اور جماعت   وہ بھی شہر كی تمام مساجد میں درست نہیں ہوگا،ہاں !بڑی جماعت نہ ہو كم از كم اقل جماعت تین چار افراد پر مشتمل اور اذان دینے كا اہتمام ضرور ہو، وہ بھی ہندوستان  كی حالات پس منظر اور بھی ضروری ہوتا ہے كہ مسجدوں میں نماز جمعہ اور نماز باجماعت كا اہتمام  فی الجملہ باقی رہے ؛ تاكہ حكومت كو كل كی تاریخوں میں كوئی نظیر  نہ مل سكے ، جس كو بہانہ بناكر ہماری مسجدوں كو آہستہ آہستہ مقفل  كردے، اور ہم ان كے اس كام میں معاون ثابت ہوں، دیكھئے ! اسلامی تاریخوں میں  كرونا وائرس سے زیادہ سنگین اور بہت زیادہ خطرناك  اورجان لیوا طاعون(پلیگ)آچكاہے ؛لیكن ترك جمعہ اور جماعت كا ذكر نہیں ملتا ہے۔ ہمارے فقہاء جو بال كا كھال نكالنے میں  مشہور ہیں ، وہ بھی تخفیفات اور رخصتوں كی فہرست میں  اجتماعی طور پر ترك جمعہ اور مسجدوں میں فرض نماز باجماعت كے ترك كو ان میں  شمار نہیں كیا ہے ،انفرادی طورپرمختلف قسم كے معذورین  كے لئے تر ك جمعہ اور جماعت كا ذ كر ملتا ہے ۔ قرآن نے  كتنے سخت الفاظ میں  كہا:“اور اس سے بڑھ كر ظالم اور كون ہوگا جو اللہ كی مسجدوں میں اللہ كا نام لینے سے روكے اور اس كو ویران كرنے كر نے كے درپر ہو”[بقرہ:۱۱۴]۔ نیز معلوم ہونا چاہئیے كہ حكم شرع بنیاد وہم واندیشہ پر نہیں ہوتا ہے بلكہ یقین یا كم ازكم غالب ظن  ہو تو اس پر حكم شرع كی بنیاد ہوتی ہے اور شرعی رخصت حاصل ہوتی ہے ۔
  • اس بیماری كا شكار بچے اور عمر زیادہ  لوگ زیادہ ہوسكتے ہیں ؛ كیونكہ ان میں قوت دفاع كی كمی ہوتی ہے ؛ اس لئے بچوں اور عمر دراز لوگوں  كو بہت زیادہ احتیاطی وحفاظتی تدابیر اختیار كرنا اور ماہر ڈاكٹروں  كی ہدایات پر عمل كرنا ضروری ہے ۔
  • لوگوں سے زیادہ میل ملاپ اور بھیڑ كی جگہوں سے  بچا جائے ، بلا اشد ضرورت كے گھر سے باہر نہ نكلا جائے اور نہ ہی سفر كیا جائے ، اسلامی تعلیم یہی ہے كہ وبائی بیماری  كے موقع سے جو جہاں ہیں وہ وہیں رہیں ،  وبائی كے مقام  كے لوگ وہاں سے نقل مكانی نہ كریں ، اور  باہر سے سوائے ڈاكٹروں كے كوئی اور اس جگہ نہ جائے ، یہ سب سے بڑا علاج ہے اور  اس كو پھیلنے سے روكنے كےلئے بڑا ہی مؤثر اقدام اور ذریعہ  ہے۔  كرونا وائر س   كو روكنے كے لئے اس طرح كے اقدام سے بڑی غفلت ہوئی ہے ، اسی وجہ سے یہ وباؤ اتنا زیادہ پھیل گئی۔ ہندوستان میں روك تھام كے جو اقدامات ابھی كئے جارہے ہیں ، یہی پہلے كئے ہوتے تو بڑا اچھا ہوتا اور پورے ہندوستان میں پھیلنے سے روكا جاسكتا تھا ، بہر حال  اس وقت   روك تھا م كے لئے جو ہورہا ہے ، بہتر ہے ، پبلك كو بھی چاہئیے كہ وہ محكمہ صحت اور حكومتی اقدامات   كا ساتھ دیں، خود  بھی ان پر عمل كریں اور دوسروں كو بھی عمل پر آمادہ كریں ، ورنہ بڑا ہی برا حال ہوگا ، جیسا كہ ا س وقت كھلی آنكھوں سے اٹلی كے لوگوں  كا حال دیكھا جاسكتا ہے ۔
  • جنگی پیمانہ پر بخار چیك كرنے والے مراكز لاتعداد قائم ہو نے چاہئیں ، اس میں  حكومت كے ساتھ رفاہی ادارے بھی آگے آئیں ۔
  • عالمی طبی ماہرین كی ٹیم  كے سربراہ ڈاكٹر بروس ایلورڈ  ،جنہیں معائنہ كے لئے  چین بھیجا گیا تھا، چین سے واپسی  كے بعد  وہاں  جلدكنٹرول پائے جانے كی وجوہات بیان كئےہیں ،  ان سےاستفادہ كرتے ہوئےكچھ چیزیں یہاں  معمولی تصرف كے ساتھ ذكر كی جاتی ہیں :

الف:كرونا وائر س كے ٹیسٹ تك آسان اور مفت رسائی  كویقینی بنایا جائے،  اور اس كے متاثرین مریضوں  كے ٹیسٹ اوراس سے متعلق اخراجات حكومت برداشت كرے۔

ب : پیشگی روك تھام  كے مقصد سےپہلے سے موجود ہسپتالوں كی گنجائش میں اضافہ ہواور كروناوائرس متاثرین مریضوں كےلئے كچھ بیڈس مختص كئے جائیں اورعارضی ہسپتالوں كی تعمیر كی طرف قدم بڑھایا جائے۔اس سلسلہ میں موجودہ ہندوستان  كی صورتحال افسوسناك ہے۔

ج: متاثرین كی نگرانی  كا نظام بڑی چوكسی كے ساتھ وسیع پیمانہ پر ہو۔مریضوں كو ڈھونڈ ڈھونڈ كر نكا لا جائے۔ وائرس كے حوالہ سے مستند اور تازہ ترین معلومات كو زیادہ سے پھیلایا جائے اور  خوب شیئر كیا جائے، اور جعلی افواہوں اور جعلی معلومات كو پھیلنے سے روكا جائے، عالمی ادارے كے مطابق یہ كردار فیس بك، ٹوئٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ كو ادا كرنا چاہئیے۔

د: متعدد طبی خدمات كو آن لائن منتقل  كرنے كا نظام ہو نا چاہئیے، مریضوں كو آن لائن مشاورت فراہم كی جائے، اور انہیں ہرطرح كی طبی سہولیات فراہم كی جائے۔

ھ : لوگوں كو گھروں تك محدود كرنے كی كوشش  ہو ؛تاكہ وباء نہ پھیلے ، وہیں اس بات كو بھی یقینی بنانےكی كوشش ہو كہ اورخوردو نوش  اوردیگر بنیادی ضروریات زندگی كی اشیاء كی سپلائی كو یقینی بنایا جائے ورنہ لوگوں كی اموات بھوك مری اور دوسری وجہوں سے بھی ہونے لگے گیں۔

  • كوشش ہو كہ كسی سے بات كرتے وقت اس سے ایك میٹر كے فاصلہ  كی دوری  بنا ئے ركھیں ، كسی ضرورت كے تحت گھر سے باہر نكلنا ناگزیر ہو تو ماسك كا ضرور استعمال كریں۔
  • جب لفٹ سے اترنا اور چڑھنا ہو تو بٹن الگلی كے پور سے دبانے كے بجائے كہنی سے یا انگلی پر كپڑا ركھ كردبائیں۔
  • چكن ،آئس كریم ،ٹھنڈا مشروب اور ٹھنڈا پانی استعمال نہ كیا جائے اور حتی المقدور دوسری ٹھنڈی چیزیں كھانے پینے سے پرہیز كریں۔

صبح وشام كی ماثور دعائیں پڑھنے كا اہتمام كیا جائے ، ان د عاؤں میں  خاص طور پر یہ دعائیں ضرور پڑھیں: « اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ» (ابوداؤد، باب فی الاتعاذۃ،  حدیث:۱۵۵۴، صحیح ابن حبان، حدیث:۱۰۱۷)۔ « أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ » (مسلم حدیث:۵۴ – ۲۷۰۸)۔ حضرت ابوبكرہؓ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا صبح وشام تین بار پڑھا كرتے تھے: «اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ»  (ابوداؤد،، بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ حدیث:۵۰۹۰)۔

  • اسی طرح آیت الكرسی اور معوذتین (قل اعوذبرب الفلق، اور قل اعوذ برب الناس) اورسورہ اخلاص  تین تین بار صبح وشام پڑھیں ، جیسا كہ حدیث شریف میں آیا ہے ، انشاء اللہ اللہ كی مدد ہم سفر اروشامل حال رہے گی اور كرونا وائرس سے محفوظ رہیں گے۔

Comments are closed.