جمعہ نامہ : کورونا وائرس کا سبق آموز پہلو

ڈاکٹر سلیم خان
ممبئی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ شہر نہیں سوتا ۔ 1993 دھماکوں سے یہ شہر دہل نہیں سکا اور نہ 2006کی دہشت گردی اس کو خوفزدہ کرسکی ۔ یہی بے حسی دنیا سے سارے بڑے شہروں میں عام ہے دہلی کے حالیہ فسادات کے باوجود جمنا کے دوسری جانب معمولاتِ زندگی حسب معمول جاری رہے کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ سورۂ نحل میں اس بے فکری کی تمثیل یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’ اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا ‘‘ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائےبستی کے لوگوں نے’’ اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا ‘‘۔اس کے نتیجے میں بستی پر کورونا وائرس جیسی آفت وارد ہوگئی ’’ اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔ دیکھتے دیکھتے رزق کی فراغت کو بھوک اور امن و اطمینان کو خوف کی مصیبت سے بدل دیا گیا ۔ موت کے ڈر سے لوگ ازخود اپنے گھروں میں مقید ہونے پر مجبور ہوگئے ۔اب تو ہر کسی میں ملک الموت جلوہ افروز ہوگیا ہے۔
قرآن حکیم میں بیان کردہ قومِ سبا کی حالت اور موجودہ دور کے خوشحال ملکوں میں کمال یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، یہ عمده شہر اور وه بخشنے واﻻ رب ہے لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے (ہرے بھرے) باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیئے جو بدمزه میوؤں والے اور (بکثرت) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے ‘‘۔ کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو ایک معمولی اشارے سے غارت کردیا ہے۔ فرمان ربانی میں اس کی یہ وجہ بیان ہوئی ہے کہ ’’ ہم نے ان کی ناشکری کا یہ بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیتے ہیں‘‘۔ اس بلائے ناگہانی کے آگے ہر کوئی بےبس ہے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ مدد و استعانت کرنے والے خود محتاج محض بنا دیئے گئے ہیں ایسے میں یہ آیت یاد آتی ہے’’ کہہ دیجیئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذره کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ‘‘۔
ان آفاتِ سماوی کی وجہ سورۂ روم یوں بیان کی گئی ہے کہ’’بحر و بر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کمائے ہوئے اعمال ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے‘‘ ۔ اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی گئی ہے کہ ’’ شاید وہ ایسے کاموں سے باز آجائیں‘‘۔ ایسےمیں اصلاح حال کی جانب ہونے والوں ذکر سورہ القلم ہے ’’ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گےاور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے‘‘۔ یعنی اللہ سے بے نیازسارا اعتماد خود کی ذات پر تھا۔ اس لیے ’’ وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے اس پر ایک آفت پھر گئی تو وہ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ‘‘۔ ایسے میں مساکین پر مال خرچ کرنے سے روگردانی کرنے والوں نےاللہ تعالیٰ کی جانب رجوع ہوکر کہا ’’ ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے۔امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے پلٹتے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا کورونا کادنیاوی جھٹکا ہمیں اپنی آخرت کی جانب متوجہ کرے گا؟ اور ہم بھی اس سے سبق لے کربارگاہِ خداوندی میں روتے گڑگڑاتے پلٹیں گے؟
Comments are closed.