وباء اور عبادات و شعائر اسلام کی ادائیگی

نثار احمد حصیر القاسمی
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز ، حیدرآباد
شیخ الحدیث معہد البنات ، وجامعۃ النور ، حیدرآباد \|۔ الہند
Cell: 0091939312815
[email protected]
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریںگے، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے، جان و مال اور پھلوں میں کمی کر کے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیدیجئے، جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(البقرہ: ۱۵۵۔ ۱۵۷)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : اللہ تعالی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورا امن و اطمینان سے تھی، اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہرجگہ سے چلی آرہی تھی، پھر اس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا انکار کیا (ناشکری کی) تو اللہ تعالی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔
اس وقت کرونا وائرس نے ساری دنیا میں ہلچل مچا رکھا ہے، ہر کوئی اس سے خوفزدہ ہے، دنیا کے سارے ممالک اس کے قہر سے بچنے اور اس کی ہلاکت خیزی کو کم سے کم کرنے کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کر رہی ہیں، اور چونکہ اس کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب اختلاط اور لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا ہے، اس لئے ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں نے اس اختلاط و انتقال پر قدغن لگانے کے لئے اپنے یہاں ایمرجنسی لگا دی، یا لوک ڈاؤن کر دیا ہے، ان حالات میں ہم مسلمانوں کو کس طرح رہنا چاہئے اور کس طرح اپنی عبادتوں اور اسلامی شعار کو انجام دینا چاہئے اس پر گفتگو سے پہلے چند باتیں بطور تمہید عرض کر دینا مناسب ہے:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (النساء : ۵۹)
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (ہمارے ملک ہندوستان میں یہ اختیار والے علماء فقہاء اور کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اور مجتہدین ہوسکتے ہیں) پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف (کتاب اللہ کی طرف) اور رسول ( حدیث ) کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بہت عمدہ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:
ما أمرتكم به فأتوا منه ما استطعتم وما نهيتكم عنه فانتهوا ( متفق علیہ)
اور میں جس چیز کا تمہیں حکم دوں اسے بجا لاؤ جس حد تک بس میں ہو ۔ اور جس سے روکوں تم رک جاؤ ۔
فقہ اسلامی کا ایک قاعدہ ہے ، در أ المفاسد مقدم علی جلب المنفعۃ کہ مفاسد و خرابیوں کو دور کرنا منفعت حاصل کرنے سے مقدم و بہتر ہے۔
ایک اور قاعدہ شرعیہ ہے : یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام کہ عمومی ضرر و نقصان کو دور کرنے کے لئے انفرادی و خصوصی ضرر کو برداشت کیا جائے گا۔
اس تناظر میں مسلمانوں کے بشمول ملک کے تمام باشندوں پر لازم ہے کہ صحت سے متعلق ان تمام ہدایات کی پابندی کریں جو متعلقہ اداروں کی جانب سے دیئے جارہے ہیں، اور وباء کو منتقل ہونے اور پھیلنے سے روکنے کے لئے تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔
جولوگ کرونا جیسی وبائی متعدی بیماری کا شکار ہوچکے ہیں یا جن میں اس کا شبہ ہے یا جن کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ اس سے جلد متاثر ہوسکتے ہیں شرعی طور پر ان کا عوامی جگہوں پر جانا اور اکٹھا ہونا جائز نہیں ، ان کا مسجد آنا، اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنا بھی درست نہیں ہے، ان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ جمعہ کی نماز بھی گھر پر ہی ظہر کی ادا کریں، لوگوں سے دور رہیں اور از خود اپنے آپ کو قرنطینہ میں رکھیں اور ان علاجوں سے استفادہ کریں جو اطبا ان کے لئے تجویز کریں۔
اگر ماہرین یہ واضح کرتے ہیں کہ بیماری ملنے جلنے سے پھیلے گی جیسا کہ اس وقت کہا جارہا ہے تو مسلمانوں پر ضروری ہے کہ گھروں میں نماز پڑھیں اور مسجد جاکر دوسروں کی ہلاکت کا سبب نہ بیں، یوں بھی عمر رسیدہ کمزور لوگوں، بیماروں اور چھوٹوں کو باجماعت نماز نہ پڑھنے اور جمعہ و عیدین و تراویح میں حاضری سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، کہ وہ معذور ہیں، جب یہ بات تحقیقی طور پر ماہرین کی جانب سے کہی جا رہی ہے کہ یہ بیماری ایک دوسرے سے مس ہونے سے منتقل ہوتی ہے تو پھر کہیں بھی اجتماعی جگہوں پر جانا شرعا جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ اپنے ساتھ دوسروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا (النساء:29)
اپنے آپ کو ہلاکت میں مت کرو، اللہ تعالی تم پر رحم کرنے والے ہیں۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ٻ (البقرۃ: 195)
اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔
احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ(النساء: 71)
اے ایمان والو اپنے بچاؤ کا سامان اختیار کرو۔
دوسری جگہ ہے کہ اپنے بچاؤ کی تدبیریں اختیار کئے رہو ۔ (النساء : 102)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فر من المجذوم کما تفر من الاسد (صحیح بخاری)
جذام کے مرض میں مبتلا شخص سے اس طرح بھاگو ( دور رہو) جس طرح شیر سے بھاگتے اور دور رہتے ہو ۔
عہد قدیم سے ماہرین کہتے آرہے ہیں کہ جذام ( کوڑھ) متعدی بیماری ہے اور اس سے بھاگنے کا حکم اسی وجہ سے ہے کہ یہ دوسروں کی طرف منتقل ہوکر پھیلنے کا سبب نہ بنے، بلا شبہ بعض بیماریوں میں اللہ کے حکم سے تعدی اور ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دور رہنے کی تاکید کی اور اس طرح کے حالات میں ہمارے لئے بہترین اسوہ اور واضح تعلیمات و ہدایات چھوڑی ہیں جو اسلام کی حقانیت و آفاقیت کی واضح دلیل ہے۔
حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تدخلوہا، و اذا وقع بأرض و انتم بہا فلا تخرجوا منہا ( اخرجہ البخاری)
جب تم کسی سرزمین میں طاعون ( پلیگ) کی وباء پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر اس سرزمین میں ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔
وبا زدہ مقام سے نہ نکلنے کا حکم اسی وجہ سے ہے کہ یہ وباء وہاں سے منتقل ہوکر دوسری جگہوں کو نہ پہنچے اور دیگر علاقہ کے لوگ اس کا شکار نہ ہوں ، اور وباء کے مقام کے باشندے دوسری جگہوں کے صحتمند لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کا سبب بنیں۔
ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ 2| / 377 میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ طاعون عمواس کے پھیلاؤ کے وقت لوگوں کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے گئے اور لوگوں کو حکم دیا کہ تجبلوا آبادیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جاؤ ، اس تدبیر سے وہ بھی اس وباء سے محفوظ رہے اور دوسرے مسلمان بھی ، اس کی اطلاع جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ملی تو انہوں نے اس پر نکیر نہیں کی ؛ بلکہ اس کی تصدیق کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تور دوا الممرض علی المصح ( صحیح بخاری)
کہ مرض میں مبتلا کو تندرستوں کے پاس مت لاؤ۔
حضرت عمرو بن یحیی المازنی اپنے والد یحیی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ضرر ولا ضرار ( مؤطا امام مالک ) کہ نہ نقصان اٹھائے نہ نقصان پہنچائے ۔
ساری امت اس بات کی قائل ہے کہ الضرر یزال کہ ضرر و نقصان کو دور کیا جائے، اسے شرعی قاعدہ قرار دیا گیا کہ بہر صورت ضرر کو دور کیا جائے گا ۔
تو انسانی جان کی حفاظت و سلامتی اور ہلاکت و بربادی سے اس کی حفاظت اور جسم انسانی کو ہر طرح کے ضرر سے بچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، اور اس مقصد کے تحت ان مقامات سے دور رہنا اس قاعدے کی رو سے ضروری ہے جہاں بیماریوں کے پھیلنے کا غالب گمان ہو ، جن لوگوں کے منہ میں بدبو ہو خواہ پیاز و لہسن کے استعمال کی وجہ سے یا بیڑی سگریٹ اور کھینی کی وجہ سے یا کسی اور بدبودار چیز کے استعمال کی وجہ سے شریعت نے انہیں مسجدوں سے دور رہنے کے لئے کہا ہے، بلکہ انہیں مسجدوں سے نکال دینے تک کا حکم دیا گیا ہے ؛ تاکہ اس کے جسم و منہ کی بدبو دوسروں کے لئے اذیت نہ بنے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
ثم انکم ایہا الناس تاکلون شجر تین الخ
لوگو! آپ حضرات ان دو پودوں کو کھاتے ہیں میں انہیں خبیث سمجھتا ہوں ، یعنی لہسن اور پیاز ، میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اگر کسی کو دیکھتے کہ ان کے منہ سے بدبو آرہی ہے تو آپ حکم دیتے پھر اسے نکال کر بقیع تک پہنچا دیا جاتا تھا، تو جو اسے کھائے اسے چاہئے کہ پکاکر اس کی بدبو کو زائل کر دے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مسجد سے نمازی کو محض منہ کی بدبو اور اس کی اذیت کی وجہ سے نکالنا ثابت ہے تو اس اذیت کا کیا حکم ہوسکتا ہے جو متعدی ہوکر دوسروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے ۔
حافظ ابن عبد البر نے التمھید : 6/ 422 میں تحریر کیا ہے کہ مسجد سے اخراج کی غلت جب اذیت ہے تو قیاس کا تقاضہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو مسجد میں قریب کے لوگوں کو تکلیف و اذیت دیتی ہو اس کی وجہ سے مسجد سے اخراج درست ہے اور جب تک یہ علت موجود ہو اسے مسجد سے دور رکھا جانا چاہئے۔
ہندوستان کے اندر مساجد میں با جماعت نماز کی ادائی اور جمعہ کی نماز کی بجائے گھروں میں ظہر کی نماز ادا کرنے سے متعلق اہل علم کے مختلف آراء دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی تاریخ میں پہلے بھی کئی بار ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جس میں نہ صرف نماز با جماعت سے احتراز کیا گیا؛ بلکہ جمعہ کی نماز بھی ترک کر کے ظہر کی نماز ادا کی گئی ہے، مثال کے طور پر جب تاتاری 656ھ میں بغداد میں داخل ہوئے تو اس وقت ابن کثیر اور دیگر اہل علم کے بیان کے مطابق کئی ماہ تک مسجدیں ویران رہیں، نماز با جماعت متروک رہی، اور جمعہ کی نماز بھی مسجدوں میں نہیں ہوسکی، لوگ جمعہ اور دیگر ایام کے اندر اپنے گھروں ہی میں نماز ادا کرتے رہے، ایسا دشمن کے خوف کی شدت اور مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے ہوا۔
اسی طرح مشہور مؤرخ عبد الرحمن الجبرتی نے حسن العطار کے حوالہ سے مصر اور شام کے علاقہ میں پھیلنے والے طاعون کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ بازار یں مکمل طور پر بند "لوک ڈاؤن” کر دیئے گئے، کفن کی دستیابی دشوار ہوگئ ، بیشتر لوگ یا تو مرنے والوں میں ہوگئے یا مرنے والوں کو دفنانے والے، زندوں میں یا تو بیمار تھا یا اس کی تیمار داری کرنے والا، علماء صلحاء، قراء، دیندار، سرداران اور پیشہ ورسب کے سب موت کے آغوش میں چلے گئے، مسجدیں ویران ہوگئیں، نہ اذان ہو رہی تھی نہ امامت و باجماعت نماز، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کام پر جو لوگ مامور تھے وہ یکے بعد دیگرے داعی اجل کو لبیک کہتے گئے، اور جو بچے تھے انہیں تجہیز و تکفین سے فرصت نہیں تھی، یا وہ گھروں میں پناہ لئے ہوئے تھے۔
اس وقت مسجدوں میں باجماعت نماز و جمعہ کو وقتی طور پر موقوف کرنے ، اور حکم شرعی کو معطل و پامال کرنے کے درمیان فرق کرنے کی ضررت ہے، جمعہ کی نماز کو معطل و کالعدم کرنے کی بات نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا متبادل موجود ہے، اور وہ ظہر کی نماز ہے، جب اصل یعنی جمعہ کو کسی عذر شرعی کی وجہ سے ترک کرنا پڑے جیسے دشمن کا خوف ، سفر، یا کسی آفت و مصیبت یا وبا کی وجہ سے تو اس وقت اس کے متبادل یعنی نماز ظہر پر عمل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جماعت سے نماز پڑھنا ہر حال میں مسجد ہی کے اندر یا ہر حال میں جمعہ کی نماز مسجدوں میں ہی قائم کرنا فرض عین نہیں۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت و مشقت کے پیش نظر گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے، اور اس حکم میں جمعہ اور جماعت دونوں شامل ہے؛ کیونکہ اس کا تعلق ضررو مشقت اور خوف سے ہے نہ کہ ترک ہونے والی عبادت سے، تو جب ایک معمولی سے ضرر جیسے کیچڑ بارش سیلاب یا پیاز و لہسن کھانے کی وجہ سے اس کی اجازت ہے تو ایک وبا اور متعدی بیماری کی وجہ سے اس کی اجازت بدرجہء اولی ہونی چاہئے؛ کیونکہ اس وباء کی وجہ سے نہ صرف اپنی جان جانے کا خطرہ ہے ؛ بلکہ دوسروں کی جانوں کو بھی ہلاکت کے خطرے میں ڈالنا ہے ۔
علامہ خطابی نے نقل کیا ہے کہ جمعہ کی نماز واجب کفایہ ہے اس لئے اگر چند لوگ مسجد میں یا کسی بھی جگہ (گھروں میں افراد خانہ کے ساتھ) اسے ادا کر لیتے ہیں، تو یہ واجب ادا ہوجائے گا اور یہ شعار بھی قائم رہے گا۔
جو لوگ مساجد کے اندر جماعت کثیر کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی پر اصرار کرتے ہیں وہ شاید اس ملک کے حکمرانوں کی بدنیتی اور اس خوف سے ہے کہ وہ اس وبا کو بھی ہندو مسلم بنانا چاہتی ہے کہ کبھی مہابھارت کا راگ الاپا جاتا ہے تو کبھی رام مندر میں مورتی بٹھانے کی تشہیر کی جاتی ہے، تو بند کرنے کی صورت میں وہ مساجد کے بارے میں کچھ اور بھی کھیل کھیل سکتے ہیں، مگر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ بھی ہے اور دینی فریضہ بھی کہ وہ صحت سے متعلق ہدایات کا پاس و لحاظ رکھیں، اور اس میدان کے ماہرین کے مشوروں کے مطابق عمل کریں تاکہ وباء کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے، خاص طور پر جبکہ یہ متحقق بات ہے کہ کورونا وباء بحکم خداوندی متعدی ہے، اور ایک شخص سیکڑوں اور ہزاروں کو متاثر کر سکتا ہے، اس لئے موجودہ حالات میں رخصت نہیں بلکہ عزیمت یہی ہے کہ مساجد میں نماز با جماعت کی بجائے گھروں میں نماز ادا کی جائے ، البتہ مساجد میں امام مؤذن اور قریب کے چند افراد نماز جاری رکھیں، اور یہی چند افراد جمعہ کی نماز بھی ادا کریں، اور بھیڑ جمع کرنے سے احتراز کریں۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت مسجدوں میں جمعہ یا جماعت کے لئے ہزاروں اور سیکڑوں کا جمع ہونا دوسروں کی جان اور خود اپنی جا سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے، اور ملک کے لئے نہایت ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے اٹلی اور جنوبی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنوبی کوریا میں کورونا جنگل کی آگ کی طرح ایک عورت کی وجہ سےپھیلا ، اسے قرنطینہ پہ رکھا گیا تھا؛ مگر وہاں سے وہ نکل گئی، آزاد گھومتی رہی، ملنے جلنے پر پابندیوں کا مذاق اڑاتی رہی، بھیڑبھاڑ کی جگہوں میں آتی جاتی اور چرچوں میں حاضری دیتی رہی یہاں تک کہ محض اس کی وجہ سے دسیوں ہزار اس وائرس کا شکار ہوئے اور ہزاروں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
اس لئے بحیثیت ایک مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی بھی حفاظت کا اہتمام کریں اور دوسروں کی حفاظت کا بھی ذریعہ بنیں، اور دوسروں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ مسلمانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے اس میں زیادہ ہلاکت ہوئی، اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ یہاں شعائر اسلام کی حفاظت، اور حفظ جان کے درمیان تعارض و ٹکراؤ ہے تو اس صورت میں بھی اسلامی اصول کے مطابق حفظ جان کو حفظ شعائر پر مقدم رکھا جانا مناسب ہے ، جبکہ یہاں ایسا کوئی تعارض نہیں کیونکہ شعائر کا متبادل موجود ہے، اور یہ وقتی ہے ، اس کے اندر حکم شرعی تکلیفی کو معطل و بے اثر کرنا نہیں ہے ، وہ اپنی جگہ قائم ہے، اسے کوئی نہ منسوخ کر سکتا اور نہ تبدیل کر سکتا ہے ۔
ان احتیاطی اقدامات کے ساتھ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ الحاح و زاری کے ساتھ اللہ سے دعائیں کریں، کثرت سے توبہ و استغفار کریں، اور جلدسے جلد اس وباء سے نجات و چھـٹکارے کی اللہ سے درخواست کریں، حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰي قُوَّتِكُمْ
اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کرو اور اس کے جناب میں توبہ کرو، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت وقوت بڑھا دے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (ابو داؤد و ابن ماجہ)
جو پابندی سے استغنار کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔
حضرت نوح علیہ السلام کے قصے میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا (نوح: 10 ۔ 12)
اور میں نے کہا اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا ، اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا۔
مسند احمد کی ایک صحیح حدیث ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فليس من رجل يقع الطاعون فيمكث في بيته صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد (مسند احمد حدیث نمبر :26139 )
جو کوئی شخص طاعون کی وبا پھیلنے کے وقت صبر کے ساتھ ثواب کی امید لئے اپنے گھر ہی میں رکا رہتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ جو بھی انسان کو لاحق ہو تا ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے جو اس نے مقدر کر دیا ہے تو اس کے لئے شہید جیسا ثواب ہے ۔
ابن حجر اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا اسے یہ ثواب ملے گا خواہ وہ اس وباء میں نہ مرے (فتح الباری : 10/ 194)
اسلام کی ان واضح تعلیمات کے رہتے ہوئے ہمیں مسجد ہی میں نماز باجماعت پڑھنے اور جمعہ قائم کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہئے؛ البتہ ہندوستان جیسے ملک میں حکمت و مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ مساجد کو مقفل نہ کیا جائے، وہاں امام و مؤذن اور ایک دو افراد باجماعت نماز پڑھتے رہیں، اور جمعہ بھی یہی چند افراد مسجد میں قائم کرنے پر اکتفاء کریں باقی تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جمعہ کے بشمول تمام نمازیں گھروں پر ہی اجتماعی یا انفرادی طور پر ادا کرتے رہیں،ا نہیں مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا؛ بلکہ انہیں جیتے جی شہید کا ثواب بھی ان شاء اللہ حاصل ہوگا ۔
Comments are closed.