مودی حکومت غریبوں کی دوست یا دشمن۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ۔8790193834
وقت جیسے جیسے گذرتا جا رہا ہے ملک میں کرونا وائرس کا قہر پھیلتا جا رہا ہے حالانکہ مودی حکومت نے اس قہر کو روکنے کے لئے 21دن کے لاک ڈائون کا اعلان توکردیا ہے لیکن اعلان کرنے سے پہلے پی ایم مودی نے یہ نہیں سمجھا کہ اس 130 کروڑ والے ملک میںغریبوں کی تعداد زیادہ ہے یہ غریب کس طرح اپنی زندگی بسر کریں گے ابھی چار دن ہی گذرے ہیں اور غریبوں کے حالات کی تصویر سامنے آنے لگی ہے انکے بیچ فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے حد تو یہ ہے کہ غریبوں کو بھوکا نہ سونے دینے کا دعویٰ کرنے والی سرکار کو انکی کوئی فکر نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ غریبوں کے بیچ خوردہ اشیاء اور کھانے کھلانے والے اعلانات صر ف اور صرف کاغذ پر ہی ہیں ورنہ غریبوں کے حالات یہ چیخ چیخ کر نہیں کہتے کہ ہم تین دن اور تین رات سے بھوکے سو رہے ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لوگ جتنا نہ کرونا وائرس سے مریں گے اتنا تو بھوک سے مر جائیں گے۔ایک تصویر جو کافی دردناک اور افسوسناک ابھر کر سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ غریبوں کی روزی روٹی چھین گئی ہے چاہے وہ دہلی ، ہریانہ، یا پھرراجستھان کے فیکٹری میں کام کرنے والے غریب مزدور ہوں انہیں فیکٹری مالکوں نے اپنے فیکٹری سے نکال دیا ہے جس سے انکا پورا خاندان سڑکوں پر آگیا ہے نوکری نہیں رہی رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا تو بے چارے غریب اپنے خاندان کے ساتھ اپنے اپنے گھر کی جانب پیدل ہی نکل پڑے انکے ساتھ معصوم بچے بھی شامل تھے جو بھوکے پیاسے 700,500,250 سو کیلو میٹرپیدل چلنے پر مجبور ہو گئے راستے میں اگر پولیس مل گئی تو انکا الگ ظلم انہیں مارا پیٹا گیا انہیں کان پکڑ کر اٹھی بیٹھی کرائی گئی ایک تو انکے پیٹ میں اناج کا ایک دانا نہیں دوسرا پولیس کے ذریعہ غیر انسانی سلوک، اور مودی حکومت کے وزیر گھر میں آرام سے بیٹھے’’ رامائن‘‘ کا سریل دیکھنے میں مصروف اسے غریبوں کیساتھ ہمدردی کہیں یا پھر دشمنی؟ پی ایم مودی میں خرابی یہ ہے کہ وہ تیاری سے پہلے اعلانات کر دیتی ہے اور پھر بعد میں اسکا ازالہ کرتی ہے جو مطمئن بخش بالکل نہیں ہوتا۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی نے بغیر تیاری کے اسی طرح سے اعلان کیا جس طرح سے این آر سی، سی اے اے اور این پی آر ہے۔ اس معاملے میں بھی پی ایم مودی نے کوئی تیاری نہیں کی اور اعلان کردیا جسکے خلاف لوگ سڑک پر اتر گئے اور اسے غیر آئینی قرار دے دیا یہی نہیں ھکومت کے خلاف دھرنا اور مظاہرے ہونے لگے جب مودی حکومت کو یہ سمجھ میں آئی کے این آر سی ملک کے لئے خطرہ ہے تو بیک فٹ پر آگئی اور اسے فی الحال کے لئے ٹال دیا گیا۔ وہی حال پی ایم مودی نے ان غریبوں کے ساتھ کیا بغیر تیاری کے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا گیا جس سے غریبوں میں بے چینی اور افراتفری پیداہو گئی لوگ کھانے کھانے کو ترس گئے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پی ایم مودی نے کرونا وائرس جیسے بیماری کو ختم کرنے کے لئے اور ملک کے 130 کروڑ عوام کی جان بچانے کے لئے 21دن کا لاک ڈائون کرکے سخت قدم اٹھایا پی ایم مودی کے اس فیصلے کی سبھی خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن پی ایم مودی سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈئون کرنے سے پہلے غریبوں کے بارے میں بھی کچھ سوچ لیتے تو اچھا تھا آج جس حالات سے ملک کا غریب گذر رہا ہے اور حکومت کو انہیںراحت دینے میں پسینے چھوٹ رہے ہیں وہ نہیں ہوتے۔حالانکہ بے بس مزدوروں کو شاہراہ پر چلتے دیکھ کر جب تصویر سامنے آئی تو ہریانہ، دہلی اور اتر پردیش حکومت کی نیند ٹوٹی تب تک تو کافی دیر ہو چکی تھی، کیوں کہ یہ کہا نہیں جا سکتا کہ جن مزدوروں کو انکے گھر تک چھوڑنے کا انتظام کیا جا رہا ہے ان پر کرونا وائرس نے حملہ نہ کیا ہو، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت ان دہاڑی مزدوروں کو بغیر جانچ کئے انکے گائوں تک بھیج رہی ہے اگر ایک بھی کسی بھی مزدور میں کورونا پوزیٹو نکل گیا تو آپ جان سکتے ہیں کہ گائوں کا کیا عالم ہوگا گائوں کے گائوں خطرے میں پڑ جائیں گے اور پھر حکومت کو کافی مشقت جھیلنی پڑ سکتی ہے کیوں کہ گائوں میں طب خدمات نہ کے برابر ہیں خبر یہ بھی آرہی ہے کہ گائوں کے زیادہ تر ڈاکٹر اپنے اپنے گھر میں آرام فرما رہے ہیں اس حالات میں دوسری ریاست سے آنے والے مزدوروں کا گائوں میں چیک اپ کیسے ہو سکتا ہے اورکرونا پوزیٹو نکل گیا تو حالات کیسے بنیں گے شاید اسکا اندازہ حکومت کو نہیں ہے اس لئے ضروری یہ ہے کہ کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے انہیں پہلے شہر کے ہیلتھ سینٹر بھیجا جائے پھر انہیں گائوں کے لئے روانہ کیا جائے۔اگر پی ایم مودی کی ہدایات کے بارے میں بات کریں تو مزدوروں کے بیچ سوشل ڈسٹینس نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس سے خطرہ اور بھی بڑھ جا تا ہے پہلے تو انہیں سوشل ڈیشٹنس کے بارے میں سمجھایا جائے کہ سو شل ڈیسٹنس اصل میں ہوتا کیا ہے تاکہ جب وہ اپنے اپنے گھر جائیں تو وہ اس پر عمل کریں نہیں تو لاک ڈائون کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا اس سے اموات کی شرح میں اضافہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھے گا اور پھر حکومت کے بس کی بھی بات نہیں ہوگی کہ ملک کے اموات کو روک پائے۔
بہر حال! مودی حکومت کے سامنے دو جنگ ہیں ایک تو کرونا وائرس کی روک تھام اور دوسرا غریبوں کی روزی روٹی کا سوال دونوں جنگیں اہم ہیں جس سے مودی حکومت کو جنگی پیمانے پر لڑنا ہوگا۔ چین امریکہ اور ایران نے تو صرف کرونا وائرس سے لڑائی کر رہے ہیں لیکن مودی حکومت کے لئے بے روزگاری روزی روٹی بھی ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جس سے مودی حکومت کو بڑی ہوشیاری سے قدم رکھنے ہونگے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ان چار دنوں کے اندر مودی حکومت نے دونوں پر قابو پانے میںناکام ثابت ہو رہی ہے کرونا وائرس کے مریضوں میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے لوگوں میں اسے لے کر خوف کا ماحول قائم ہے دوسری جانب غریبوں کے بیچ لاک ڈائون کی وجہ سے فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے کرونا اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اگر پی ایم مودی نے خود اسکا جائزہ نہیں لیا تو ملک کے لئے بڑی مشکل گھڑی ہو سکتی ہے، اس لئے پی ایم مودی سے بھی یہ گذارش کرونگا کا ان لیڈران پر بھی نوٹس لیں جو سڑک پر اتر کر نہ تو غریبوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور نہ ہی کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ترکیب بتا رہے ہیں یہ کام صرف ڈاکٹروں کا نہیں ہے بلکہ ملک کے عوام سے لے کر سیاسی قائدین کا بھی ہے انکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیداری مہم چلائیں، مودی حکومت کے وزیروں کو ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے صرف گھر میں بیٹھ کر’’ رامائن‘‘ سیریل دیکھنے سے ملک میں بڑھ رہے خطرے کو ٹالا نہیں جا سکتا پی ایم مودی کو چاہئے کہ ان وزیروں سے بھی کام لیں جو صرف اور صرف گھر میں مستی کر رہے ہیں اور ملک کا غریب بھوکے مر رہا ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ اس آفات کے وقت مسلم قائدین، ایکٹر، رضا کار تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور پی ایم راحت فنڈ میں کروڑوں روپئے جمع کر رہے ہیں۔
Comments are closed.