افسوس ! یہ مورکھ جنتا…….!

افتخاررحمانی فاخر
سینئرسب ایڈیٹربصیرت آن لائن
یہ وقت طعنے دینے کا نہیں ہے ،اور نہ ہی میں طعنے دے رہا ہوں ،لیکن مجبوراً کہنا پڑ رہا ہے کہ :’ جو لوگ اس وبائی دور میں نقل مکانی کرکے پیدل اپنے وطن جانے کو مجبور ہیں ،وہ اگر پانچ سالوں سے مل رہے وقتاً فوقتاً فریب، مکاری کو یادرکھتے ، تو آج یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے ، لیکن اب کیا کیا جاسکتا ہے، انہوں نے اپنے ووٹ کے ساتھ اپنا مستقبل بھی ریلیوں میں جاکر محض 5سوروپے کے عوض بیچ دیا ہے ،اب انہیں پچھتاوے کے اور کچھ نہیں مل سکتا ہے ۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی ادنیٰ سی حماقت کی سزا پورا ہندوستان بھگت رہا ہے،بغیر کسی منصوبہ اور محتاط قدم اٹھائے نتائج سے بالا ہوکر فیصلہ کئے جاتے ہیں، اور اس فیصلہ کو تھوپنے کی بھر پورکوشش کی گئی ، جس کا نتیجہ ان لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ ان کی حس اور ذکاوت سریع الحرکت نہیں،بلکہ جامد و ساکت اور بے بہرہ ہے، جنہوں نے نوٹ بندی کے کرب کوبھی فراموش کردیا ۔اوریہی وہ لوگ تھے ، جوکہہ رہے تھے کہ آپ کچھ بھی کرلیں ؛لیکن ’’آئے گاتو مودی ہی‘‘، مودی تو آگیا ،لیکن ان کے لئے کیا لے کرآیا؟ شاید یہ اب بھی خوابِ خرگوش میں ہی تھے؟ انہیں اُن کشمیریوں کو بھی یاد کرلینا چاہیے ، جنہیں۱۰؍لاکھ سے زائد فوجیوں اور نیم فوجیوں(آر ایس ایس کے غنڈوں) کی بندوق کی نوک پر 7سے 8ماہ مکمل لاک ڈاؤن میں رکھا گیا، ا ور ظالم ِ وقت کو ایسا کرتے ہوئے ذرا بھی ر حم بھی نہیں آیا۔اس لاک ڈاؤن میں انہیں(مغلوب الحال والتقدیرکو) کئی طرح کی خدمات بھی حاصل ہیں ، وہ پیدل ہی سہی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں ، انٹر نیٹ اور موبائل فون کی خدمات بھی ان کے لئے حاضر ہیں ، وہ اپنوں سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں، ا ور اپنی خبر اپنوں تک پہنچاسکتے ہیں۔ ظالم ِ وقت کو اس ظامانہ عمل کی طاقت اور ہمت کسی اور نے نہیں ؛بلکہ یہی ’مرکھ جنتا‘نے دی تھی، جو آج دہلی کے آنندوہار میں بھوکے اور پیاسے کھڑے بے بسی اور بیکسی کے عالم میں اپنے وطن کی راہ تک رہی ہے اور انہیں کوئی راستہ مل نہیں رہا ہے ، وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں ، لیکن کوئی مسیحا اور مونس انہیں نہیں مل رہا ہے ۔
انہیں اگر عقل ہوتی تو یہ مندر اور مورتی کے بجائے تعلیم و صحت کے نام پر ووٹ دے کر ا پنا نمائندہ منتخب کرتے ؛لیکن مذہب کے جنون اور مسلم تعصب نے ا نہیں اِس قدر مغلوب اور اندھا کردیا کہ وہ اپنے مستقبل سے کھیل گئے ۔ اگر ان کا نمائندہ با صلاحیت اور عقل و تدبر کا حامل ہوتا توآج ان کی یہ صورتحال نہیں ہوتی ، بلکہ حالات کہیں مختلف ہوتے ۔ ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا،بہتر علاج مہیا کرایا جاتا؛لیکن’ مندر کی محبت ‘اور’’ مسلم تعصب‘‘ نے انہیں آج اس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ آج ا پنے ہی وطن میں اجنبی اور پردیسی بن گئے ہیں ۔ جب ۱۹۴۷ء میں نفرت کی آگ اس ہندوستان میں لگائی گئی تھی ،لوٹ مار اور قتلِ عام ہوا تھا،اس وقت اسی طرح ایک مخصوص طبقہ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر سرحد عبور کررہا تھا،آج ٹھیک وہی منظر دہلی کی سرحدوں پر دیکھا گیا ، جب اِسی ملک کے باشندے اجنبی اور پردیسی کی طرح سروں پر اپنا سامان لئے اپنے وطن کو جارہے تھے۔یہ وہی لوگ تھے ، جو ایک مخصوص میڈیا ہاؤس کو گالیاں دیا کرتے تھے، انہیں غدار اور ملک دشمن بھی کہا کرتے تھے، لیکن یہی میڈیا ہاؤس ان کا مسیحا بن کرسامنے آیا، جس نے ان کی پریشانیوں سے دنیاکو آگاہ کیا۔
جتنی جلدی ہوسکے ، جاگ جائیں ، اب بہت دور ہوچکی ہے ،یہ مورکھ جنتا اپنے حقوق کو سمجھے ورنہ مستقبل میں اور بھی ذلت و خواری ان کا مقدر ہوں گی۔ جس طرح یہ آنند وہار اور دیگر بس ا سٹینڈمیں کھڑے ہوکر بے کسی کے عالم میں آنسو بہا رہے ہیں ، کیا پتا کل انہیں آنسو بہانے کا بھی موقعہ نہ مل سکے !!
Comments are closed.