فلم Contagion اور دجال کی دستک !

عمر فراہی
امریکہ کی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ میں 2011 میں ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا نام ہے Contagion جس کے معنی ہوتے ہیں چھوت ۔اگر یہ فلم 2011 میں ریلیز ہوئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس فلم کے تیار ہونے اور کہانی تیار ہونے میں بھی کچھ سال دو سال کا وقفہ ضرور لگا ہوگا ۔اس فلم کے اندر ایک ایسی بیماری کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو بہت تیزی کے ساتھ لوگوں کے رابطے میں آنے سے یعنی ہاتھ ملانے یا چھوت سے پھیلتی ہے ۔جیسا کہ ا ہالی ووڈ فلموں میں اکثر ایسے ہی بھوت پریت کی ڈراؤنی اور تجسس آمیز کہانیاں فلمائی جاتی ہیں جس کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق تو نہیں ہوتا لیکن ماضی کی دیومالائی کہانیوں میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے ۔شاید اسی لئےلوگ فلم کے پردے پر بھی ایسا حقیقت میں ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ Contagion ایک ایسی ہی فلم کا نام ہے جس کے اندد دس اگیارہ سال پہلے ہی کہانی کار نے ہو بہو وہی مناظر پیش کئے ہیں جو آج ہمارے سامنے حقیقت کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے ۔اس کا مطلب کہ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اس فلم کے رائیٹر نے دس سال پہلے ہی یہ سوچ لیا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔اس بیماری کی ایجاد چین سے ہوگی فلم کے رائیٹر کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی یہی بات کرونا وائرس کے بارے میں شک پیدا کرتی ہے کہ کہیں یہ کوئی فارماسیوٹیکل کارپوریٹ مافیا کی سازش تو نہیں ہے یا فری میسن اور ایلومیناتی جیسی جن دجالی تحریکوں کے بارے میں ہم بہت دنوں سے سنتے آئے ہیں کہ دنیا کی کچھ بہت عظیم اور متنازعہ شخصیتیں جنھیں ہم بہت محترم سمجھتے ہیں یا تو یہ لوگ سیکولرزم اور جمہوریت کے نام پر جانے انجانے طور پر فریمیسن اور ایلومیناتی تحریکوں کیلئے استعمال ہوگئے یا پھر اپنے مفاد کا سودا کر لیا۔ان شخصیتون میں فلم انڈسٹری کے رائیثر ڈائیریکٹر ایکٹر سنگر کچھ سیاستداں میڈیکل سائینس کے ماہرین دانشور علماء اور تاجر سبھی شامل ہیں ۔
کرونا کی شکار ایک ہندوستانی سنگر کنیکا کپور کے تعلقات برطانیہ کے بادشاہ پرنس چارلس سے کیسے ہو جاتے ہیں اور یہ عورت جو کرونا کی شکار ہے برطانیہ سے آنے کے بعد تین سو لوگوں سے ملاقات کرتی ہے ۔کیا یہ تین سو لوگ اب Quarantine میں ہیں ؟
یا ان میں سے ابھی تک کتنے لوگ کرونا کی زد میں آ کر فوت ہوئے ابھی تک اس کی کوئی خبر نہیں ہے اور میڈیا بھی اس عورت سے کچھ تھوڑا سا گفتگو کے بعد خاموش ہے ۔جبکہ جس Contagion فلم کی ہم کہانی بیان کرنے جارہے ہیں یہ فلم بھی اس ایک عورت کے ارد گرد گھومتی ہے جو ہانگ کانگ اپنے کسی دوست سے ملنے گئی تھی مگر جب وہ امریکہ واپس لوٹتی ہے تو پوری دنیا میں اس کے ذریعے پھیلی کرونا وائرس کی بیماری ہونے ہوالی پراسرار موت سے کہرام مچ جاتا ہے ۔
اس فلم کی کہانی یہ ہے کہ ایک امریکی جوڑا اپنے نو سال کے بچے کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوتا ہے کہ اچانک عورت چکر کی وجہ سے زمین پر گر جاتی ہے ۔شوہر نے جب اس کی مدد کرنے کیلئے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا تو دیکھا کہ وہ بخار کی شدت سے تپ رہی ہے ۔عورت کو ہاسپٹل میں منتقل کیا جاتا ہے مگر ڈاکٹر بہت کوشش کے باوجود اسے بچا نہیں پاتے اور وہ فوت ہو جاتی ہے ۔ڈاکٹر باہر نکلتا ہے اور عورت کے شوہر سے معذرت کرتا ہے کہ وہ اسے بچا نہیں پایا ۔شوہر کہتا ہے کہ ڈاکٹر یہ کیسے ممکن ہے ابھی ابھی تو ہم نے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا تھا ۔وہ اپنے سفر سے بہت خوش تھی اور ہم دونوں سفر کے حالات پر بات ہی کر رہے تھے ۔اچانک یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ڈاکٹر نے کہا آپ کو صبر کرنا ہوگا اب آپ کی بیوی اس دنیا میں نہیں رہی اور ہم علاج نہیں کر پائے کیوں کہ اس پر کسی نامعلوم وائرس کا حملہ ہوا ہے اور ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہوگی ۔معاملہ پولیس کیس کا بن جاتا ہے ۔ابھی لاش پوسٹ مارٹم کیلئے گئی ہوئی تھی اور ساری تحقیقات ہو ہی رہی تھی کہ اسی عورت کا تقریباً 9 سے 10 سال کے بچے کی طبیعت بھی بگڑ جاتی ہے اور یہ بچہ بھی چھ دن کے اندر اسی وائرس اور اسی بیماری کے حملے سے فوت ہو جاتا ہے۔ اب ان دو اموات سے پورے امریکہ میں اس وائیرس کی دہشت پھیل جاتی ہے اور اسی دہشت اور خوف کی وجہ سے فورا اس کے باپ کو گرفتار کر کے Quarantine میں رکھ دیا جاتا ہے ۔اس واقعے کے بعد امریکی انٹیلیجنس CIA اور پریس کے لوگ بھی حرکت میں آجاتے ہیں اور وہ یہ تحقیق کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بیماری ہے کیا اور اس پورے خاندان میں کہاں سے منتقل ہوئی ۔تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ عورت ابھی ایک دن پہلے ہی چین کے شہر ہانگ کانگ کے سفر سے واپس ہوئی ہے ۔امریکی انٹلیجنسCIA نے عورت کے شوہر سے تحقیق کی تو پتہ چلا وہ ہانگ کانگ میں اپنے کسی دوست سے ملاقات کرنے گئی تھی وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھہرے موج مستی کی اور کس کس مقامات پر کس کس سے رابطے میں آئے یہ تحقیق کرتے کرتے دو ڈاکٹروں میں سے ایک خاتون ڈاکٹر بھی اسی وائیرس کے حملے کے چودہ دن کے اندر تحقیق کے دوران ہی فوت ہو جاتی ہے ۔روز بروز بڑھتی ہوئی اموات کے ساتھ اس خبر سے WHO یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی کیسے لاعلم رہ سکتا تھا ۔اس نے دنیا کے تمام ممالک کو ہدایت جاری کر دی کہ جس شہر سے بھی اس بیماری کی خبر ہو وہاں فوری طور پر لاک ڈاؤٹکر دیا جائے۔چین چونکہ پہلا ملک تھا جہاں سےاس بیماری کے سب سے پہلے پھیلنے کی خبر تھی اس نے اپنے کچھ شہروں کو تو لاک ڈاؤن کیا ہی دوسرے ممالک نے بھی چین سے آنے والے جہازوں اور مسافروں پر پابندی لگا دی ۔اس طرح دیکھتے دیکھتے اس بیماری کی دہشت نے دنیا کے سیکڑوں ممالک کو اپنی زد میں لے لیا اور WHO کی ہدایت کے مطابق اسکول کالج فیکٹریاں اور ٹرانسپورٹ سب بند کر دیئے گئے ۔ہر طرف جیسے کہ موت کا سناٹا چھا گیا ۔اخبارات اور نیوز چینلوں کے رپورٹروں کی طرف سے طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے کہ کیا حقیقت میں یہ کوئی بیماری ہے یا کسی دشمن ملک کی سازش اور کہیں یہ Biological War تو نہیں ہے جو اور کوئی ملک کوئی کیمیکل ایجنٹ تو نہیں تیار کر رہا ہے تاکہ اپنے دشمن ملک پر خاموشی کے ساتھ حملہ بھی کر دے اور کسی کو کانوں کان پتہ بھی نہ چلے ۔اس فلم کے اندر اسی دوران یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کہیں یہ WHO اور فارماسیوٹیکل مافیا کی ملی بھگت تو نہیں ہے تاکہ اس بیماری کے بہانے اس کی ویکسین سے منافع بخش تجارت کی جائے۔سرکاری ایجنسیوں اور نیوز چینلوں کی یہ تحقیق اپنی جگہ لوگوں کی طرف سے بھی ویکسین تیار کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا ۔یہ افواہیں بھی پھیلنا شروع ہو گئیں کہ کہ اگر وقت سے پہلے اس مرض کی ویکسین نہ تیار کی گئی تو تقریباً 8 ملین لوگ اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
فلم میں واضع طور پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا کے معاشی حالات بگڑ چکے ہیں لوگ اس وائرس سے مر رہے ہیں پوری دنیا میں جیسے کہ موت کے سناٹے کی صورتحال ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔تعلیمی ادارے یونیورسٹیاں فیکٹری اور ٹرانسپورٹ سب بند ہو جاتے ہیں ۔سڑکیں خالی ہو کر ویران قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔ جبکہ یہ بیماری جس کو کورونا وائرس کا نام دیا جاتا ہے دنیا میں تقریبا 90 دن سے 144 دن تک جاری رہتی ہے ۔دنیا میں کفن اور ماسک کی کمی اور لوگوں کو اجتماعی طور پر قبروں میں دفنائے جانے کا منظر بھی دکھایا گیا ہے۔ 144واں دن ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کے خلاف ایک ویکسین تیار کر لیتا ہے جو تقریباً 90دن کے اندد پوری یورپین دنیا کے اندد پہنچا دی جاتی ہے اسکے بعد وہ ایشیائی ممالک کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ ویکسین انسان کے ناک کے اندد ڈالی جاتی ہے جو پھیپھڑوں میں جا کر کورونا وائرس کے جراثیم کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر بیماری کس وجہ سے پھیلی اس کا کھوج اس وقت ڈاکٹرز اور سائنسدان لگا پاتے ہیں جب انھیں معلوم ہوتا ہے چین میں ایک چمگادڑ نے کیلا کھایا اور وہ آدھا کیلا چمگادڑ کے منہ سے نیچے گرتا ہے جسے pig کھا لیتا ہے وہ وائرس چمگادڑ سے اس Pig میں منتقل ہوتا ہے ۔فلم کے آخری تیس سیکنڈ میں ڈائریکٹر یہ پورا منظر بتا دیتا ہے کہ کس طرح ایک چمگادڑ کیلے کے درخت پر لگے پھل پر حملہ کر کے اسے جوٹھا کر دیتا ہے ۔وہ کیلا جیسے ہی زمین پر گرتا ہے نیچے جاتے ہوئے سوروں کے ہجوم میں سے ایک اسے کھا لیتا ہے اور پھر جس ذبیحہ خانے میں انہیں پکانے کیلئے ہمردہ کرکے پکانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے عورت وہاں اپنے دوست کے ساتھ جاتی ہے اور جو شخص یا باورچی یہ کام کر رہا ہوتا ہے عورت اس سے ہاتھ ملا کر اس کے ساتھ فوٹو کھینچواتی ہے اور فلم کا یہیں پر اختتام ہو جاتا ہے ۔ڈائیریکٹر یہاں پر یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ باورچی نے بغیر ہاتھ دھلے ہاتھ ملایا اور عورت نے بھی لاپرواہی برتی اس لئے اس کے ہاتھ میں یہ وائیرس منتقل ہو گیا ۔اس طرح اس بیماری کو چھوت یعنی Contagion کا نام دے دیا جاتا ہے ۔حالنکہ ڈائریکٹر یہ بھی بتا سکتا تھا کہ دونوں نے وہاں سے گوشت لیا اور پھر انہوں نے ساتھ میں شراب کے ساتھ اسے نوش فرمایا۔
ڈائیریکٹر کو مستقبل کا منصوبہ تیار کرنا تھا اگر وہ ایسا کرتا تو شراب اور سور کی منافع بخش تجارت کا خسارے میں پڑ جاتی اور اب جو چھوت کے نام پر لاکھوں کروڑوں کے سینےٹائزر Senitizer بک رہیں ہیں اور ہمیشہ بکتے رہیں گے اس کا کیا ؟
اس کے علاوہ کرونا کے نام پر پانچ ہزار کی جانچ کا پیکج جو تیار ہو رہا ہے جو کسی بھی سوئن فلو اور بخار وغیرہ کی صورت میں ڈاکٹر ریفر کرے گا اس کا فائدہ کسے ہوگا ؟
فارما سویٹیکل انڈسٹری کو ہے نا !
فارما سویٹیکل انڈسٹریز کے مالکان کون ہیں ؟
فلم کے مصنف کو دس سال پہلے ہی یہ بات کیسے پتہ چلتی ہے کہ اس وائرس کا نام کورونا وائرس ہو گا اور اس فلم میں عورت کے پوسٹ مارٹم کے ذریعے لیباریٹری ٹیسٹ میں باقاعدہ دکھایا گیا ہے کہ اس وائیرس کے اندر چمگادڑ سور اور انسان کے cell موجود ہیں اب یہ وائرس کم و بیش وائرس 8 ملین لوگوں کو متاثر کرے گا؟
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے تاکہ چند لوگوں کا اس بیماری سے قتل کر کے خوف اور دہشت پیدا کی جائے؟
خبر آ رہی ہے کہ چین کا ایک مشہور ڈاکٹر جو اس وائرس کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا وہ کرونا سے متاثر ہو کر نہیں مرا بلکہ اسے مارا گیا ہے اور چین نے جو دس دن میں ہاسپٹل تیار کیا ہے وہ کرونا واٹرس کے مریضوں کیلئے نہیں بلکہ یہ ایک طرح کا جیل ہے جس میں ان ڈاکٹروں اور نرسوں کو قید کیا گیا ہے جنہیں اس سازش کا علم ہو گیا اور انہوں نے بغاوت کرنا شروع کردیا ۔
اللہ بہتر جانے حقیقت کیا ہے لیکن وہ طاقتیں جو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے کسی دوسری طاقت کو شکست دینے سے قاصر ہیں اب وہ ایک ایسی Biological ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہیں جس پر قابو پانا بھی ممکن ہو ۔
کسی نے ایک امریکی مصنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب End of the days اینڈ آف ڈئیز میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 2020 میں دنیا کے اندد ایک مہلک وبا پھیلے گی جو اچانک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اچانک سے یہ وبا دنیا سے ختم بھی ہو جائے گی اور تقریباً ایک دہائی بعد یہ بیماری دنیا پر پھر حملہ اور ہوگی ۔سوال یہ ہے کہ دس پہلے اس بیماری پر ایک فلم بنتی ہے اور دس سال بعد بیماری حقیقت کی شکل اختیار کرتی ہے اور دس سال بعد پھر اس کے ابھرنے کی پیشن گوئی ایک امریکی مصنف کرتا ہے یہ سب کیا ہے ۔ یہ سب پہلے سے ایک امریکی فلم رائٹر اور کتاب کے مصنفین کو کیسے پتہ ہے ۔کیا یہ محض اتفاق ہے ؟نہیں یہ سب طاقتیں کہیں سے کنٹرول کی جارہی ہیں اور یہ دجال کے آمد کی تیاری ہے ۔ہو سکتا ہے وحیدالدین خان اور غامدی صاحب کو پڑھنے والے لبرل مسلمان اس نظریے سے اتفاق نہ کریں جیسا کہ نہ اتفاق کرنے والے مادہ پرست افراد کیلئے دجال کا فریب بھی اسلام ہی ہے ۔ لیکن جسے اپنے ایمان کا پتہ لگانا ہے وہ دیکھ لے کہ جس طرح متقی اور باہمت علماء دین کا پچھلی دہائیون میں خاتمہ ہو چکا ہے جو بچے ہیں ان پر خوف غالب ہے اور جو صورتحال ہے اس میں دجال کا چہرہ بالکل صاف ہے اور اس کے ماتھے پر کافر بھی صاف لکھا ہوا ہے ۔ہو سکتا ہے یہ ایک علامت ہو جسے ہم تحریری شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔واللہ علم بالصواب۔
Comments are closed.