لاک ڈاؤ ن :بس اللہ آگے خیرکرے!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
[email protected]
اس وقت پوری دنیاایک وبائی مرض کوروناوائرس(Covid-19) کاشکارہوکرسسک اوربلک رہی ہے، اس وائرس کی ابتداچین سے ہوئی ؛ لیکن دیکھتے دیکھتے تقریباًدوسوممالک کواپنی لپیٹ میںلے لیا، اٹلی، اسپین، امریکہ، ایران وغیرہ کاشماران ممالک میںہے، جہاںمرنے والوںکی تعداہزاروںمیںہے، اس وائرس کی حقیقت کیاہے؟ اس کے بارے میںمثبت ومنفی ہردوپہلوسے خوب خوب مضامین لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اورلکھے جاتے رہیںگے۔
اس وائرس سے بچنے کے لئے ہرملک نے اپنی سے کوشش کی،بیشترممالک میںکہیںجزوی طورپرتوکہیںکلی طورپرلاک ڈاؤن کیاگیا، ہمارے ملک ہندوستان میںبھی اس کااثردیکھنے کوملا، جس کی ابتدا۲۲؍مارچ کے جنتاکرفیوسے ہوا، یہ گویاایک طرح سے حکومتی ریہرسیل تھی لاک ڈاؤن کی، سمجھنے والے سمجھ گئے، لکھنے والوںنے اس پرلکھابھی؛ لیکن اکثروںکے حاشیۂ خیال میںنہیںتھا کہ یکبارگی پورے ملک کالاک ڈاؤن کردیاجائے گا۔
ظاہری طورپراگریکھیںتواس لاک ڈاؤن کاسیاسی طورپرسب سے بڑافائدہ ’’شاہین باغ‘‘کاخالی کراناہوا، جو حکومت کے کالے بل کے خلاف مسلسل ایک سوایک دن تک حکومت کے لئے نہ صرف یہ کہ تیشۂ نظربن کررہا؛ بل کہ ملک کے کمزوروںکی آواز بن کرابھرا، جہاںجھوٹے بڑے اورذات پات کی تفریق کے بنا سب شریک رہے اورلوگ آتے رہے اورکارواںبنتاگیا۔
اس لاک ڈاؤن سے یقیناملکی معیشت پرکافی گہری چوٹ پڑچکی ہے، جس کاخمیازہ باشندگان ہندکوبھگتنے کے لئے ذہنی طورپرتیاررہناچاہئے؛ لیکن یہ توبعدکی بات ہے، سردست وہ مزددورچکی کے دوپاٹ میںپسنے کی طرح پس گئے، جواپنے علاقوںکوچھوڑکردوسرے صوبوںمیںیومیہ مزدوری کرکے اپنا، اپنے بال بچوںکااوراپنے گھروالوں کاپیٹ پالتے تھے، ان کے ساتھ بڑامسئلہ اپنے علاقوںتک پہنچنے کابھی پیش آیا۔
ہندوستان ایک کثیرآبادی ملک ہے، جہاںایک صوبے کے لوگ دوسرے صوبوںمیںکام دھنداکرتے ہیں، بالخصوص بہار،یوپی، بنگال اورجھارکھنڈ کے لوگ بڑی تعدادمیںساؤتھ انڈیاکام اورمعاش کی تلاش میںجاتے ہیں، کچھ توپوری فیملی کے ساتھ جاتے ہیںاورسال میںایک یادوبارہی اپنے علاقوںمیںواپس آتے ہیں، اِدھرسے اُدھرجانے کی کئی بڑی وجہیںہیں، ایک وجہ تویہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے ان صوبوںمیںروزگارنہیںہے؛ حالاںکہ ان صوبوںکی حکومتوںکے پاس زمین وزرکی کمی نہیں، جس سے وہ بڑے بڑے فیکٹریاںاورکارے خانے کھول سکتے ہیں،وسری وجہ یہ ہے کہ ادھرمزدوری اُدھرکے مقابلہ میںنہایت ہی قلیل ہوتی ہے،تیسری وجہ یہ ہے کہ اِدھردادگیری بھی اچھی خاصی چلتی ہے، ان وجوہات کی بناپرلوگ اُدھرکاسفرکرتے ہیں۔
اِن صوبوںمیںتعلیمی پسماندگی بھی کچھ زیادہ ہے، نیزمعاشی پسماندگی توواضح ہے،جس کی وجہ سے بھی لوگ اُدھرکارخ کرتے ہیں؛ لیکن صوبائی حکومتوںکواس سلسلہ میں ذرابھی فکرنہیں، انھیںتوبس اپنے پیٹ اورووٹ سے مطلب ہوتاہے، جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے توکیکڑے کی طرح باہرنکل آتے ہیںاورجب جیت جاتے ہیں توایسے غائب ہوتے ہیں، جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔
ماضی میںکئی مرتبہ اِدھرسے جانے والے مزدوروںکے خلاف آوازیںبھی اٹھیں، فسادبھی بھڑکے، کتنے لوگوںکی جانیںبھی گئیں؛ لیکن ہمارے بے حس نیتاؤوںکے کان میںجوںتک نہیںرینگی، ان واقعات سے سبق لے کر انھیںچاہئے کہ اپنے صوبوںمیںہی انھیںروزگارفراہم کرنے کابندوبست کرتے؛ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔
حالیہ لاک ڈاؤن میںبھی انھیںصوبوںکے لوگ زیادہ پریشان ہوئے اورہیں، ریلوے اسٹیشنوںپر، بس اڈوںپراورنہ جانے کہاںکہاںیہ بے چارے لوگ دھکے کھاتے رہے ہیں، اپنے علاقوںمیںواپس آنے کے لئے کوئی نہ ٹرین ملی ، نہ بس، اورناہی کچھ، دانے دانے کے بھی وہ محتاج تھے، حلق پیاس کی شدت سے خشک، بلکتے بچے، کریںتوکیاکریںاورجائیںتوکہاںجائیں؟ نتیجہ یہ ہواکہ چاروناچاربہت سارے لوگ پیادہ پانکل پڑے، دوچارکیلومیٹرکی مسافت نہیں؛ بل کہ چھ سو، سات سواورہزارہزار کیلومیٹر کی مسافت پر، بغیرجنگ کے یہ لوگ رفیوجی کی مانندبن گئے، پھربھی ابھی تک ان کے صوبوںکی حکومتوںکوفکرنہیں، بیانات آرہے ہیں، حل ابھی تک خاطرخواہ نہیںہوا، ہیلپ لائن نمبرات ہیں؛ لیکن بہت ساروںسے جواب یہ ملتاہے کہ کھانے پینے کی فراہمی ہوجائے گی، ارے صاحب! رہائش بھی توفراہم کرو، کیابال بچوںکے ساتھ ریلوے اسٹیشن پررہیںاورکھائیںپئیں؟
لاک ڈاؤن اچانک ہی تھا، اورکچھ سالوںسے ہماری حکومت کے فیصلے اچانک ہی ہوتے ہیں، اتنے اچانک کہ لوگ سنبھلنے نہیںپاتے، اتنی بڑی آبای والے ملک کالاک ڈاؤن کیاجارہاہے، جہاںکی حکومت بھی ایک طرح سے کیرلیس ہے، جس کااندازہ پچھلے کئی سالوںمیںہوچکاہے، ایسے ملک میںاتنے دنوںکالاک ڈاؤن ، پھراس میںبھی بڑھوتری کاامکان ہے، جیساکہ امدادی راشن اورایمرجنسی گاڑیوںکے جاری کئے گئے پاسز سے اشارہ ملتاہے، اگرلاک ڈاؤن کرناتھاتوپہلے پبلک کوکچھ مہلت ملنی چاہئے تھی، ظاہرہے کے حکومت جتنے پیکیجز کااعلان کردے، ضروری نہیںکہ وہ مستحقین تک پہنچ ہی جائیں، جس کاہمیںخوب تجربہ ہے، یہاںکے لوگ توبے جان جانوروںکے چارہ تک کونہیںچھوڑتے، چہ جائیکہ جاندارکی غذا، پھریہ بھی ہے کہ کتھنی اورکرنی میںفرق ہوتاہے، اعلان کئے ہوئے کئے دن بیت گئے؛ لیکن کیاجہاںکے لوگ ڈیلی مزدورہیں، ان تک غذاکی فراہمی ہوگئی؟ بالکل بھی نہیںاورکب تک پہنچے یہ بھی نہیںمعلوم، عجب نہیںکہ پہنچے ہی نہیں۔
پھراس کے ساتھ ساتھ پولیس کی دہشت گردی بھی خوب نظرآئی، جب کھانے کونہیںہوگاتولوگ گھروںسے نکلیںگے ہی ناصاحب، اس پراس طرح بے رحمی کے ساتھ ڈنڈے برسائے گئے کہ کئی توبری طرح زخمی ہیںہی، ایک کی مرنے کی بھی خبرنیوزچینل پرآئی ہے، ایک توآپ نے بغیراطلاع کے لاک ڈاؤن کیا، اس پرآپ نے کبھی اس کے بارے میںذکرتک نہیںکیا، قوم کوکیاپتہ کہ لاک ڈاؤن کیاہے؟ پہلاکام تویہ تھاکہ وائرس کی خطرناکی کوبتایاجاتا، پھراس کی تدابیربتلائی جاتی ، پھرلاک ڈاؤن کی صورت سے آگاہ کیاجاتا، اورانھیںکچھ مہلت دی جاتی ، پھرلاک ڈاؤن کیاجاتا، توشایدلوگ اتنے بے بس نہ ہوتے ، ریلوے اسٹیشنوںپرنہیںپھنستے، پیدل سفرکرنے پرمجبورنہ ہوتے۔
اصل میںہوتایہ ہے کہ ہم اپنے ملک کوترقی کے اعتبارسے چین اوریوروپ کی طرح تصورکرلیتے ہیں، ڈیجیٹل انڈیاکہنے سے ڈیجیٹل بن نہیں جاتا،یہاں کی زمینی حقائق تویہ ہے کہ ’’کیش لیس‘‘کہنے سے ’’کیس لیس‘‘یعنی سرکے بال منڈاناتصورکرلیاجاتاہے، نیٹ بینکنگ کااستعمال کتنے لوگ کرتے ہیں؟ پے ٹے ایم کااستعمال کتنے لوگ جانتے ہیں؟ پھرہم اپنے ملک کوان ملکوںپرکیسے قیاس کرسکتے ہیںکہ جیسے وہ کریں، ہم بھی بے سوچے سمجھے کرڈالیں، یہ تو’’کواچلاہنس کی چال، اپنی چال بھول گیا‘‘کے مصداق ہے صاحب! کسی ملک سے یہ دیکھ کرلوٹے کہ گاڑیوںکی لائٹیںجلتی رہتی ہیں، یہاںبھی آڈرکردیا؛ حالاںکہ وہاںضرورت کی وجہ سے ایسی گاڑیاںبنائی جاتی ہیں، یہاںکے لحاظ سے اس کی چنداںضرورت نہیں۔
ملکی معیشت توپہلے سے ہی تباہی کے دہانے کھڑی تھی، اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کاجنازہ کندھوںپرآنے والاہے، جس کواٹھائے اٹھائے پھرناصرف اورصرف عوام کی ذمہ داری ہے، معیشت کے جنازہ سے بچنے کے لئے حکومت چاہے توابھی بھی وقت ہے، بشرطیکہ صدق دلی اورامانت داری عودکرآئے، دوسری بات یہ کہ صوبائی حکومتوںکوسوچنے کی ضرورت ہے کہ اتنی بڑی تعدادکے لئے اگراپنے یہاںہی روزگارمہیاہوجائے توکیا اسٹیٹ کی بھلائی نہیںہوگی؟ لوگ آپ کے اورکام دوسروںکے لئے کریں، سوچوعقلمندو!تیسری بات یہ کہ پولیس عوام کی خدمت کے لئے ہوتی ہے، ان کوموت کے گھاٹ اتارنے کے لئے نہیں، لوگ ان کی وری کوسلام کرتے ہیںاورواقعی اس کے وہ مستحق بھی ہیں؛ لیکن جب وردی میںدہشت گردی ہونے لگے توپھرسلام کے بجائے دشنام سے نہیںبچ سکتے ۔خلاصہ یہ کہ لاک ڈاؤن کا پرینام صرف عوام کوملا، وہ بھی ان مذکورہ شکل میں، بس اللہ آگے خیرکرے!!!
Comments are closed.