بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے

ذوالقرنین احمد
پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس کے خوف سے ڈری سہمی ہوئی ہے، مختلف رپورٹس کو پڑھنے پر ذہن منتشر ہوتا جارہا ہے۔ چائنہ کے انٹلیجنس سے جڑے ایک اعلی افسر نے مکمل رپورٹ کرونا کو لے کر تحریر کی ہے۔ اس کے پیچھے عالمی معیشت قابض ہونے کی جنگ قرار دیا ہے۔ اور چائنہ میں متاثر ہونے والے افراد پر ظلم و تشدد کے حد پار کرنے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ پوری دنیا میں اس وائرس سے ابھی ۲۰ ہزار سے زائد اموات ہوئی ہے، چائنہ میں پیدا ہونے والا وائرس جا کئی ملکوں کو اپنی جھپٹ میں لے چکا تو اب چائنہ کہے رہا کہ ہمارے ملک سے وائرس ختم ہوچکا ہے۔ ہم اس پر قابو پاچکے ہیں۔ اسی طرح چائنہ کے تعلق سے یہ باتیں بھی سامنے آئی ہے کہ چائنہ اپنے ملک کی خبریں باہر وائرل نہیں ہونے دیتا ہے اسکا اپنا گوگل ہے اور فسبک ہے وہ اپنے ملک کی پرائیویسی کیلے انگلش کا استعمال بھی نہیں کرتے ہیں۔ ہندوستان پر نظر ڈالے تو پتہ چلتا ہے کہ ۲۸ مارچ تک ۱۹ اموات ہوئیں ہے اور ۹۰۹ مثبت مریض پائے گئے ہے۔ ایک بات یہاں قابل غور ہے کہ ملکی میڈیا اور غیر ملکی میڈیا دونوں جگہوں پر یہ بات دیکھنے میں آرہی ہیں کہ مریض کے پازیٹو ہونے کے بعد اسے قرنطینہ میں داخل کردیا جارہا ہے۔۔ اور اسی تعداد کو کوریج دے کر عوام میں خوف کا ماحول بھی پیدا کیا جارہا ہے ۔

ہمارے ملک میں وزیر اعظم کے اعلان کے بعد ۲۲ مارچ کو ایک دن کا جنتا کرفیو نافذ کیا گیا جس کا عوام نے پوری طرح اہتمام کیا۔ لیکن اسکے دو دن بعد ہی وزیر اعظم نے یکدم سے رات ۸ بجے ۲۱ دن کیلے کرفوں نافذ کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں افرا تفری ماحول پیدا ہوا۔ کئی عوام نے راتوں رات اناج اور کھانے پینے کی اشیاء میڈیسن کا انتظام کیا اور جن افراد کے پاس پیسہ ہے انہوں نے مزید ضرورت سے زیادہ اسٹاک جمع کرلیا۔ یہ افواہ بھی اب گردش کر رہی ہے کہ یہ کرفیو مزید طویل مدت تک ہو سکتا ہے۔ ۲۵ مارچ سے کرفیو نافذ کردیا گیا اور اسکے نتائج اب سامنے آرہے ہیں ہندوستان کی ۷۵ فیصد سے زائد آبادی غریب ہے جو یومیہ اجرت پر کام کرکے اپنے گھر والو کی پرورش کرتے ہیں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں ایک دن کام بند ہوجائے تو انکے گھر رات کا کھانا نہیں بنتا ہے۔ کام نہ ملنے کی صورت میں ایسے افراد بھوکے رہتے ہیں مشکل سے وہ زیادہ سے زیادہ کسی سے مانگ کر ادھار پیسے لے کر ایک ہفتہ کا بندوبست کرسکتے ہیں لیکن اسکے بعد وہ پھر سے بھوکے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو ریلوے اسٹیشن، بس اسٹیشن، فوٹ پاتھ پر، بریج کے نیچے، نالوں کے کنارے ، ندیوں کے آس پاس، کھنڈرات میں، سڑکوں پر زندگی گزارتے ہیں۔ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ آدیواسیوں کا ہے جنکے گھر ایک جگہ نہیں ہوتے جو موسم کے حساب سے اور مزدوری کیلے جہاں کام مل جائے وہاں پر ہجرت کرتے رہتے ہیں انکے مضبوط گھر نہیں ہوتے ہیں۔ وہ پال باندھ کر مختلف علاقوں میں جنگلات میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ جن کے نام اور انکی تعداد حکومت کے مردم شمارے کے رجسٹر میں موجود نہیں ہوتی ہے۔ وہ لوگ مانگ کر یا کئی مزودری پر کام کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔

ملک کے حاکم پر تمام رعایا کا حق ہوتا ہے کہ وہ انہیں ضروریات زندگی کی اہم ترین چیزیں مہیا کریں جیسے روٹی کپڑا مکان۔ لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم تو اس بیماری سے بچنے کیلے پلیٹ بچانے گھنٹے بجانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ حقیقت میں پہلی دن کا یہ اعلان صحیح بھی تھا کہ ملک کی عوام اب غذا کیلے تڑپے گی بھوک کیلے سڑکوں پر آکر کھالی پلیٹیں بجائے گی حکومت سے کھانے کی اشیاء کا مطالبہ کریں گی‌۔ کیونکہ بغیر منصوبہ کے اور کسی ہنگامی صورت سے نمٹنے کے بجائے ۲۱ دن کے کرفیو کا اعلان کردیا گیا۔ اب نہ عوام کے پاس کام کرنے کیلے باہر نکلنا ممکن ہے نا ہی انکے پاس اتنا اناج ہے ناہی پیسہ ہے کہ خرید کر اپنے گھروں میں تین ہفتوں کا اناج بھر کر رکھ لے۔ کرونا وائرس کا خوف میڈیا کے زریعے اس قدر پھیلا جارہا ہے کہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے اس بیماری اور کرفیو کے خوف سے نفسیاتی مریضوں میں اضافہ دیکھنے مل رھا ہے۔ اتنا ہی نہیں دہلی گجرات راجستھان سے ہزاروں لوگ اپنے بچوں خواتین کے ساتھ پیدل اپنے گھر کیلے سفر کرنے پر مجبور ہے۔ علاج کی غرض سے بڑے بڑے شہروں کے ہسپتال میں بھرتی ہوئے مریض اپنے گاؤں شہر جانے کیلے تڑپ رہے ہیں۔ انکے جانے کا کوئی انتظام نہیں ہے جو باہر سے کھانا کھاتے ہیں اور ضرورت کی ہر چیز خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ کام کرنے کیلے اپنے گاؤں سے دوردراز شہروں اور ریاستوں میں رہنے والے افراد وہی پر پھنس چکے ہیں اپنے بیوی بچوں سے خاندان والوں سے دور مجبور ہوکر رہ گے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے مزدور پیدل ہی اپنے وطن لوٹنے پر مجبور ہے۔ کئی آشرامو اور مندروں میں عارضی قیام کر رہے ہیں۔ جھارکھنڈ کے دومکا کی خبر ہے کہ ایک لڑکی نے اپنے دوست کو مدد کیلے بلایا لیکن اسی لڑکے نے دوستوں کے ساتھ مل کر اسکی عصمت دری کی۔ یومیہ مزدوری کرنے والوں کے ساتھ ساتھ میڈل کلاس افراد بھی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ پرتاپ گڑھ کے دو مزدور ۲۰۰ کلو میٹر پیدل اور ۵۰۰ کلو میٹر سائیکل پر سوار ہو کر فاصلہ طئے کیا، ممبئی کماٹی پورے کی خبر ہے کہ جسم فروش طوائفوں نے کرفیو لگنے کی وجہ سے ہنگامہ کیا ہے کہ ہمارے بچے بھوک سے مرجائے گے۔ کچھ این جو او کے لوگ ہمیں کھانا پہچا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے غیر منصوبہ بند کرفیو نافذ کرنے پر عوام کو ہورہی مشکلات پر صرف ریڈیو پر معافی مانگی لیکن اسکے تدارک کیلے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے اور ناہی سنجیدہ دیکھائی دے رہے ہیں صرف عوام کو باہر نہ نکلنے کی اپیل کی جارہی ہیں لیکن یہ سوچنے کیلے تیار نہیں کہ عوام کو زندہ رہنے کیلئے ضروری اشیاء غذا دوا کی ضرورت ہے۔ حکومتیں عوام سے چلا کرتی ہے عوام ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں انہیں مزدور طبقے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایک مختصر پیکیج کا اعلان کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ حکومت کیسی کی جاتی ہے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیکھنی چاہیے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی……..راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے…..کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہوگی۔ لیکن آج کے حکمران دیکھیے ملک کے وزیر داخلہ جو پارلمینٹ میں این آر سی لانے پر چیخ چیخ کر بھاشن کرتے نہیں تھکتے وہ ۱۵ روز سے غائب ہیں۔ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ حکومت کو یہ کرفیو جلد از جلد ختم کردینا چاہیے جتنی اموات وائرس سے نہیں ہوگی اس سے کئی زیادہ افراد بھوک سے مر جائیں گے۔ اور اتنا ہی نہیں ملک کی معیشت جو پہلے ہی نچلی سطح پر مرض الوفات میں ہے موت کی دہلیز کو چھو لے گی۔ اور پھر ملک کے تمام سسٹم کمزور ہوجائے گا۔ عوام بغاوت پر اتر آئے گی‌۔ غیر ملکی دشمنوں کی طرف سے سرحدیں تنگ کردی جائے گی۔ ملک کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے ہوجائے گا کسی ملک سے بھیک مانگ کر قرض کے بوجھ تلے دبنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ کیونکہ جی ڈی پی گر جانے سے حکومت دفاعی اقدامات کے لائق بھی نہیں ہوگی۔

Comments are closed.