کروناوائرس‘مجرم کون۔؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226

1947میں وطن عزیز کی تقسیم کا منظر ہم نے صرف ڈاکو منٹری فلموں یا قدیم تصاویر میں دیکھا ہے۔
28 اور 29 مارچ 2020 کو دہلی کی سڑکوں‘یوپی اور بہار جانے والے راستوں پر ویسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ عالمی وبا کورونا وائرس کے خطرات‘ پردھان منتری کی نصیحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاکھوں مزدور اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے آج کے حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بے خطر نکل پڑے۔ نہ تو سواری نہ ہی کھانے پینے کا سامان۔ ارباب اقتدار چیختے رہے چلاتے رہے‘ گھروں میں بند رہو‘ ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ رکھو‘ مگر ان کی سننے والا کون تھا۔ شاید وہ ان کی بات کو سن بھی لیتے اگر ان کے لئے رہنے کو مکان ہوتا یا جن کرایہ کے مکانوں میں وہ رہتے ہیں ان کے مالکین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے رقم ہوتی‘ پیٹ کے جہنم کو سرد کرنے کے لئے ان کے گھروں میں اناج ہوتا یا کم از کم اچانک اکیس دن کے لاک ڈاون کا اعلان کرنے والے مہاشے کو ان غریب مزدورں کے حالات کا اندازہ یا ان کے دکھ درد کا احساس ہوتا اور وہ جس طرح تالیاں‘ تھالیاں اور گھنٹیاں بجانے کیلئے جس طرح مہلت دی گئی اسی طرح کچھ وقت دیتے جس طرح انہوں نے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا اسی طرح لاک ڈاؤن کا بھی اعلان کردیا۔ جس طرح تین برس پہلے پورا ہندوستان سڑکوں پر آگیا تھا جس طرح ہر طرف قطار ہی قطار تھی اس بار بھی دہلی، یوپی، بہار اور دوسری ریاستوں کی سڑکوں پر غریب اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہی مزدور نظر آئے۔ انتظامیہ پریشان‘ پردھان منتری حیران اور اپوزیشن کے چہروں پر مسکان۔ دو دن بعد ہوش آیا تو مرکز نے کجریوال حکومت پر الزام تراشی کی کہ ان کے لوگوں نے افواہ پھیلائی کہ یوپی اور بہار حکومتوں کی جانب سے اپنے اپنے مزدوروں کے لئے بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کے دو سکریٹریز پر غصہ نکالا گیا‘ انہیں معطل کیا گیا۔ بس سرویس معطل کی گئی‘ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے بس ڈرائیورس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ پردھان سیوک کو ”من کی بات“ میں عوام سے معافی مانگنی پڑی مگر جن سے معافی مانگنی تھی وہ تو سڑکوں پر تھکے ہارے نڈھال بھوک سے بے حال تھے‘ پولیس حسب روایت ان بے سہارا لوگوں پر ڈنڈے برساتی رہی‘ کسی کو جیل میں ڈالا گیا‘ کسی پر کیمیکل کا اسپرے ہوا‘ یوگی جس نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے سلسلہ میں پوجاپاٹ کی تھی اپنی ریاست واپس ہونے والے مزدوروں کو 14دن تک کوارنٹائین میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کوئی بات نہیں‘ اتنے دن تک تو ان مزدوروں کے کھانے پینے کا مسئلہ حل ہوگیا۔ مگر یوگی اور مودی کا جو سحر تھا وہ ان غریب مزدوروں کے اعصاب سے اتر گیا۔ کئی سوال ہونے لگے‘ اپنے ملک کے عوام کو دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے تو دوسرے دیشوں سے لاکر شہریت دینے کے بعد ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ بہر حال! یہ بڑا عجیب منظر جس نے عالمی برادری میں ہندوستانی حکومت کی پالیسی اور حکمت عملی پر تنقید اور تضحیک کا موقع فراہم کیا۔ خود راہول گاندھی نے وزیر اعظم کے نام اپنے تین صفحات پر مشتمل مکتوب میں تنقید کی اور کہا کہ مرحلہ واری اساس پر لاک ڈاؤن کا عمل ہوتا تو افراتفری کا عالم نہ ہوتا۔ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام نے بھی لاک ڈاؤن کو ناکام قرار دیا۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر اور دہلی کے شاہین باغ کے احتجاج کو کرونا وائرس کے خطرات کے بہانہ کی آڑ میں ختم کروایا گیا اور ان ہی مقامات پر اب اتنی بھیڑ ایک سوالیہ نشان نہیں بلکہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی حالات سے نمٹنے میں ناکامی اور نااہلی کا ثبوت ہے۔ مرکز نے سخت ہدایات جاری کی ہیں مگر حالات اب بھی قابو میں نہیں ہیں۔ کئی مقامات پر پولیس اور اپنے وطن واپس ہونے والے مزدوروں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں جتنے افراد متاثر ہوئے ہیں ان کے علاج کے لئے ہمارے ہاسپٹلس میں سہولتیں نہیں ہیں۔ لانسیٹ کے سروے کے مطابق ہندوستان میں پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے پچاس ہزار کے لگ بھگ ہاسپٹلس ہیں۔ ان میں 25778 گورنمنٹ ہاسپٹلس ہیں جن میں سے شہری علاقوں میں 4375 اور دیہی علاقوں میں 21403 ہاسپٹلس ہیں۔ ان کے علاوہ ریلویز ڈیفنس‘ آیوش‘ ESI اور سنٹرل پولیس فورس کے ہاسپٹلس ہیں جن میں مجموعی طور پر آٹھ لاکھ مریضوں کی دیکھ بھال ممکن ہے بشرطیکہ یہاں کروناوائرس سے نمٹنے کے لئے انفراسٹرکچر ہو جو فی الحال نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر ہاسپٹلس میں لگ بھگ پانچ لاکھ مریضوں کی دیکھ بھال کا انتظام ہے۔ گورنمنٹ ہاسپٹلس کو جان بوجھ کر گھٹیا معیار کا کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اکثریت پرائیویٹ ہاسپٹلس کو ترجیح دیتی ہے۔ معیار کے لحاظ سے ہیلتھ کیئر شعبہ میں 195 ممالک میں ہندوستان 145ویں مقام پر ہیں۔ ان حالات میں ہم عالمی وباؤں پر قابو کیسے پاسکتے ہیں اس پر سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ہمیں نہیں ارباب اقتدار کو ضرورت ہے جنہوں نے اس بحران کے دور میں عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے ان کی توجہ ہٹانے کے لئے دھارمک ٹی وی سیریلس میں مصروف کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
دہلی کے حالات چاہے کسی وجہ سے کیوں ہوئے ہوں‘ ایک مہینہ پہلے اسے اجاڑا گیا‘ چن چن کر ہمارے کاروبار اور مکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بعض محلوں سے مسلمانوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ ایک مہینہ بعد دہلی ہی خالی ہونے لگی۔ اب اسے کیا نام دیا جائے۔
کرونا وائرس نے ساری دنیا کو ایک قید خانہ میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ کسی اروند شرما کے حوالہ سے فیس بک پر ان دنوں ایک کشمیری خاتون نفیسہ خاتون کی اسٹوری کے کافی چرچے ہیں‘ جس نے یوروپی ممالک کے ارکان پارلیمان کے دورہ کشمیر کے موقع پر اروند شرما سے کشمیری عوام کی حالت زار‘ لاک ڈاؤن‘ فون‘ انٹرنیٹ کی سہولتوں سے محرومی‘ عالمی برادری کی خاموشی اور بے حسی کا گلہ کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی کہ وہ چاہتی ہیں کہ اللہ تعالی ساری دنیا کو کشمیریوں کے درد و کرب کا احساس دلادے۔ اروند شرما نے موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا نفیسہ کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ کیوں کہ آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے۔ جو بھی ہو مظلوم کی آہیں کبھی بے اثر نہیں ہوتیں۔ کرونا وائرس کا مجرم کون ہے؟ امریکہ نے چین پر الزام عائد کیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر عبداللہ ہارون کے ایک ویڈیوکلپ سوشیل میڈیا پر وایرل ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں کہ کرونا وائرس اگرچہ چین کے ووہان شہر کی لیباریٹری میں تیار کیا گیا‘ تاہم امریکہ برطانیہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے 2006سے اس کی شروعات کیں۔وہ ایک ایسا وائرس تیار کرناچاہتے تھے جس سے ہلاکتیں کم اور دنیا میں خوف زیادہ پیدا ہو۔انہوں نے 2014میں اسے پیٹنٹ کیا جس کا نمبر ہےUS206257952۔ 2019میں دوبارہ یوروپ میں ویکسین تیار کیا گیا اور پیٹنٹ کیا جس کا نمبرEP3172319E1۔
عراق میں ایک بار پھر یوروپ نے اسے Patent کیا۔ اسرائیل ویکسین تیار کی اور اسے پیٹنٹ کیا۔ اسرائیل یہ ویکسین ان ہی ممالک کو دے گا جو اسے مملکت کی حیثیت سے تسلیم کریں گے۔ اس طرح یہ ایک ایسی عالمی سازش ہے جس میں امریکہ‘ یوروپ اور اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ امریکہ نے وائرس چینی لیباریٹری میں تیار کروایا۔ یوروپ نے ویکسین بنائی‘ اسرائیل نے حقوق حاصل کئے۔ اور اسے مالیہ فراہم کیا دنیا بھر میں انسانیت نوازی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ملنڈاگیٹ فاؤنڈیشن نے۔ اور امریکہ کے جان پاپ کنس ہاسپٹل کے مالک بلوبرگ کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کیئر میں اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس وائرس کے ذریعہ خوف بھی پیدا کیا گیا اور سب سے زیادہ مذہبی عقائد مسلمانوں کے عقائد پر حملہ کیا گیا۔ اس کا ثبوت حرمین شریفین کے علاوہ دنیا بھر کی مساجد کو بند کرنے‘ مذہبی اجتماعات پر پابندیوں کے واقعات ہیں۔مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے ہے کہ بعض اوقات وہ ملکی قوانین کی پابندی نہیں کرتے اور اپنے لئے حالات کو ناسازگار بنانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ کرونا وائرس جب سے پھیلنے لگا تب سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے ہدایات جاری کئی گئیں، لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا‘ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں اس کی خاطر خواہ پابندی نہیں کی جارہی ہے۔ پولیس سے آنکھ مچولی کھیلی جارہی ہے‘ مساجد میں باجماعت نماز سے منع کیا گیا ہے‘ صرف پولیس نے نہیں بلکہ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے فتاوے جاری کئے اور اپیلیں کیں۔ مگر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ ہماری بیوقوفی ہٹ دھڑمی، ضد، اور قوانین پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں اس وقت مسلمانوں کو کورونا وائرس کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کے بائیکاٹ کا جو کام نہیں ہوسکے گا وہ خود ہماری اپنی حماقتوں کی وجہ سے ہماری تباہی کا سبب بنیں گے۔ کئی مسلم محلوں میں نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہیں‘ کہیں گروپ کی شکل میں یہ نظر آتے ہیں‘ پولیس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‘پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ انہیں کان پکڑکر اٹھ بیٹھ کروایا جاتا ہے۔ مینڈھکوں کی طرح پھدکنے کے لئے کہا جاتا ہے اور پھر پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہوئے ان کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اِن نوجوانوں کے والدین کیا اپنی اولاد سے بیزار ہوچکے ہیں۔ خدارا اپنا نہیں تو قوم کی عزت کا خیال کریں۔ آنے والے حالات کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔
”تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں“

Comments are closed.