سنہرہ  موقع ہاتھ سےنہ جانے پائے

 

   ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی

(عمید كلیۃ البحث والتحقیق  جامعۃ العلوم ،گڑہا   – گجرات)     

صورت حال یہ ہے كہ اب تك لوگوں كو كرونا وائرس سے مرنے كاخطرہ تھا ؛ لیكن لاك ڈاؤن كے بعد اب بھوك مری سے مرنے كا خطرہ زیادہ ہے ؛ كیونكہ لاك ڈاؤن كا ااعلان  اچانك آٹھ بجے رات میں ہوا كہ آج رات كے بارہ بجے كے بعدسے ۱۴/ اپریل۲۰۲۰ء بارہ بجے رات  تك اكیس دنوں تك رہے گا، اس سے ہر كوئی اپنی جگہ پریشان ہوگیا ، خاص طور پر   لیبر  اور مزدور طبقہ ، جن كا گذر اوقات روز انہ كی كمائی پر ہوتا تھا ، اسی طرح وہ لوگ جو كسب معاش كے لئے دہلی، كلكتہ، مالیگاؤں،  حیدرآباد، سورت ،كیرالا،اور ہندوستان  كے ایك اسٹیٹ سےدوسرے اسٹیٹ گئے ہوئے تھے، اچانك زندگی كا چكّا جام ہونے كی وجہ سے چھوٹے بڑے كارخانے اور كاروبار  بند ہوگئے ،    كمپنیاں  اور فیكٹریاں مقفل ہوگئیں، بہت سے كاركاخانے كے مالك اپنے یہاں مزدورں كو ٹھہرنے نہیں دےرہے ہیں ،جس كی وجہ سے لوگ سڑكوں  پر آگئے ، گھر  واپس جانے كے لئے كوئی سواری نہیں ،  بہت سے لوگ پا پیادہ ہی سفر شروع كردیا ؛ لیكن   منزل سے پہلے ہی راستہ میں روك لئے گئے ،  جن كاراستہ نہیں روكا گیا وہ بدحال سفر جاری ركھے ہوئے ہیں ،بہت سے مزدور  آسمان تلے كھلے میدانوں  میں  یا  ریلوے  اور بس اسٹیشنوں پر  پھنسے ہوئے ہیں ، ان كے پاس كھانے پینے  كی اشیاء ختم ہوچكی ہیں ، وہ  حكومت یا دوسرے اہل خیر حضرات كے تعاون كے بڑی بے تابی كے ساتھ سراپا  منتظر ہیں،ایك جگہ سب كا اكھٹا رہنے كی وجہ سے جہاں  لاك ڈاؤن   كامقصد فوت ہورہا ہے ؛ كیونكہ اس سے سماجی دوری كے بجائے قربت اور اجتماع ہوگیا ، جس كی وجہ سے كرونا وائرس  وباء پھیلنے كا اندیشہ كچھ زیادہ  ہی ہوگیا ، اور یہ بھیڑ جتنی  بڑھے گی اور منتشر ہوگی اتنا ہی زیادہ  كروناو ائرس  كے یہ لوگ شكار ہونگے اور دوسروں كو بھی لے  كر ڈوبیں  گے ، غرضیكہ اس وقت لاك ڈاؤن كی وجہ سے  كرونا وائرس سے زیادہ  بھوك مری  كی وجہ سے لقمۂ اجل  كا نشانہ بننے كا اندیشہ زیادہ  بڑھ گیا ہے؛بلكہ بھوك كی شدت كی تاب نہ لاكر مرنے والوں كا سلسلہ شروع ہوچكا ہے ، اگر عجلت میں حكومت كی طرف سے كوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا تو بھوك كی بےتابی سے  مرنے والوں كی تعداد بڑی تیزی سے بڑھنی شروع ہوجائےگی  ۔

دنیا میں بسنے والی تمام قوموں میں سب سے زیادہ   ہمدرد قوم مسلمان ہیں ، اور ایسا كیوں نہ ہو ، خود ان كی سب سےزیادہ مقدس كتاب قرآن مجید  نے  گواہی دی ہے كہ مسلمان كو اس دھرتی پر پیدا  ہی اس مقصد كے لئے  كیا گیا ہےكہ  وہ دوسروں كے حق میں خیر خواہ  ہوں  ، ہر اعتبار سے  بہ خواہ ہوں ، دنیا سے لے كر آخرت تك  دوسروں كے لئے غمخوار، غمگسار اور ہمدرد ہوں ، انہوں نے اپنے رسول  حضرت محمد ﷺ سے  وراثت میں اس كو پا یا ہے ، بس یہ بڑا ہی سنہرہ موقع ہے  كہ مسلمان  اس سوغات كو لے كر آگے آئیں  اور اپنا فریضہ انجام دیں اور حقیقی مسلمان ہونے كا ثبوت  دیں  ،  پریشان حالوں كے دكھ درد میں  برابر كے شریك ہوں ،  خواہ وہ اپنے گھر وں میں  لاك ڈاؤن كی وجہ سے  پھنسے ہوں ،  اور بنیادی ضروریات زندگی   سے محروم ہوں ،یا وہ سڑكوں ، پلیٹ فارموں یا  راستے میں كہیں بھی پھنسے  ہوں  ، رور رہے ہوں  اورمدد مدد كی صدا ان كی زبان پر جاری ہو  اور كسی غیبی فرشتہ كی آمد  كی  بڑی بے چینی سے منتظر ہوں۔ 

یہ تعارف اسلام اور اسلامی خوبیوں  كو برادران وطن كے ذہن ودماغ اتارنے كا بہترین موقع ہے ؛ ایسا موقع بار بار نہیں آتا ہے ؛اس لئے كہ انسان  كی فطرت  ہے كہ وہ احسان كا غلام واسیر ہوتا ہے ، اور وقت پر  كسی كے ساتھ حسن سلوك كیا جائے تو وہ دیر پا اور ساحرانہ   طورپرزود اثر ہوتا ہے ، اس وقت  اس سے جو كہا جائے وہ اس  كو بڑی توجہ سے سنتا ہے ، بسا اوقات وہ بات ان كے دل  میں اتر جاتی  اور پھرگھِر كرجاتی ہے ۔ موجود صورت حال میں  ہم كئی انداز سے كام كرسكتے ہیں  اور اپنے اسلامی اخلاق وكردار سے  ان كو متاثر كرسكتے ہیں ، اور ان كے اندر نفرت كی بھڑكتی ہوئی آگ  كو محبت كی شبنم سے بجھاسكتے ہیں ،اپنی اسلامی ادا اور ہمدردانہ لب ولہجہ اور كردار سے  ان كے دلوں كے اندر موجود اسلام اورمسلمانوں  كی بابت بیٹھی كدورت  كو صاف كرسكتے ہیں، ان كے دلوں پرثبت  اسلام اورمسلمانوں كے تعلق سے خوفناك تصویر كو كھرچ سكتے ہیں اور اس جگہ پرانسانیت كی  خوبصورت تصویر ونقوش  ثبت كرسكتے ہیں۔  اس عظیم مقصد كےلئے ٹھوس منصوبہ  بنائیں  اور قدم آگے بڑھائیں،ہم اپنے قریب پڑوس سے ابتداكریں ،   پہلے معلوم كریں كہ ان كو فوری بنیادی ضروریات زندگی میں سے كن كن چیزوں كی فوری ضرورت ہے،  ان چیزوں كاایك پیكیج بنا كر ان تك پہنچیں یا ان تك پہونچوانے كی كوشش كریں ، ان تك پہنچ كر ان  كی خبر گیری كریں ،ان كی  خیر خیریت  معلوم كریں ، اس كے بعد بڑی محبت  وپیار اورانسانیت سے بھر پورہمدردانہ انداز میں ان كو پیكیج تحفہ كہہ كر پیش كریں ، اور ان سے یوں كہیں :آپ كے ایك ہندوستانی بھائی كا یہ تحفہ  ہے ، اس كو قبول كیجئے، ان كے ساتھ انسانیت اور بھائی چارگی كی  بات كریں ، ان كو عزت دیں ، ان كو اپنا بھائی كہہ كر پكاریں،آپ سے جو ہوسكتا ہے ضرور كریں ،  اگر اللہ نے آپ کو زیادہ مال دیا ہے تو پڑوس سے آگے بڑھیں اور محلہ كے غریب ومسكین اور پریشان حال تك پہنچیں اور ان كا تعاون كریں، اگر اكیلا آپ سے نہیں ہوسكتا ہے تو چند بھائیو ں كے ساتھ مل كر اس كام كو انجام دیں، مزید محلہ اور گاؤں سے نكل كر سڑكوں اور اسٹیشنوں تك آنے كی كوشش كریں ، اس مقصد   كے لئےمسلم تنظیم قدم آگے بڑھائیں اور بڑھ چڑھ كر اس میں حصہ لیں۔

یہ بڑا قیمتی  اور سنہرہ موقع ہے،جس میں  ان سے خوشگوار  تعلقات پیدا كیا جاسكتا ہے  ، اپنے  آپ  كو اس كا م كے لئے  تیار كریں ، اس كے لئے بنیاد  یہ بنائیں كہ ہم سب ایك ملك كے شہری ہیں ،ہم سب ایك حضرت آدم علیہ السلام كی اولاد ہیں ؛ چنانچہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے :{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً}[نساء:۱]“ اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم كو ایك ہی جان سے پیدا كیا اوراسی سے اس كا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پھیلائے”۔اللہ كے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: “تمام بندے آپس میں بھائی ہیں (ابوداءد، وتر، حدیث:۱۵۰۸۹)۔ انسانیت نوازی اسلام  مذہب اسلام كی تعلیم ہے ۔ جب اسی بہانہ ان سے ملنا جلنا ہوگا  ، ان كے ساتھ آپ كا حسن سلوك ہوگا ، آپ كے كردار وگفتار سے ان  كاغم ہلكا ہوگا ،ان كی پریشانی كافور ہوگی، تو یقین جانئیے ،ان كے دلوں میں سالہا سال سے بیٹھی نفرت دور ہوگی ، اسلام اورمسلمانوں كے تعلق سے غلط فہمیوں كا ازالہ ہوگا اور اسلام كی عظمت ان كے دلوں میں قائم ہوگی۔

خدمت خلق سے مخلوق كا دل جیتا جاتا ہے  اور اس كے دل پر حكمرانی قائم ہوتی ہے ،جب انسا ن كا دل مفتوح ہوجاتا ہے  تو اس سے ہر طرح كا كام لیا جاسكتا ہے ؛ اس  لئے اس موقع كو ہاتھ سے جانے مت دیجئے، اور جب آپ كو محسوس ہوكہ وہ  آپ كے ہمدردانہ تعاون سے مسحور ہوچكا ہے ، وہ  زبان حال سے  آپ كا سراپا  شكر گذار ہے تو اس وقت اس سے بات كیجئے اورسمجھانے كی كوشش كیجئے كہ ہم لوگوں نے جو كچھ آپ كے ساتھ حسن برتاؤ كیا  یا تعاون كیا ، یہی ہمارا مذہب اسلام سكھاتا ہے ، اور ہمارا مذہب انسانیت نوازی كی تعلیم دیتا ہے ، ایك دوسرے كے ساتھ مل جل كر رہنے كی تعلیم دیتا ہے ، دوسرے بھائیوں كے دكھ درد میں  شریك ہونے كی ہدایت كرتا ہے  اور ان كے ساتھ بھائی چارگی كا برتاؤ كرنے كے لئے كہتا ہے ، اس كے بعد ان كے ساتھ مرنے كے بعد آخرت اور جنت وجہنم كی بات شروع كردیں ،  اور باتوں بات میں اللہ كا تعارف اور  اس كے رسول حضرت محمد ﷺ كی سیرت كے انسانیت نوازی اور خدمت خلق كے  كچھ روشن گوشے ان كے سامنے پیش كریں ۔آپ كا  ایسا كرنا  ایك بڑا كارنامہ ہوگااور انشاءاللہ  آپ كا یہ عمل ضائع نہیں جائےگا ، دیر سویر اپنا  رنگ ضرور دكھائےگا ۔

Comments are closed.