ہم اور ہماری ذمہ داریاں یا ہٹ دھرمیاں

فیروزہاشمی
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ’’مسجد میں نکاح پڑھوائیں، فضول خرچی سے بچیں اور غریبوں کی مدد کریں،‘‘وغیرہ جیسے جملے آج کل فیس بک، واٹس ایپ پر خوب گردش کر رہے ہیں۔ مشورے اچھے ہیں لیکن ہم اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ لیکن میرا کہنا ہے یہ وقت ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا محاسبہ کرنے کے لئے فراہم کرایا گیا ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنی ہٹ دھرمی اور رواجی طور طریقوں کو نہیں چھوڑیں گے تو پھر اللہ کی آزمائش میں پڑیں گے اور ایسے وقت میں ہمیں کیا کیا دشواریاں پیدا ہوں گی، اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا شاید بلا وجہ خوف پیدا کرنے کے مترادف کہلائے گا۔ پھر بھی ہم چند بنیادی امور کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید مزید کچھ لوگ سنت طریقہ پر عمل کرنے کو راضی ہو جائیں۔ ایمان کے بعد ایک بنیادی رکن صلوٰۃ ہے اور اس کے کچھ طریقہ کار بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید سورۃ النساء آیت نمبر ۱۰۳ میں فرماتا ہے:فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللہَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ۔
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو۔ یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔
اس آیت میں تین مختلف حالات کے طور طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ سے مراد خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کر دی گئی ہے، اس لیے اس کی تلافی کے لیے کہا جا رہا ہے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ دوسرے حصہ سےمراد ہے جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہو جائے تو پھر نماز کو اس کے اُس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ اور تیسرے اور آخری حصہ میں نماز کو مقررہ وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔
اس آیت کا آخری حصہ ’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ‘‘ جو عموماً مساجد میں اوقات صلاۃ بورڈ کے اوپر لکھا ہوتاہے۔ یہ بتلانا مقصد ہوتا ہے کہ صلوٰۃ کے لئے وقت متعین ہے، اُسی وقت پر صلوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہے۔ توحید کے بعداسلام کا سب سے اہم رکن صلوٰۃ ہی ہے۔ جس کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ وقت ہماری زندگی کا سب اہم حصہ ہے۔ اگر ہم نے اس کا استعمال اپنی مرضی سے کیا تو ہمارے کام بگڑ سکتے ہیں، بلکہ بگڑ جائیں گے۔ جیسا کہ موجودہ حالات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس آیت کے ذریعہ وقت کی اہمیت کو بھی بتلایا گیا ہے جسے سمجھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی زندگی کا لائحہ عمل اس آیت کی روشنی میں مرتب کرنا چاہیے۔ ورنہ بعد میں صرف عذر پیش کرنا ہی ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گا۔
غور فرمائیں سماجی ، معاشرتی، جہیز اور عورتوں کے بارے میں لکھے مضامین کے بارے میں۔ جن میں اکثر یہ لکھا یا کہا جاتا رہا ہے کہ ’’وہ زمانہ اور تھا‘‘۔ ’’اب یہ وقت آگیا ہے کہ مسجد میں نکاح منعقد کیا جائے‘‘۔’’ہائے، ایسے کیسے شادی ہوگی، لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اس قسم کے اور بھی جملے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس کے آگے پیچھے کے جملوں کو عمومیت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ خصوصیت سے تو لوگ سمجھ رہے ہیں لیکن زندگی میں سنت کو اپنانے میں ؟؟؟ محسوس کرتے ہیں۔ اس سوالیہ نشان کی جگہ کون سا لفظ استعمال کروں مجھے خود خوف آرہا کہ کہیں میں رسول کی نافرمانی کا مرتکب نہ بن جاؤں۔
’’وہ زمانہ اور تھا‘‘
جی ! آپ کس زمانہ کی بات کر رہے ہیں؟
انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ اُس کا الزام زمانے کو دینے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا۔حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میںہی نہیںآیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بس چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو۔ ہمیں تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟
زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیںہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں ، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔
زمانہ تو اللہ تعالیٰ سے ہے یہ سورج ، چاند و ستارے ، زمین و آسمان ، درخت ، پہاڑ ، ہوا ، پانی ، سمندر ، دریا ، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو بُرا کہنے کے برابر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔
زمانہ کسے کہتے ہیں؟ زمانہ کی متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا:( يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ)
اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم زمانے کو گالیاں دے کر (برابھلاکہہ کر) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ(درحقیقت) میں ہی زمانہ (کا خالق اور مالک)ہوں۔ دن اور رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں۔لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ)(صحیح مسلم)زمانہ کو گالی مت دو(برا بھلا مت کہو)کیونکہ در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے۔
’’اب یہ وقت آگیا ہے کہ مسجد میں نکاح پڑھوایاجائے‘‘۔
بھائیوں! مسجد میں نکاح پڑھوانے کا وقت گیا ہی کب تھا؟ ہم نے تو خود ہی سنت کو خیرباد کر دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے مال سے نوازا تو مال کو خرچ کرنے کی جگہیں بھی مل گئیں۔ مال کی نمائش جاری ہے۔ گھر بنانے میں، روزمرہ خورد و نوش میں، سواری کی خرید میں، شادی کی رسوم میں، ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی ہوڑ میں، پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو ’’انا‘‘ کی ہوڑ میں، تھانہ، کچہری، پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ۔ شیطانی طریقے پر عمل کرکے اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں۔ نہ دنیا میں سنت کے مطابق زندگی گزاری اور نہ آخرت کا سامان کیا۔ عزتِ نفس کی حفاظت نہیں کی بلکہ ’’انا‘‘ پر قائم رہے۔ جب کہ عزت نفس تو بڑی پاکیزہ چیز ہے- یعنی انسان اپنے آپ کو اللہ کا بندہ تو سمجھتا ہی ہے لیکن وہ خود کو کوئی حقیر مخلوق نہیں سمجھتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے عزت اور وقار کے ساتھ اپنا معامله کرنا چاہیے- اس کے برعکس انانیت وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں تکبر کہا جاتا ہے-
رسول الله صل الله علیہ وسلّم سے جب یہی سوال پوچھا گیا تو اس کا آپ نے ایک نہایت جامع جواب دیا- پوچھنے والے نے کہا کہ میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ میں اچھا لباس پہنوں، اچھا جوتا پہنوں تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ان الله جمیل یحب الجمال۔ بیشک الله خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے
تکبر اور انانیت کیا ہے؛ فرمایا بَطَرُ الحَقِّ وَغَمطُ النَّاسِ ’’یعنی انسان حق کے سامنے اکڑ جاے اور دوسروں کو حقیر سمجھے‘‘ یہ چیز ہے جس کو انانیت کہا جاتا ہے، اس سے الله کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔یعنی ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھیے، کبھی اس کو حقیر قرار نہ دیجئے۔ اور اگر کسی وقت اپنے اقتدار، دولت، اپنے علم یا برتری کے زعم میں اس کے ساتھ کوئی غلط بات کر بیٹھیں تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیجیے۔
’’ہائے، ایسے کیسے شادی ہوگی، لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
مذکورہ جملہ بھی آپ نے کہیں نا کہیں سنا ہی ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ بھی ایسا ہی سوچتے اور کہتے ہوں گے۔ رشتہ سے متعلق ایک اشتہار ملاحظہ فرمائیں؛
’’لڑکا عمر45سال تعلیم ہائی اسکول، جمنا پارکی پاش کالونی میں اپنی رہائش، ذاتی کاروبار کے لئے خوبصورت و خوب سیرت لڑکی سے رشتہ درکار ہے۔ جہیز و برادری کی قید نہیں نکاح کے فوراً بعد عمرہ پر جائیں گے۔‘‘
بھئی نکاح کے لئے مناسب عمر بائیس سے پچیس سال ہوتی ہے۔ یہ بیس سال تک کیا کر رہے تھے؟
کیرئیر بنا رہے تھے؟
اتنا وقت کیرئیر بنانے میں ضائع کر دیا۔
اگر مناسب وقت پر نکاح کر لیا ہوتا تو اِس وقت بچوں کا نکاح کرتے۔۔۔ یا کر چکے ہوتے۔۔۔
جس عمر میں آپ اپنے بچے کھلاؤگے، اُس عمر میں آپ کے ہم جولی اپنے بچوں کے بچے کھلا رہے ہوں گے۔
آپ کے دوستوں اور ہم جولیوں نے زندگی کا زبردست لطف لیا اور آپ صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔
اب جب اُن کے درمیان اپنے بچے کھلاؤگے تب بھی وہ لطف نہیں آئے گا۔ ممکن ہے کہ آپ مذاق کا حصہ بھی بن جاؤ۔
کیرئیر کبھی بھی بنا سکتے ہو۔
اگر کیرئیر کا مطلب مال حاصل کرنا ہے اور آپ نے یہ کام کر دیا تو اِسے خرچ کرنے بھی آنا چاہیے۔
یا اولاد اتنی با شعور ہو کہ اسے خرچ کرنا آئے تب تو وہ اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہے
ورنہ وہ بھی آپ کی طرح کیرئیر بنانے میں زندگی کا دو تہائی حصہ صرف کر دے گی اور زندگی کیا کوئی لطف نہیں لے سکے گی۔
’’وقت کی قدر کریں‘‘ یہ جملہ ہم برسوں سے سنتے آئے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگوں کو وقت کی قدر کر کے ترقی کرتے دیکھا۔
لیکن میرا ماننا ہے کہ ’’وقت پر قدر کریں‘‘ یہ اُس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
جس کام کا جو وقت مقرر ہے، وہ وقت نکل جانے کے بعد اُس کام کی اہمیت، یا اُس کا فائدہ یا اصلیت ضائع ہو جاتی ہے۔
دوستو! میری رائے ہے صرف وقت کی ہی قدر نا کریں بلکہ ’’وقت پر قدر کریں‘‘۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اس آیت کے ذریعہ ’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ‘‘ نماز کو وقت مقررہ پر فرض کیا ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کے کام کاج کو بھی قرآن و سنت کی روشنی میں وقت مقررہ پر ادا کردیں۔ تو دنیا میں بھی ہم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں اور ہماری آخرت بھی سنور جائے گی۔
شادی بیاہ کی فضول خرچیوں اور نمائشوں پر کتنالکھا جائے ؟ کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اب چونکہ نکاح کا دوسرا نام ہم نے شادی بیاہ کر دیا ہے تو فضول خرچیوں اور نمائشوں کے بغیر وہ کام کیسے انجام پائے گا؟ اگر ہماری سوچ میں رسول ﷺ کا طریقہ شامل رہتا تو یقیناً ہم نکاح اور اس کے طور طریقے کے بارے میں سوچتے، جو کہ یقیناً سنت رسول ہوتا۔ جب ہماری سوچ بدلی تو ہمارے طریقے بھی بدلے۔ نتیجہ پریشانی، بربادی، آفات، آزمائش کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آخر کب وہ وقت آئے گاجب ہم اپنی زندگی میں رسول کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنائیں گے؟
اب کچھ باتیں کرونا وائرس کے خوف سے متعلق ’’”میں تو بچوں کو صحن میں بھی نکلنے نہیں دے رہی۔ اگر ان بچوں میں سے کسی ایک کو بھی کورونا ہو گیا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی۔‘‘ ’’”میرے شوہر بینک ملازم ہیں اور ان کو چھٹی نہیں ملی ہے۔ یہ جب بھی گھر سے نکلتے ہیں میرا پریشانی سے دم نکلا رہتا ہے۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کا کیا ہو گا؟‘‘
’’”مجھے لگ رہا ہے کہ مجھ میں کرونا وائرس کا ہوا بس گیا ہے۔ سانس لیتے بھی اب تو ڈر لگ رہا ہے۔ یہ سب قرب قیامت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہیں؟‘‘
کسی بھی وبائی مرض اللہ کے رسولﷺ نے ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنے کو منع کیا ہے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں ہم بغیر سوچے سمجھے اپنی مرضی کا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے سامنے روٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، انہیں تو گھر سے نکلنا ہی پڑے گا لیکن جن پاس روزی کا بندوبست ہے وہ بلاوجہ کیوں یہ خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ کچھ لوگ خوف کی وجہ سے ڈپریشن کے شکار ہو رہے ہیں، کچھ لوگ زبردستی راشن کا اسٹاک بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ایمان کی کمی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں سامنے موت نظر آرہی ہے پھر بھر راشن کا اسٹاک بڑھا رہے ہیں کیوں؟
موت کا ایک دن متعین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
حسن بن ربیع ابوالاحوص اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
صحیح بخاری شریف جلد دوم میں تقدیر کے موضوع پر اس حدیث میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کیا کھائے گا اور کہاں مرےگا۔ یعنی اُس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دی جاتی ہے۔ پھر بھی انسان ایسا کیوں کرتا ہے۔ کیا اُسے تقدیر والی اس حدیث پر یقین نہیں ہے؟
ایک بار پھر میری گزارش ہے کہ ہٹ دھرمی کو چھوڑیں یہ شیطان کا طریقہ ہے۔ سنت کو اپنائیں ، اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنائیں۔ بڑے بڑے مال دار کے مال کس کے کتنا کام آیا، تاریخ بھری پڑی ہے۔ فضول خرچی اور فضول رسموں سے اجتناب کریںاور اللہ کے اس فرمان کو پورا کرکے سر بلندی حاصل کریں؛ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔ آپ گھبرائیں نہیں، اپنے آپ کو کمتر نہ سمجھیں، آپ ہی سر بلند ہوں گے اگر آپ لوگ مومنین ہوں گے۔ آخری شرط ’’إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‘‘کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آزمائشوں میں صبر کی توفیق دے، خوش حال میں شکر کی توفیق عطا فرماے۔ آمین۔
Comments are closed.