وباء کی وجہ سے ذرائع آمدنی کی بندش اور ہماری ذمہ داری

نثار احمد حصیر القاسمی
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز ، حیدرآباد
شیخ الحدیث معہد البنات ، وجامعۃ النور ، حیدرآباد \|۔ الہند
Cell: 00919393128156
[email protected]
اللہ تعالی نے اپنی مشیت و حکمت بالغہ سے سماج میں کسی کو غریب اور کسی کو امیر، کسی کو یتیم و اسیر اور کسی کو بیوہ ومسکین، کسی کو خوش و خرم اور کسی کو غمگین وغمزدہ، کسی کو مامون وپرسکون اور کسی کو امن وامان اور چین وسکون کا محتاج، کسی کو صحتمند وتوانا اور کسی کو کمزور وناتواں وبیمار، کسی کو خوشحال اور کسی کو تنگ دست بنایا ہے، ہمارے سماج میں کتنے یتیم ہیں جو اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوچکے یا ماؤں کی مامتا کو ترس رہے ہیں، کتنی بیوائیں ہیں جن کی بیوگی ان کے دن کے چین اور رات کے سکون کو غارت کئے ہوئے ہے اور ان کے شب و روز آنسو بہاتے گذرتے ہیں۔
آج ساری دنیا میں کرونا وبا کی وجہ سے لوگ گھروں میں محبوس ہیں، ہمارے ملک، ہمارے شہر اور ہمارے محلے میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو یومیہ مزدوری کے ذریعہ اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتے اور اپنی بیوی بچوں کے پیٹ کی آگ بجھایا کرتے تھے؛ مگر اس وباء عام کی وجہ سے وہ کام و مزدوری سے محروم ہوکر کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، اسی طرح بیواؤں اور یتیموں کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں ہے، اس بحران کی حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب ثروت اور اہل خیر حضرات، سماج کے ایسے طبقوں کے نان شبینہ کا انتظام کرنے کی طرف توجہ دیں، ان کی نگہداشت کے لئے کھڑے ہوں تاکہ انہیں وباء کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکے، انہیں ذہنی تناؤ اور الجھنوں سے چھٹکارا دلایا جاسکے، سماج کے صاحب ثروت و خوش حال لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سمجھیں کہ یہ یومیہ مزدوری کرنے والے اور یتیم و بیوائیں بھی ہمارے جیسے انسان ہی ہیں، ان کی غربت و افلاس اور ان کی ناداری نے ان کی انسانیت میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اس جذبہء احسان و ہمدردی اور انسانیت نوازی کے ذریعہ ہم سماج کو جوڑے رکھ سکتے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (الکہف: 28)
اور اپنے آپ کو انہیں لوگوں کے ساتھ رکھا کریں جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں، خبردار! آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جائیں۔
اس مفہوم کی آیتیں قرآنی میں بکثرت وارد ہوئی ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے :
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ(الحجر: 88)
اور مؤمنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں ۔
اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے جو در حقیقت امت مسلمہ کو حکم ہے :
فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ (الضحی : 9 ۔ 10)
تو یتیم پر آپ بھی سختی نہ کیا کریں، اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے ہر انسان کو دوسرے کمزور غریب و نادار اور فقراء و مساکین جیسے مسلمانوں کے ساتھ باہم مل جل کر رہنا چاہئے، ان کی ضروریات کی تکمیل اور حاجت روائی کی فکر کرنی چاہئے، اور یہ ذہن میں رکھناچاہئے کہ جس طرح وہ اللہ کے بندے ہیں دوسرے بھی اللہ ہی کے بندے ہیں وہ بھی صبح و شام اللہ کو یاد کرتے اور عبادت کرتے ہیں، اس لئے ا ن کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کیا جائے ہمدردی کی جائے اور نہایت تواضع کے ساتھ ان سے جڑ کر رہا جائے، سماج کے اس ستم رسیدہ طبقہ کا دوسرے مسلمانوں پر اٹوٹ حق ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے، ان کی حاجت روائی کی جائے، خاص طور پر سختی اور پریشان کن حالات میں ان کی ضروریات پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، اسی لئے اللہ تعالی نے سارے مسلمانوں کو یک جان اور بھائی بھائی قرار دیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إنما المُؤْمِنُون إخْوَةٌ(یونس:49)
کہ سارے ایمان والے بھائی ہیں۔
اللہ تعالی نے اس طرح کی ہدایات و تعلیمات کے ذریعہ ہمیں آگاہ کیا ہے کہ دین اسلام انسانوں کی قدر دانی میں مساوات کا داعی ہے، وہ کمزوروں اور طاقتوروں کے درمیان، مالداروں اور ناداروں کے درمیان، شرفاء وغیر شرفاء کے درمیان، رہنماؤں اور عوام کے درمیان، اور تابع و متبوع کے درمیان حقوق و واجبات اور ذمہ داریوں میں کوئی فرق نہیں کرتا ہے، کسی ایک کو دوسرے پر مال و دولت کی وجہ سے، جاہ و منصب کی وجہ سے ، حسب و نسب کی وجہ سے، کوٹھی و بنگلے کی وجہ سے، گاڑی و سواری کی وجہ سے کوئی افضلیت وفوقیت اور برتری حاصل نہیں؛ بلکہ اسلام میں برتری و فضیلت کا میزان، تقوی و پرہیزگاری اور خوف خدا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات: 13)
اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس دنیا میں ہر انسان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسے سعادت و خوش بختی حاصل ہو، دنیوی زندگی کی حد تک یہی انسان کا مقصد ہوتا ہے، مقصود اصلی اگرچہ آخرت کی فلاح و کامیابی ہے؛ مگر دنیا میں جینے کے لئے ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اسے دنیا میں سعادت حاصل ہو؛ بلکہ دنیا کی ہر مخلوق یہی چاہتی ہے کہ وہ ایسا کام کرے جس سے اسے راحت وسکون ملے، اسے اپنے ہم جنسوں میں انس حاصل ہو، اس سعادت وخوش بختی کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اور اللہ کے پیارے و محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دروازوں کی نشاندی کی ہے جس سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک تو اللہ سے ڈرنا، پرہیزگاری اختیار کرنا اور خلوت و جلوت میں اللہ کا استحضار ہے، اور دوسرے ان ذمہ داریوں اور واجبات کو ادا کرتے رہنا ہے جسے اللہ نے ہم پر لازم کیا ہے، اور یہ ہے اللہ کے حقوق کو بھی اور اللہ کے بندوں کے حقوق کو بھی ادا کرتے رہنا۔
سعادت وراحت اور خوشی و سکون حاصل کرنے کا ایک ایسا آسان دروازہ بھی ہے جسے آسانی کے ساتھ انسان حاصل کر سکتا اور اس کا انجام بڑا ہی خوشگوار اور تاثیر بڑی برق رفتار ہے، اور عام طور پر لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، اور وہ ہے لوگوں کے ساتھ بھلائی وحسن سلوک کرنا، اپنی بساط کے مطابق ان کی خدمت کرنا، ان کی حاجت روائی کرنا، مخلوق خدا، اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب بندہ وہ ہےجو اس کے کنبے کے لئے نافع و مفید اور کار آمد ہو، مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک وبھلائی کرنا اور ان کی حاجت روائی میں سرگرداں رہنا اللہ کی عبادت میں خوبی پیدا کرنا اور اس میں لگے رہنے کے مترادف ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ (المدثر: 42۔ 44)
تمہیں جہنم میں کس چیز نے ڈالا، وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے، اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔
ان کے جہنم میں جانے کی وجہ ایک تو نماز ترک کرنا ہے، اور دوسرے اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی و حسن معاملہ نہ کرنا ہے، اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت سماج میں ہر طرح کے افراد رکھے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی نے اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہی رزق کو تقسم کیا ہے جس کی وجہ سے کسی کو غربت حصے میں ملی ہے اور کسی کو غنا و مالداری، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۭ (الزخرف: 32)
ہم نے ہی ان کی دنیوی زندگانی کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے
مسلمان کو جب اللہ غنا عطا فرماتا ہے تو وہ اس پر اللہ کا شکر بجالاتا ہے اور جب فقرو افلاس اور تنگ دستی سے دوچار کرتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ابتلا و آزمائش ہے، یہ صبر و شکر مسلمان کی ہی خصلت اور مزاج ہے، دوسرے اس نعمت کا احساس کرنے سے قاصر ہیں، حاجتمندوں کے ساتھ اللہ کا فضل اور اللہ کی رحمت و عنایت ہے کہ اس نے مالداروں کے مال میں غریبوں اور محتاجوں کا حصہ رکھ دیا ہے، یہ حصہ کبھی فرض و واجب کی صورت میں ہے اور کبھی اس کے سوا، زکات تو مسلمان ہر سال نکال کر غریبوں تک پہنچاتا ہے، مگر اس کے سوا جو صدقہ و خیرات ہے اس میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جنہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہے، شارع حکیم نے صدقہ و خیرات کی بڑی ترغیب دی اور اس کی تاکید کی ہے، اور اس پر بھرپور اجر و ثواب کا وعدہ کیا اور شاندار انجام کا مزدہ سنایا ہے، یہاں مقصود ان احادیث کا تذکرہ کرنا نہیں ہے، عام طور پر اس سے لوگ واقف ہیں، یہاں تو صرف بتانا مقصود ہے کہ فقر و افلاس اور ناداری و تنگ دستی کی بڑی تپش اور سلگتے انگارے ہوتے ہیں، نادار و بے کس انسان کو جس حسرت و یاس اور درد و الم کا احساس تڑپاتا ہے اس کا دوسرا اندازہ نہیں کر سکتا، وہ جب بال بچوں سے بھرے ہوئے اپنے معمولی گھر، ٹین پوش مسکن ، چھپروں و گھانس پھونس والی درو دیوار کے جھونپڑیوںپر نظر ڈالتا اور دیکھتا ہے کہ اس کے افراد خانہ بھوکے پیاسے ہیں، حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے وہ کچھ کما کر ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کے قابل نہیں ہیں، ان کے پاس ان میں سے جو بیمار ہیں ان کے علاج و دوا کے لئے پیسے نہیں ہیں اور نہ مزدوری کر کے پیسے حاصل کرسکتے ہیں، نہ کوئی قرض دینے والا ہے اور نہ مدد کرنے والا ، تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا ہے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی اور راتوں کی نیند اڑجاتی اور دن کا سکون غارت ہوجاتا ہے، وہ شب و روز اس طرح گذارتا ہے جیسے انگاروں پر تڑپ رہا ہو، اس کے سامنے یہی ہوتا ہے کہ اس وباء اور اس کرفیو نے اور ان حالات نے رزق کے سارے دروازے اس پر بند کردیئے ہیں، اس کے سامنے خودکشی کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا؛ مگر جو مؤمن ہوتے اور اللہ پر ان کا ایمان ہوتا ہے ان کے اندر امید کی ایک کرن موجود ہوتی ہے وہ اسی کے سہارے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جیتے ہیں ؛ مگر حو ایمان سے محروم ہوتے ہیں وہ انتہائی قدم اٹھانے سے باز نہیں آتے اور بالآخر موت کو گلے لگالیتے ہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نہایت سبق آموز اور عبرت ناک واقعہ صحابہ کرام کے سامنے بیان کیا جو مسلمانوں کے لئے ان حالات میں مشعل راہ ہو سکتا ہے، اس واقعہ کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ سے دور ایک نافرمان عورت تھی، ایک دن وہ گھر سے نکلی تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے بی حال ہے، اس کی جان جانے کے قریب ہے وہ پیاس کی شدت سے تڑپ رہا ہے، اسے اس عورت نے عذاب کے اندر مبتلا دیکھا پیاس نے اسے لاغر بنا دیا تھا، اس کے اندر چلنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی، وہ کتا ایک کنوے کے کنارے کھڑا تھا، جس کے اندر پانی تھا؛ مگر وہ اس پانی کو بھلا کس طرح حاصل کر سکتا تھا، وہ مایوسی کی حالت میں کیچڑ ہی کو چاٹنے لگا، اس نافرمان خاتون نے کتے کی اس حالت کو جب دیکھا تو اس پر اسے ترس آگیا، اور انسان کے اندر اللہ نے جو رحم کا مادہ رکھا ہے وہ جوش میں آگیا، وہ کنویں میں اتری اور اپنے موزے میں پانی بھر کے منہ میں دبا کر اوپر آئی اور اس کتے کو پلایا اور اس کی پیاس کو بجھایا، اس مخلوق پر اس عورت کی شفقت و رحمت کو اللہ نے دیکھ کر اس کی اس بھلائی کے عوض، اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کے نتیجہ میں اللہ نے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے، اور اس کے لئے جنت کا فیصلہ فرمادیا۔ (بخاری) چند گھونٹ پانی پلانے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ اتنی سی ہمدردی کرنے کا صلہ اللہ نے اسے ساری زندگی کی نافرمانی اور گناہوں کی معافی کے ذریعہ دیا، یہی رحم و کرم ہے جسے اللہ نے ہر بندے کے دل میں ڈالا ہے، اور اللہ اس بندے پر اسی طرح رحم کرتے ہیں جو بندہ مخلوق خدا کے ساتھ رحم و کرم اور ہمدردی کا معاملہ کرنے والا ہوتا ہے، ایسے بندوں کے لئے اللہ تعالی آسمان سے ہر طرح کے خیر و برکت کے دروازے کھول دیتا ہے، اور اللہ تعالی نے ہمارے آقا احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا رحمت بنا کر مبعوث فرمایا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء: 107)
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
دوسروں کے کام آنا، ان کی مدد کرنا، اور بے کسوں کے ساتھ ہمدردی و رحم و کرم کا معاملہ کرنا مسلمانوں کا شعار اور نیک لوگوں کا وصف خاص ہے، اسلامی شعائر میں سے ایک شعار بھوکوں کو کھانا کھلانا، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ بھلائی کرنا اور محتاجوں کی حاجت روائی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الساعی علی الارملۃ والمسکین۔۔۔ الخ (متفق علیہ)
غریبوں ناداروں مسکینوں اور بیواؤں کی حاجت روائی میں تگ و دو کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے، بغیر کسی سستی و کاہلی اور توقف کئے راتوں میں عبادت کرنے والے، اور روزہ توڑے بغیر مسلسل روزے رکھنے والے کی طرح ہے۔
اس کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کی وجہ سے مسلسل لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسے حالات میں صاحب ثروت لوگوں کی ہمدردی و اعانت اور دستگیری کے سب سے زیادہ مستحق وہ بیوائیں ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں، وہ یتیم ہے جس کے سرپر کوئی دست شفقت پھیرنے والا نہیں، وہ یومیہ مزدوری پر کام کرنے والے مزدور ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور مدارس و مکاتب میں پھنسے ہوئے وہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ہیں جو اپنے احاطہ میں محبوس ہیں نہ سفر کر سکتے اور نہ خورد و نوش کا انتظام اور اہل مدارس کی آمدنی مسدود ہوچکی ہے، جن کے لئے ان کی کفالت مشکل ہوگئی ہے۔
اہل ثروت آپ اپنے تھوڑے سے مال اور تھوڑی سی مدد کے ذریعہ ان کے آنسو پوچھ سکتے ہیں، ان کے شکستہ دلوں کو جوڑ سکتے ہیں، اور آپ یقین جانیں کہ موجودہ حالات میں ان لوگوں کی اگر آپ نے مدد کرلی تو یقینی طور پر اللہ آپ کو روز قیامت جہنم کے عذاب سے بچا لے گا، یہ اللہ کا وعدہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فلیتقین احدکم النار ولو بشق تمرۃ ۔۔۔ (بخاری)
تم میں سے کوئی بھی جہنم کی آگ سے بچے خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی نہ ہو، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
علی کل مسلم صدقۃ ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے، تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر وہ صدقہ کرنے کے لئے کچھ نہ پائے تو کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاتھ سے کمائے، مزدوری کرے اور اس سے خود بھی استفادہ کرے اور دوسروں پر بھی کچھ صدقہ کرے، ابو موسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر وہ مزدوری کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : يعین ذا الحاجة الملهوفسخت ضرورت مند کی مدد کرے ، ابو موسی نے عرض کیا ؛ اگر وہ اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو دوسروں کو خیر یا بھلائی کرنے کا حکم دے ، يامر بالمعروف اوالخير ابو موسی نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : يمسك عنہ الشر فإنها صدقة شر اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بچے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من عبد انعم اللہ علیہ الخ (رواہ الطبرانی واسنادہ جید)
جس کسی بندے کو اللہ نے نعمتوں سے سرفراز کیا ہے، اور اسے خوب نعمتیں دی ہیں، اور دوسرے بندوں کی ضرورت و حاجت کو اس سے وابستہ کر دیا ہے پھر وہ اس میں بخل کرتا اور خرچ کرنے سے منہ پھلاتا ہے تو اس نے اپنے اس عمل سے اس نعمت کو زوال سے دو چار کر دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من مشی فی حاجۃ اخیہ الخ ( رواہ الطبرانی واسنادہ جید)
جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں قدم بڑھاتا ہے تو اس کا یہ عمل دس سال اعتکاف کرنےسے بہتر ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
امسح رأس الیتیم واطعم المسکین (رواہ احمد فی مسندہ ورجالہ رجال الصحیح)
یتیم کے سر پر دست شفقت پھیرو اور محتاجوں و ناداروں کو کھانا کھلاؤ۔
اس وقت ملک کے حالات اور اپنے شہر حیدرآباد کے حالات بہت ناگفتہ بہ بنے ہوئے ہیں، کروفیو کی وجہ سے مزدوری کرنے والوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے، شہر میں کئی فلاحی اداروں اور اصحاب خیر کی جانب سے راشن اور ضروریات کا سامان تقسم کیا جارہا ے، جو مخصوص محلوں اور علاقوں تک محدود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر محلہ اور ہر علاقہ کے اصحاب خیر اور صاحب ثروت اس کام کے لئے آگے آئیں اور جن سے جتنا ہوسکے غریبوں کی مدد کریں، وہ اپنے محلے کے پاس پڑوس کی خبر لیں، اور جس قدر ان سے ممکن ہو مدد کریں۔
���
Comments are closed.