کرونا وائرس: آخربنیاد کی طرف لوٹنے کا مطلب کیا ہے؟

دانش ریاض ،معیشت ،ممبئی
گذشتہ روز جب میرا مضمون ’’بھارت میں لاک ڈائون کیا کسی نئے انقلاب کا پیش خیمہ تو نہیں؟‘‘شائع ہوا تو حسب سابق مجھے امید نہیں تھی کہ لوگ اسےپڑھ کرکمنٹ بھی کریں گے۔لیکن دوسرے روز ہی اتنے سارے میسیج آگئے کہ میں خود حیرت زدہ رہ گیا کہ کیا آج بھی لوگ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔حیرت تو اس وقت ہوئی جب میرے ایک بزرگ دوست نےکئی فون کیا اور جب نیند سے بیدار ہوکر میں نے ان کے فون کا جواب دیا تو انہوں نے برجستہ کہا کہ ’’میں عام طور پر (فلسفیانہ اور فکشن پر مشتمل) مضامین کو ڈیلیٹ کردیا کرتا ہوں لیکن صبح صبح اہلیہ نے جب تمارے مضمون پر گفتگوکا آغاز کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اب مجھے بھی پڑھ لینا چاہئے لہذا جو باتیں مجمل کہی گئی ہیں اگر اس کی تفصیل بھی بیان کردی جائے تو بہتر ہے ۔خصوصا ً اپنی بنیاد کی طرف لوٹنے سے تمہاری مراد کیا ہے ؟اگر اس پر کچھ گوش گذار کرو تو بہتر ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ کرونا وائرس نے پوری دنیا میں افراتفری پیدا کردی ہے۔معاشی مار سے دنیا کیسے نبرد آزما ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک لامتناہی معاشی غلامی ان تمام لوگوں کے سر کھڑی ہے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں یا جنہیں بڑے کارپوریٹ ہونے کا شرف اب تک حاصل نہیں ہوا ہے۔سنن ابو دائود میںابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال اس کی بکریاں ہوں گی جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔ "اس حدیث میں اس کاروبار کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جسے آجکل ہم Goat Farming سے موسوم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے یہاں ایسے لوگ بھی ہوں جن کا ایمان بہت مضبوط ہو اور وہ اس حدیث کے مصداق ہوں جسے جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ہی بیان کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون شخص سب سے افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔“پھر جب صحابہ نے پوچھا کہ اس کے بعد کون؟ تو فرمایا ”وہ مومن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں رہنا اختیار کرے ‘ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اور لوگوں کو چھوڑ کر اپنی برائی سے ان کو محفوظ رکھے۔“محققین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کرونا وائرس جسم کے قوت مدافعت Immune System پر اثر انداز ہوتا ہے آنے والے دنوں میں بھی Immune System پر اثر انداز ہونے کی ہی کوشش کی جائے گی ایسے میں ان غذائوں کا استعمال ضروری ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ مثلا خشک میوہ جات ،کھجور ،شہد،زیتون،قلونجی،انار،انگور،کیلا،بیر،سدر آئل،کدّو ،ککڑی،خربوزہ،تربوز،پیلو کا پھل،دودھ، نَبیذ،سِرکہ ، تَلْبِیْنَہ،قدرتی نظام سےٹھنڈا ہواپانی وغیرہ وغیرہ۔یقیناً ان تمام کی اپنی اہمیت اورطبی فائدے ہیں لیکن موجودہ زمانے میں اس کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔موجودہ نظام نے جس چیز کا ہمیں سب سے زیادہ گرویدہ بنا لیا ہے وہ ہے بجلی۔الیکٹرک سسٹم پر نہ صرف الیکٹرانک سسٹم قائم ہے بلکہ پورے نظام میں الیکٹرک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
تصور کریں کہ اگر کسی شہر میں بجلی چلی جائے تو کیا کہرام مچے گا۔۳۱ جولائی ۲۰۱۲؁ کی تاریخ شاید لوگوں کو یاد ہو جب پورا مشرقی ہند تاریکی میں ڈوب گیا تھا اور کروڑوں لوگ ۲ دنوں تک بجلی سے حاصل ہونے والی ان تمام سہولتوں سے محروم ہوگئےتھے جو زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔بلکہ بیشتر ٹرینیں پٹریوں پر ہی دو دنوں تک کھڑی رہیں اور لوگ بھوک پیاس کے ساتھ گرمی سے بے حال نظر آئے۔نظام بجلی پر انحصار کا معاملہ یہ ہے کہ پانی جیسی قدرتی نعمت جو کبھی بآسانی حاصل ہوجایا کرتی تھی۔کنواں ،تالاب اور نہروں کے خاتمہ کے ساتھ گائوں میں بھی اب یہ نعمت بغیر بجلی کے حاصل نہیں ہورہی ہے اور لوگ موٹر پمپ کے ذریعہ ہی پانی نکالنے کا کام کررہے ہیں لہذا اب بھی جن گھروں میں بجلی کے بغیر آبی ذخائر سے استفادہ کی صورت موجود ہے انہیں چاہئے کہ وہ اسے برقرار رکھیں اور بجلی پر کم سے کم انحصار کریں۔
اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ’’مینرل واٹر ‘‘کے عام چلن نے جس چیز کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ہمارا امیونیٹی سسٹم ہی ہے ۔مینرل واٹر نے ہماری جسمانی قوت مدافعت کو اس حد تک کمزور کردیا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی جب اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو طبی معالجین کے یہاں لمبی قطار لگ جاتی ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ گائوں دیہات میں آج بھی جو لوگ پروسیس ہوئے بغیر پانی کا استعمال کرتے ہیں ان کی صحت زیادہ بہتر محسوس کی گئی ہے۔گوکہ شہری علاقوں کے ساتھ گائوں میں بھی اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ لوگ پروسیس ہوئے پانی کا استعمال ہی کریں اور گائوں کے نیچرل آبی ذخائر کو تباہ کردیا جائے لیکن اس کے باوجود آج بھی بیشتر گائوں ایسے ہیں جہاں کنواں نہیں ہے تو ہینڈ پائپ کے ذریعہ ہی پانی نکالنے کا انتظام موجود ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چونکہ شہری علاقوں میں زمین کا پورا پانی ہی زہر آلود کردیا گیا ہے لہذا شہری علاقوں میں ہنڈ پائپ کے ذریعہ نکالا جانے والا پانی بھی نہ صرف زہریلا ہے بلکہ مینرل واٹر سے زیادہ خطرناک ہے۔ڈبہ بند اور پیکڈ غذائیں بھی امیونیٹی سسٹم کو زیادہ متاثر کرتی ہیں ۔بڑے بڑے شاپنگ مالس کا قیام اور ان میں روز مرہ کے سامان کا ذخیرہ اسی لئے سستے داموں مہیا کرایا گیا تھا تاکہ لوگ چھوٹے چھوٹے دکانوں سے اپنا رشتہ توڑ لیں اور جب کبھی لاک ڈائون جیسی کیفیت پیدا ہو تو عوام ان کارپوریٹ کی دست نگر بن جائے جن کے پاس ڈی مارٹ،وال مارٹ یا ریلائنس فریش کی چابیاں ہیں۔سنگھ پریوار کا بابا رام دیو کوکارپوریٹ گرو کے طور پر کھڑا کرنا اسی سلسلے کی کوشش ہے۔مذکورہ لاک ڈائون تو محض ایک ریہرسل تھا جس میں چھوٹے دکانوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیالیکن آئندہ کے لاک ڈائون میں غذائی ضرورت پر کیسے کنٹرول حاصل کیا جائے گا اس کے لئے شاید وہ لوگ ابھی سے تیاری کر لیں۔اخیر میں سب سے اہم بات یہ کہ غصہ کے ذریعہ بھی ایمونیٹی سسٹم پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لہذا ایسی خبروں کا پھیلائو جس سے غصہ آئے ،مزاج میں چڑچڑاہٹ پیدا ہو ،نیند غائب ہوجائے اور بے خوابی کی کیفیت پیدا ہواس لاک ڈائون میں اس کی بھی ہر ممکنہ کوشش کی گئی ہے۔اگر آپ انٹر نیٹ ،ٹیلی ویژن اور نیوز چینلس کا مستقل استعمال کررہے ہیں اور اس کو اپنی زندگی میں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں تو آپ کہیں نہ کہیں ان شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار ہورہے ہیں جس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے لہذا بہترین نیند کے ساتھ اتنی ہی آگہی حاصل کریں جو آپ کے زندگی کے سکون کو چھین نہ سکےبلکہ اس دوران خوش رہنے خوش رکھنے اور خوشی کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کریں۔خود کو فطرت قدرت اور اللہ سے زیادہ سے زیادہ جوڑیںکیونکہ:
زیاں نہ ہوگا صراط حق کا خلاف فطرت قدم اٹھا کر
تجھی کو رونا پڑے گا ناداں حقیقتوں کی ہنسی اڑا کر
تو یقیناً اللہ رب العزت بھی آپ پر خوشیوں کی بارش کردے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین زندگی عطا فرمائے۔آمین
(دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔)

Comments are closed.