تبلیغی جماعت اور میڈیا!

ڈاکٹر عبداللہ مدنی
ہاں مجھے تبلیغی جماعت سے چند نظریاتی اختلاف ہے اور رہے گا مولانا سعد صاحب کے طرز عمل کی وجہ سے لیکن اب میں چند نظریاتی اختلاف کے باوجود پورے طور پر اس کے ساتھ ہوں اور اس ملک کی سبھی تنظیموں کو اپنے آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اس کے ساتھ آنا چاہیے ورنہ آج وہ نشانے پر ہے کل کوئی اور ہوگا بلکہ یکے بعد دیگرے ایسا ہی ہورہا ہے. جس طرح ابھی کرونا وائرس کے حوالے سے پورے دیش کی سنگھی اور دنگائی میڈیا ایک ساتھ مل کر بجائے سرکار کی ناکامی پر سوال کرنے کے مرکز نظام الدین کو اپنی بحث کا موضوع بنائے ہوئی ہے وہ نہایت قابل افسوس اور گھناؤنا عمل ہے. وہ اس مہلک بیماری کو بھی ہندو، مسلمانوں میں بانٹ کر سرکار کے نفرتی ایجنڈے کو پھیلانے میں مشغول ہے. میڈیا کو ابھی سرکار سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ
1. اب تک کتنے ہاسپٹل اور ٹسٹینگ لیب کا انتظام ہوا ؟
2. ڈاکٹر کو ساری سہولتیں فراہم کی گئی یا نہیں؟
3. اب تک کتنے وینٹی لیٹر کا انتظام ہوسکا؟ 4. جتنے غریب عوام، کسان مزدور، ادھر ادھر پھنسے ہوئے ہیں ان کو کھانا مل رہا ہے یا نہیں؟
5. ان کے رہنے سہنے کا صحیح انتظام ہوسکا یا نہیں؟
6. سرکار روزانہ کتنے لوگوں کا ٹسٹ کروارہی رہی ہے؟
7. سرکار نے عوام سے جو وعدہ کیا ہے گھر گھر راشن اور روپیہ پہنچانے کا اس پر کتنا عمل ہورہا ہے؟
8. پردھان منتری ریلیف فنڈ اور پی ایم کیر میں اب تک جتنے پیسے آئے ہیں ان کا کیا ہورہا ہے؟
9. ان سوالوں کے ساتھ مزید جو لوگ تبلیغی جماعت میں آئے ہیں ان سے متعلق بھی یہ سوالات کیے جانے چاہییں کہ جب ملک میں باہر کی جماعت اس موقع پر آئی تو کیا ان کا ایر پورٹ پر اسکریننگ کی گئی؟
10. کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے آنے والے لوگوں کی جانچ ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی تو وہ پازیٹیو پائے گئے یا نگیٹیو؟ اگر پازیٹیو پائے گئے تو ان کا علاج ہوا یا نہیں؟ 11. اگر نیگیٹو پائے گئے تو ان میں سے اب ان کی کیا حالت ہے؟
جب مرکز نظام الدین نے پولس کو بروقت اطلاع دے دیا تو ان کے نکالنے اور ان کو صحیح مقام پر کیوں نہیں پہنچایا گیا اور ان کو نکالنے میں دیر کیوں کی گئی؟
12. اب تک جن نیتاؤں کی طرف سے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی گئی ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ (جیسے یوگی ادتیہ وغیرہ)
13. کیا ایودھیا میں جمع ہونے والی بھیڑ میں سارے لوگوں کی ٹسٹیگ ہوئی اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئی؟
14. سرکار نے ان غریبوں اور مزدوروں کے لیے ٹسٹیگ لیب کا کتنا انتظام کیا ہے جو لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ سڑک پر نکلے تھے؟
15. سرکار ان لوگوں کے خلاف اب تک کیوں نہیں کارروائی کی جو ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ تھالی اور تالی بجانے نکلے تھے اور جنتا کرفیو کی دھجیاں اڑا دی تھیں؟
16. بغیر کسی تیاری کے لاک ڈاؤن کیوں کیا گیا اور اگر مجبوری میں کرنا پڑا تو عام جنتا کے لیے صحیح انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟
میڈیا ان سوالوں پر خاموش کیوں ہے؟ کیا ہندو مسلمان کرکے دیش کی اس مہلک بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ ہمیں میڈیا کے خلاف ایک ساتھ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور ان کے نفرتی ایجنڈے کے پھیلانے کے خلاف قانونی ایکشن لینے کی ضرورت ہے. ہم ملک کے تمام وکیلوں اور تمام سماجی تنظیموں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ میڈیا کو ان کے اوچھی حرکتوں سے باز رکھنے کے لیے قانون کا سہارا لے کر ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کریں ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا بلکہ آچکا ہے کہ ہماری ضرورتوں اور سرکار کی طرف سے غریب عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی بھی نہ بچے گا. سرکار کے ظلم کا شکار صرف غریب عوام ہی نہیں بلکہ وکیل، ڈاکٹر، سماجی کارکن، بزنس مین اور تاجر، ٹیچر، غرض یہ کہ کسی بھی کمیونٹی کے لوگ ہوسکتے ہیں اور ہوبھی رہے ہیں، ان کو بلکہ ہم سب کو سچے میڈیا کی ضرورت ہمیشہ رہے گی، لہذا ہمیں میڈیا کی غلط حرکتوں سے باز رکھنے کے قانونی قدماٹھانے کی سخت ضرورت ہے.
(نوٹ : برائے مہربانی اسے زیادہ سے زیادہلوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں اگرہوسکے تو کوئی صاحب اسے ہندی اور انگریزی میں بھی منتقل کرکے شیر کرسکتے.)

Comments are closed.