مرکز تبلیغی جماعت کی صورت حال: انتظامیہ کے ساتھ حکومت ذمہ دار

محمد شعیب رضا نظامی فیضی گورکھ پوری
ایڈیٹر:ہماری آواز گولابازار، گورکھ پور
خوف ودہشت کا درسرا نام بن چکے کورونا وائرس سے احتیاط کے پیش نظر ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاؤن جاری ہے، ۲۲/ مارچ کو ہوئے عوامی کرفیو کے دو دنوں کے بعد سے جاری یہ لاک ڈاؤن مکمل ۱۲/دن یعنی ۴۱/ اپریل تک جاری رہے گا، پورا ملک قرنطینہ بننے کی وجہ سے عوام کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،ملک کا غریب اور یومیہ مزدور طبقہ بھوک مری کا شکار ہورہا ہے اور دوسری جگہوں پر رہ کر کام کرنے والے مزدور ذرائع آمد ورفت موقوف ہونے کی وجہ سے پیدل سفر کر اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہیں۔ اسی درمیان دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز سے خبر آئی کہ وہاں تقریباً ایک ہزار لوگ موجود ہیں جن میں سے ۴۲ /افراد میں کورونا کا اثر پایا گیا ہے، خبر آتے ہی میڈیا کی سرخیوں میں گردش کرنے لگی، ہر ایک نیوز چینل پر بس وہی خبر۔ خیر! میڈیا کا کام ہی یہی ہے۔ مگر ہندوستان کے مرکزی شہر میں اتنی بڑی لاپرواہی ہوئی کیسے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے جب کہ ملک میں دھارا ۴۴۱/ جاری ہونے کی وجہ سے پانچ لوگ اکٹھے جمع نہیں ہوسکتے، کیا انہیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی؟ در اصل ملک کے وزیر اعظم نے جب اعلان کیا کہ ۲۲/مارچ کو عوامی کرفیو ہے غالباً یہ ۰۲/مارچ کی بات ہے اس وقت جماعت کے اس مرکز میں تقریباً ۸ہزار سے زائد لوگ موجود تھے چوں کہ اس اعلان سے پہلے اس طرح کرفیو کی بات بالکل بھی نہیں ہوئی تھی اور شاید اس وقت مسئلہ بھی زیادہ پیچیدہ نہیں تھا ورنہ عوام کی صحت وسلامتی، فلاح وبہبودی کے لیے اکثر راتوں کی نیند قربان کرکے بندیوں کا اعلان کرنے والے ملک کے وزیراعظم مسٹر مودی جی کیسے خاموش بیٹھتے۔ اس لیے مرکز میں اتنے لوگوں کا اکٹھا ہونا کوئی جرم تو نہیں تھا اور آج نہیں سالوں سے وہاں تبلیغی لوگ اکٹھا ہوتے آرہے ہیں حسب سابق اس بار بھی وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے اب انہیں کیا معلوم تھا کہ ملک میں کرفیو لگنے والا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک میں موجود دیگر مذہبی مقامات مثلاً ویشنودیوی مندر وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ بہر کیف جب عوامی کرفیو کی بات کی گئی اسی وقت دہلی کے وزیر اعلی مسٹر کیجریوال نے صوبے میں ۲۲/ مارچ کے بعد بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا کہ دہلی میں ۱۳/مارچ تک لاک ڈاؤن رہے خیال رہے کہ یہ مسٹر مودی کے ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاؤن سے پہلے کا اعلان ہے اسی وقت سے دہلی میں آمد ورفت کے تمام تر ذرائع بند ہوتے چلے گئے اور پھر ۴۲/مارچ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری ہوگیا جس کی وجہ انہیں گھر واپس لوٹنے میں مشکلیں بڑھتی گئیں بلکہ ان کا گھر لوٹنا ناممکن سا ہوگیا کیوں کہ حکومت کی جانب سے شاید انتظامیہ کو یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں چلنے نہ دیں اسی وجہ سے وہ لوگ گھر سے باہر نکل کر ضروری اشیا خریدنے والے پر بھی لاٹھی چارج کرنے سے باز نہ آئے، باوجودیکہ وہاں موجود بہت سارے افراد جن کا گھر واپس لوٹنا ممکن تھا انہیں گھر بھیج دیا گیا اور جن لوگوں کا گھر دور تھا ان کے لیے مرکز کے ذمہ داروں نے وہاں کی انتظامیہ سے مدد طلب کی اور ایس۔ڈی۔ایم۔ کو عرضی دے کر سترہ(۷۱) گاڑیوں کے لیے کرفیو پاس مانگا تاکہ انہیں ان کے گھر پہونچا دیا جائے مگر پاس جاری نہیں ہوا، ساتھ ہی مرکز کے ذمہ داروں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے انتظامیہ کو بارہا خبردار کیا تھا کہ ان کے یہاں کافی تعداد میں لوگ موجود تھے اور شاید ان کی یہی خبر چھاپے کی موجب بھی بن گئی سچ ہے ؎ نیکی کر دریا میں ڈال۔ بہر حال جب ان کی گاڑیوں کے لیے کرفیو پاس جاری نہیں کیا گیا تو ان لوگوں نے موجود افراد کو مرکز کے اندر رکھنا ہی مناسب اور انسانیت سمجھا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں جب پولس دیکھتے ہی لاٹھی ڈنڈے برسانے لگ رہی ہے تو یہ بے چارے جائیں گے کہاں؟ جب کہ ان میں کئی سارے غیر ملکی افراد بھی موجود ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ غیرملکی جب ملک میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا ویزا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے نقل وحرکت کی پوری جان کاری انتظامیہ اور حکومت کے پاس ہونی چاہیئے باوجودیکہ انتظامیہ لاعلمی ظاہر کررہی ہے اس سے حکومت اور انتظامیہ دورخی کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ ان ساری تفصیل سے یہ بات تو طئے ہوگئی کہ مرکز کے ذمہ داروں کے بجاے اس لاپرواہی کی ذمہ دار وہاں کی انتظامیہ ہے اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر اس لاپرواہی کی ذمہ دار حکومت ہے جس نے آناً فاناً میں ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا حکم جاری کردیا کہ آج ہی رات بارہ بجے کے بعد سے گھروں میں محصور رہنا ضروری ہے ورنہ انجام برا ہوگا اور ہوا بھی جن لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ان پر برسائے گئے لاٹھی،ڈنڈے اس بات کا ثبوت ہیں کہ شاید حکومت قدرتی مار کورونا سے متعلق متاثر ہونے کا خطرہ نہ بتا کر انتظامیہ کے ہاتھوں پیٹے، مارے جانے سے آگاہ کررہی تھی۔ مگر جنہوں نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو مرکز سے باہر نہیں نکالا ان پہ بھی یہ عتاب؟ جب کہ حکومت کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ملک میں غریب اور یومیہ مزدور کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اسے بخوبی معلوم تھا کہ ملک میں روزانہ کروڑوں لوگ کام، کاج، علاج ومعالجہ، پرچار وپرسار، دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے ہیں باوجودیہ ایں قدر جلدبازی؟ ان راہ گیروں، غریبوں اور مزدوروں کے آنے، جانے، کھانے، پینے کا کوئی بندوبست حکومت کی جانب سے نہیں کیا گیا اوپر سے ضروری کاموں کے سلسلہ میں گھر سے باہر نکلنے والوں کو مارا، پیٹا بھی گیا لیکن جب چاروں طرف سے تھو تھو ہونے لگی تب حکومت کی عقل ٹھکانے لگی اور اس اعلان کیا کہ غریبوں اور راہ گیروں کو ضروری مدد فراہم کی جائے گی مگر آج بھی غریبوں اور مزدورں کو کھانے کے لالے پڑے ہیں اور وہ بھوک مری کرنے پر مجبور ہیں یا خود کشی۔ اور پیدل سفر کررہے راہ گیروں کی حالت جب ابتر ہونے لگی تب حکومت نے اعلان کرایا کہ فی الحال جو جہاں ہے وہیں رہے حکومت انتظامیہ کے ذریعہ ان کے طعام وقیام کا انتظام کرے گی۔ مگر مرکز جس نے ان راہ گیروں کو مرکز سے باہر نکال کر در بدر بھٹکتے ہوئے نہ چھوڑا اس پر یہ عتاب؟
Comments are closed.