کرونا وائرس ، مرکزنظام الدین اور اسلاموفوبیا

محمد احسان اشاعتی
خادم تدریس جامعۃ البنات بسرا
صحت اورتندرستی خالق کائنات کی طرف سے ایک بیش بہا نعمت ہے جس کی حفاظت شرعاو عقلامطلوب ہے ، انسان کو ہر طرح کے چھوٹے بڑے امراض سے بچاؤ اوراس کے تعلق سے بہر نوع حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت اسلام میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے توسط سے واضح طور پر ملتی ہے ؛
فی الوقت جو مہاماری (وبا ء)ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور جس کے تئیں خوف و ہراس تمام ممالک پر طاری ہے ، جس سے اپنی عوام کو محفوظ رکھنے کی غرض سے بر سر اقتدار حکومتیں متعدد احتیاطی تدابیر کی نشاندہی کر رہی ہیں؛ اس سے حفاظت اور اسباب تحفظ کے اختیار کرنے کے طرق اپنے ماننے والوں کو اپنی تعلیمات کی روشنی میں شریعت نے بڑے ہی بہتر اور مناسب نہج پر بیان کیاہے ، جس سوشل ڈسٹنشن (social distancing )کی ہدایت حکومت وقت کررہی ہے اس سے پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے اس فرمان عالی کے ذریعہ صدیوں پہلے اپنے پیروکاروں کوروشناس کرا دیا تھا : فرّ من المجذوم کما تفرّ من الاسد (بخاری ، حدیث :۱۷۵۷)
ــغرضیکہ اسلام نے خود بیماریوں کے تعلق سے انتہائی احتیاط کا پہلو اختیار کرنے کا حکم بیان فرمایا ہے لہذا آج جو اہل اسلام پر اس پھیلے ہوئے مرض کے سلسلے میں لاپر واہی کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے اور خصوصامرکز نظام الدین کی تبلیغی جماعت جیسی امن پسند، متبع شریعت اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی محتاط جماعت کو جوبے جا طور پر موردعتاب بنایا جارہا ہے وہ بے حد افسوس ناک ہے
وہ تبلیغی اصلاحی جماعت جو اپنے کام سے کام رکھتی ہے ، اور امت کا بڑا طبقہ جو اپنے شرعی و دینی احوال کی درستگی کے ساتھ امن و شانتی اور حسن اخلاق و کردار کی دعوت کا کام بڑے پر سکون انداز میںآزادی سے پہلے سے ہی کر تاچلاآ رہا ہے ، انسانیت کی خیر خواہی اتنی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کے قائل ؛ بھلا اس جماعت سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاملے میںاس قدر بے احتیاطی سے کام لے سکتی ہے ، معاملہ ہرگز ویسا نہیں ہے جیسا کہ ضمیر فروش میڈیا ظاہر کر رہی ہے ؛ ہمیں تو فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک کی راجدھانی میں اس عالم گیر محنت کی بنیاد رکھی گئی اور تا ہنوز پوری دنیا میں یہیں سے رہبری بھی کی جاتی رہی ہے اور اس نے اپنے اعلی برتاؤ کی وجہ سے منصف مزاج ہم وطن بھائیوں کو متاثر کیا ہے اور اپنا ہم نوا بنائے رکھا ؛ لیکن فرقہ پرستو ں او رزر خریدگودی میڈیا کی فاسد ذہنیت کا ہی نتیجہ ہے کہ اس جفاکش مبارک جماعت کے دامن شفاف کو داغدار بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔
جب ہمارے ملک میں نوویل کرونا وائرس ۱۹ کے سلسلہ میں کسی طرح کوئی وارننگ او ر تحفظ صحت کے حوالے سے کوئی انتباہ نہیںآیا تھا ، اندرونی وبیرونی اڑانوں پر کسی طرح کی کوئی بندش نہیں تھی ؛مرکزنظام الدین میں مختلف ممالک اور اندرون ملک کے متعدد صوبوں سے جماعتوں کے آنے جانے کاسلسلہ جاری تھا اور یہ بات ؍۱۰ مارچ سے ؍۱۵ مارچ کے درمیان کی ہے جب حکومتی کارندے میڈیا میں کہہ رہے تھے کہ پینک ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے ہا ں ایسا کوئی معاملہ پیش نہیںآیا ہے ؛ جب کہ دوسری طرف متاثرہ حکومتیں ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں ، خوف کا ماحول تھا ، لیکن یاد رہے کہ کوئی بھی مملکت اپنے رعایا کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ نہیں کر رہی تھی ، دیگر ممالک کے کسی بھی طیارے کوہندستان آنے میں کوئی بھی پریشانی نہیں ہورہی تھی ؛ مرکز نظام الدین میں اس دوران جماعتیں آئیں اور جیسا کہ معمول ہے سینکڑوں لوگ مرکز میںموجود تھے اور وزارت عظمی کی طرف سے ؍۲۲مارچ کے جنتا کرفیو کا اعلان کیا گیا جس کا اہل مرکز نے اہتمام بھی کیا اور ؍۲۳ مارچ کو مرکزسے لوگوں کا ایک بڑا جتھہ نکل کر اپنے وطن کوپہنچ جاتا ہے اور اسی رات وزیر اعظم آدھی رات سے تین ہفتوں کے لاک ڈاؤن کا اچانک سے اعلان کردیتے ہیں ، اب ان حالات میں مرکزکے اندر تقریبا ۱۵ سے ۱۸ سو تک لوگ پھنسے رہ جاتے ہیں ؛ جس کومیڈیا چھپنے سے تعبیر کرتی ہے ، مرکزکے ذمہ داران وہا ں کے SHOسے سات گاڑیوں کے پاس بنانے کی عرضی دیتے ہیں اور اس کی کاپی SDMکو بھیجی جاتی ہے لیکن اجازت نہیں ملتی ۔
؍۲۹ مارچ کو پھر مرکزکی طرف سے ایک خط لکھا جاتا ہے دہلی کے اسسٹنٹ کمشنر آف پولس اتل کمار کے نام جوکہ دہلی پولس کی طرف سے ایک نوٹس کے جواب میں ہوتا ہے ؛ اس پر مستزاد یہ کہ اس نوٹس کے ملنے کے بعد مرکز کے احوال سے آگاہ کیا جاتا ہے ، غرضیکہ مرکزکے سرپر ستان مستقل دہلی پولس والوں کے رابطے میں رہے اوراس مسئلے کے حل کے کوشاں رہے ۔
لیکن پھر صوبہ تلنگانہ سے خبر آتی ہے کہ مرکزسے لوٹے ہوئے چھ لوگوں کا کرونا وائرس کی وجہ سے انتقال ہوگیا پھر تو جیسے بیٹھے بیٹھے انتاکچھری کھیلنے والے اینکروں کواپنے چینل کی ٹی آر پی بڑھانے اورحکومت وقت کی کاسہ لیسی کا سنہرا موقع مل گیا اور سارے دنگائی چینلوں نے ان تبلیغیوںکو دیش دروہ اور غدار قرار دینے میں زمین وآسمان ایک کردیا ، طبی محکموںکی گاڑیاںمرکزپہنچنے لگیں، الگ سے پولس لگادی گئی ، مرکز کو بدنام کرنے میں ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کا گویا مقابلہ ہونے لگا اور اس بہانے مسلمانوں کو گھیرا جانے لگا اور اب حال یہ ہے کہ مدارس پر چھاپے مارے جا رہے ہیں مساجد کی چھان بین کی جارہی ہے ۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ موجودہ وائرس ملکی نہیںبلکہ کہیں اورکی پیداوار ہے ، دسمبر میںاس کا پہلا مریض پایا گیاتھا اورپھر جنوری ، فروری اورنصف مارچ تک پوری دنیا میںاپنا پاؤںپھیلا چکا تھا ؛ مگر افسوس ہمارے ملک کے ارباب سلطنت اور وزراء خواب غفلت میں سوتے رہے بلکہ ؍۱۳ مارچ کو تووزارت صحت کی طرف سے یہ بات آئی کہ corona is not a health’scareمسلسل اس سے بے توجہی برتی جاتی رہی ، ہر دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیرون ممالک سے بغیر کسی طبی جانچ کے آتے رہے ؛ امریکہ ، فرانس ، یو کے ، یورپ اور مختلف ممالک سے ہندستان میںآنے کا سلسلہ جاری رہا ، کس کی بھی تفتیش نہیں ہوئی ؛ بے اعتنائی ولاپر واہی کا ایسا منظر دیکھنے کوملا جو کسی اورملک میں شاید ہی نظر آیا تھا ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر منظم لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے غلطی انتظامیہ نے کیا اور بھگتنا عامۃ الناس کوپڑا۔
ہو نہ ہو یہ لاک ڈاؤن اور اس دوران کا ان کی یہ سرگرمیاں عوام کے مفاد کی خاطرنہیں بل کہ آر ایس ایس کی کٹ پتلی بی جے پی ہندتواکے اجنڈے کو پورا کرنا چاہتی ہے اور اسلامو فبیا (islamophobia)کی ذہنیت عام کرنا چاہتی ہے یعنی لوگوں کے ذہن و دماغ میں اسلام کے تعلق سے ڈر پیدا کرکے ان سے نفرت کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ بات بٹھاناچاہتی ہے کہ ملک میں پھیلنے والی بد امنی انہیں اہل اسلام کی طرف سے ہے یہاں تک کہ فی الوقت جو وائرس ہندستان میں پھیل رہا ہے اس کے ذمہ دار بھی یہ ٹوپی دھاری ہی ہیں ؛ اور اس کے آڑ میں وہ قانون اور وہ نظریہ جس کو جبرا تھوپنا چاہتے تھے اور جو حقیقت میں ان کے گلے کی ہڈی بن چکا تھا اورامن پسند غیر مسلموں کا ایک بڑا طبقہ بھی جس کی مخالفت میںاٹھ کھڑا ہوا تھا نیز جس کی وجہ سے اس تانا شاہی حکومت کی دنیابھر میں رسوائی ہورہی تھی ، اس قانون کے باآسانی نفاذکی راہ اس طریقے پر ہموار کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ، عمومی طور پر مسلمانوں کے بارے میں ایسی سوچ پیدا کردیناچاہتے ہیں کہ لوگ خود کہیں کہ یہ قوم معاشرے میں رہنے کے لائق نہیں، اس کے لیے کروڑوںروپئے میڈیا کی خرید و فروخت میں صرف کیے جارہے ہیں جس پر میڈیا والوں کی زبا ن اور ان کا بھگوائی انداز واضح غمازہے اور ان کاگرتاہوا معیار بین عکاس ہے مگر ان معاندین اسلام کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Comments are closed.