مرکز نظام الدین کا قضیہ اور گودی میڈیا کا دجالی کردار

معاذ مدثر قاسمی
مرکزالمعارف ، جوگیشوری ، ممبئی
[email protected]
اس وقت ہماراملک ہندوستان دنیاکے دیگر ممالک کی طرح عالمی وبائی مرض کرونا وائر س سے دوچار ہے، تادم تحریر اس وبائی مرض سےاب تک مرنےوالوں کی تعد اد 86اور متاثرین کی تعد اد 3082 سے زیادہ تجاوز کرچکی ہے۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس سے تمام لوگ ڈرے سہمے ہوئے ہیں،ہرکوئی خوف کےعالم میں جی رہاہے۔ اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لیےابھی تک کوئی دوادریافت نہیں ہوپائی ہے،اسکی ویکسین تیار کرنے میں ساتھ سے آٹھ ماہ مزید لگیں گے۔ اس لیےدنیا کے اکثر ممالک ایک ہی طریقہ اپنا رہے ہیں،حکومتیں اپنےشہریوں کو گھروں میں رہنے کی اپیل کررہی ہیں ۔
حکومت ہند اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے جو اقدامات کررہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے ۔ اس لیے ملک کا ہر شہری اپنے کاروباراور تجارت کو پس پشت ڈال کر گھروں میں محصور ہونے کو ترجیح دے رہا ہے۔ کیونکہ یہ وبائی مرض ہر ایک کا دشمن ہے ، یہ نہ کسی کار رنگ دیکھتاہے نہ کسی کا مذہب ، نہ ہی یہ کسی کی دولت اور غربت دیکھتاہے ، بلکہ یہ ملک کے ہر باشندے کا ایک مشترکہ دشمن ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں ملک کا ہر فرد اس سے نمٹنا چاہتاہے، اورہونا بھی یہی چاہیے ، دوستی اور دشمنی کی سطح سے اوپر اٹھ کرتمام باشندوں کی پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ اس مرض سے کیسے نمٹاجائے۔
حکومت اگر اس سے نمٹنے کے لیے اچھے قدم اٹھا تی ہے تو سب کو مل کر بھرپور تعاون کرنا چاہیے ، اگر حکومت غفلت میں ہو ، یا غلط فیصلے لیتی ہے تو اس کی طرف توجہ دلانا بھی عوام کا کام ہے اور یہ کام میڈیا کے توسط سے ہوتاہے۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری ہےکہ حکومت کے غلط فیصلوں کو آئنہ دکھا ئے اور عوام کی بات حکوت تک پہنچائے۔
مگر اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں کا اکثر میڈیا چند کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھ میں قید ہے۔ جس طرح حکومتی طبقہ ایک مخصوص طبقہ کے تئیں نفرت وعناد کی زبان استعمال کرتاہے ، جن کے لیے آپسی بھائی چارگی کو ئی معنی نہیں رکھتی ، جن کے لیے یہ طبقہ ہمیشہ سیاسی عروج کا زینہ رہاہے اور جن کی پوری سیاست اسی طبقہ کی دشمنی پر مبنی ہے۔ اور اس کام کو مزید ہوادینےمیں ملک کا میڈیا بڑا کردار اداکررہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جب ملک عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہے، ملک کامیڈیا آنکھ کان بند کرکےایک طبقہ کے تئیں نفرت کو عام کرنے میں لگاہے۔
مانا کہ لاک ڈان کرنا ضروری تھا ، مگر حکومت نے مضبوط پلاننگ کے بغیر اچانک ملک کو لاک ڈان کیا ، جس کے نتیجے میں ملک میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیا، تقریبا چھ لاکھ مزدور ، غریب عوام بے یار و مدد گار سڑکوں پر آگئی، جس کی وجہ سے ہر طرف حکومت کی ناکامی پر سوالات اٹھنے لگے اور جگ ہنسائی ہونے لگی، بس کیا تھا حکومت کے رکھیل میڈیا نے مرکز نظا م الدین کے مسئلے کو ایسا اچھالا گویا ملک کے لیے زیادہ خطرنا ک کرونا نہیں ، بلکہ نظام الدین مرکز ہے۔
میڈیا کے اس مذموم رویہ کو دیکھ کر یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ ” اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ملک کے لیے کون زیاد ہ خطرناک ہے، ملک کا موجودہ گودی میڈیا ، یا پھر کرونا وائرس”؟ اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھاجائے تو یہی کہا جاسکتاہے کہ موجودہ میڈیا ہی زیاد ہ خطرناہے ، کیوں کہ کرونا وائرس اپنی تباہ کاری کے ساتھ آج نہیں تو کل ضرور چلاجائے گا۔ مگر ملک کا موجودہ میڈیا جو کل بھی ملک کو کھوکھلا کرتارہاہے ،آج بھی کررہاہے ،اور آئندہ بھی یہی کرتارہے گا ،جس سے ملک کا چوطرفہ نقصان ہی ہے۔
جس طرح کرونا کا علاج صرف مکمل لاک ڈاؤن ہے اسی طرح اس گودی میڈیا کا علاج بھی یہی ہے کہ اسکا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا جائے۔مرکز نظام الدین کے قضیے کے بعد ملک کے مایہ ناز صحافی رویش کمار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ "ان گودی میڈیا کو دیکھنے والے ایک طرح کا جرم کررہے ہیں ، آپ کے دیے ہوئے پیسوں پر انکی روزی روٹی ٹکی ہوئی ہے”۔
جہاں تک نظام الدین مرکز کا سوال ہے تو قانو ن سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، اگر دہلی حکومت نے13/ مارچ کو دو سو سےزائد بھیڑ کے اکھٹا نہ ہونے کا اعلان کیا تو اسمیں مذہبی اجتماع شامل نہیں تھا۔ تبلیغی جماعت کا اجتماع 31/مارچ سے 15/ مارچ تک تھا اوراسی 13/ مارچ کو ہیلتھ منسٹری کی جانب سے کہاگیا کہ ملک میں کوئی ہیلتھ ایمر جنسی نہیں ہے۔
ملک میں مکمل لوک ڈاؤن ہونے سے قبل مختلف مذہبی اجتماعات ہوتے رہے ہیں ، ان پر کس طرح کا کوئی سوال نہیں اٹھا۔ دہلی میں پارلیامینٹ کا سیشن 23 / مارچ تک چلتارہا، جہاں ہزاروں کا مجمع ہوتاہے، ان میں بی جے پی کے ایم پی دوشانتھ سنگھ بھی شامل ہوئے جبکہ وہ کرونا متاثرہ کنیکا کپور سے مل چکے تھے۔ کیاکرونا کا اثر وہاں نہیں ہوا ؟ اس پر میڈیا کیوں خاموش رہا؟ اگر نظام الدین کا اجتما ع اتنا خطر ناک تھا تو کیا پارلیامنیٹ کا اجتماع خطرناک نہیں تھا ؟ کیا چوبیس مارچ سے قبل ساری یونی ورسیٹیوں میں تعطیل ہوچکی تھی؟ کیا دہلی میں سارے ادارے خالی کرالیے گئے تھے؟
اگرنظام الدین سے کچھ پازیٹیوکیس نکلے ہیں تو اسکی وجہ انکا چیک اپ ہے، کیا ان تمام اجتماع گاہوں کے افراد کا چیک اپ کرلیاگیا؟ میڈیا نفرت کو ہوادینے کےلیے اتنی نچلی سطح تک گر جائے گا اسکا اندازہ نہیں تھا۔ کیا میڈیا ،حکوت سے اتنا سوال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرسکتا کہ کیا ان پندرہ لاکھ لوگوں کا چیک اپ ہوگیا جو بیرون ممالک سے جنوری سے مارچ 3/ تک انڈیا آئے تھے؟ 30 /جنوری کو یہاں پہلا کیس سامنے آیا تھا اور 3 / مارچ سے حکومت نے ائیر پورٹ پر یونیورسل اسکریننگ لگائی ، تو اگر 13-15 مارچ کے
اجتماع میں شامل ہونے کے لیے مرکز میں بیرون ممالک سے آئے افراد کی وجہ سے کرونا پایا گیا تو اسکریننگ میں کیوں نہیں پتہ چلا؟
حکومت کی ناکامی کو چھپانے کےلیے میڈیا کی شیطانی چال ہے ، مانا کہ مرکز کا قصور ہے تو کیا یوگی قصوروار نہیں ہیں جنہوں نے مکمل بند کے قانو ن کو توڑا، کیا شیوراج سنگھ پر سوالات نہیں اٹھتے جنہوں نے حکومت کی حرص میں23/ مارچ کو ایک بھیڑ کے ساتھ حلف لیا؟ کیا سوالات نہیں اٹھتے تروپتی مندر پر جہاں سولہ مارچ تک ہر گھنٹے چار ہزار زائرین کا آنا جانالگاہواتھا؟ 16/ارچ تک تو سدھی ونایک مندر اور اجین مہاکالیشور مندر بند نہیں کیا گیاتھا، 18 مارچ تک وشنودیوی مندر بند نہیں کیا گیا تھا، 20 / مارچ تک کاشی وشو ناتھ مندر بند نہیں کیا گیا تھا۔تو سوالات تو یہاں پر بھی اٹھنے تھے۔ مکمل لوک ڈاؤن کے بعد تو مرکز نے تو قریب کے پولیس اسٹیشن میں جاکر ساری صورت حال کی اطلاع دی تھی ، حالانکہ مرکز ایسی جگہ ہے جہاں ہر عمل کی اطلاع پولیس کو رہتی ہے، مگر افسوس ملک کی میڈیا جو حقیقت حال پر پردہ ڈالتے ہوئے دجالی چال چل کر ملک کی خالی الذہن عوام کی ذہن میں زہر گھول رہی ہے۔

Comments are closed.