ہاہاکار: قیامت سے پہلے قیامت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس نے ہاہاکار مچا رکھا ہے ، ایک اطلاع کے مطابق دنیا کے تقربیا دو سو ممالک کو اس جراثیم نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، چین سے اس وائرس نے اپنا سفر شروع کیا تھا اور دیکھتے دیکھتے اٹلی، امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سب اس کی زد میں آگیے، ہر طرف دہشت ہے ، وحشت ہے ، لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، بازار سنسان پڑے ہیں، پروازیں منسوخ ہوگئی ہیں، نئے ویزے نہیں دیے جا رہے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہوگیے ہیں، سیاحتی مقامات پر آنے جانے سے روک دیا گیا ہے ، کلبوں ، پارکوں اور سینما گھروں پر لگی پابندیوں نے لوگوں کو گناہوں سے بچنے کا موقع فراہم کیا ہے، اور ہر طرف ہُوکا عالم ہے،آمد ورفت کے تمام وسائل مسدود ہیں، اور پورے ملک میں اکیس دن کا لاک ڈاؤن چل رہا ہے ، عرب ممالک زیادہ خائف ہیں، ابوظہبی ، شارجہ ، کویت، سعودی وغیرہ میں مسجدیں اور اس کے متعلقات وضو خانے، حمام وغیرہ پر تالے پڑگیے ہیں، اذان ایک جگہ سے ہو رہی ہے اور اذان مکمل ہونے کے بعد مؤذن دوبار صلوا فی بیوتکم گھر میں نماز پڑھ لو کی آواز لگا تا ہے ، ہر اذان کے بعد یہ جملہ بولا جا رہا ہے ، گھروں میں بھی جماعت سے منع کیا جا رہا ہے ، انفرادی نمازیں پڑھی جا رہی ہیں، مصافحہ عرب ممالک میں دل سے کیا جا رہا ہے ، ہاتھ سے نہیں اور باضابطہ وزارت صحت کی طرف سے اس سلسلے میں ہدایات جاری کی گئی ہیں، ماسک لگانے پر زور دیا جا رہا ہے اور اختلاط مرد وزن تو پہلے ہی شرعی طور پر منع تھا اب اختلاط مرداں بھی ممنوع ہے ۔
یہ سب اس بیماری کے اثرات سے بچنے کے لیے کیا جا رہا ہے ، دوسری طرف مختلف قسم کے بیانات علماء میں ہر جانب سے اس بیماری کو دور کرنے کے لیے آ رہے ہیں، بولٹن برطانیہ کے ایک عالم کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے ، جس میں ہر عوامی جگہ پر مسلسل چوبیس گھنٹے اذان دینے کو کہاجا رہاہے ، کوئی گرم پانی سے غرارہ کو اس بیماری سے بچنے کا ذریعہ قرار دے رہا ہے، ہندوستان میں ہندو توا فکر کے لوگ گئو متر پینے اور گوبر کھانے سے اس بیماری کے دور کرنے کی بات کر رہے ہیں، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہاہے جس میں انہوں نے صحت کی حفاظت کی غرض سے اٹھائے گئے حکومتی اقدام کی حمایت کی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ فرائض وواجبات تو چھوڑے نہیں جا سکتے ، البتہ جتنی چیزیں سنن اور نوافل کے درجہ کی ہیں، صحت کی حفاظت کی غرض سے انہیں برتا جانا چاہیے اور حکومتی ہدایتوں کی پاسداری کرنی چاہیے، تاکہ اس مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے ۔ہندوستان کی تمام ملی تنظیمیں او راکابر علماء بھی اس پر متفق ہیں کہ احتیاط کے جتنے پہلو ہو سکتے ہیں، ان کو رو بعمل لانا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے ، جس کی وجہ سے کورونا کے جراثیم دوسروں تک منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں، اس سلسلہ میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم ، حضرت مولانا ارشد مدنی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور دوسرے علماء نے مختلف ذرائع سے اپیل جاری کی ہے تاکہ سرکار کے ذریعہ جو ضابطہ مقرر کئے جا چکے ہیں، ان پر عمل کرنا آسان ہوسکے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ جراثیم ہوا سے منتقل ہونے کے بچائے انسانی جسم ، کپڑے وغیرہ سے منتقل ہوتا ہے ، اس لیے ہاتھوں کو صابن سے دھوتے رہنا چاہیے، ڈیٹول اور دوسرے لیکویڈ ، جو اسی کام کے لیے بنائے گئے ہیں ان کا استعمال کرنا چاہیے، کھانسی اور چھینک آوے تو لوگوں سے دو میٹر کی دوری اختیار کرنی چاہیے اور دوسروں کو اسی انداز سے دوری بنانی چاہیے، کپڑے کو دھوکر دھوپ میں خشک کرنا چاہیے، فرج کی چیزوں کے استعمال سے پر ہیز کرنا چاہیے اور گلے میں کھسکساہٹ ہو ، بخار آجائے ، سانس لینے میں تکلیف ہو تو فوری طور پر ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے اور کم از کم چودہ دن آئی سولیٹ میں رہنا چاہیے ، اس ہدایت کے نتیجے میں ایئر پورٹ پر ہر آنے والے کی جانچ کی جا رہی ہے اور جس کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہوتا ہے تو اسے آئی سولیٹ کیا جا رہا ہے ، مریضوں کا حال یہ ہے کہ ذرا سی اسپتال کے ڈاکٹروں اور عملوں کی آنکھ جھپکی اور وہ وہاں سے فرار ہونے میں عافیت سمجھ رہے ہیں، دربھنگہ کے دو مریضوں کا واقعہ بہت مشہور ہوا کہ ڈاکٹروں نے اس مرض کے شعبہ میں داخل ہونے کے لیے بھیجا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ، ٹی وی چینلوں پر ان کی تلاش شروع ہوئی ، بھاگنے کے نقصانات بتائے گیے، لیکن وہ کہاں ہاتھ آنے والے تھے، اٹلی سے ایک لڑکی جو ہنی مون منا کر ممبئی آئی اور پھر آگرہ اپنے گھر والوں کے پاس پہونچ گئی اسے پولیس نے پورے گھر والوں کے ساتھ گرفتار کرکے ہوسپیٹل پہونچا دیا اور اب اس کا علاج چل رہاہے ۔
دوسروں کے بارے میں تو کچھ کہانہیں جا سکتا، لیکن مسلمانوں میں اس قدر خوف و دہشت کی بات سمجھ میں نہیں آتی، احتیاطی تدابیر کی اہمیت ومعنویت سے انکار نہیں ، یہ تو شریعت کا حکم ہے کہ وبا والے علاقے سے مت بھاگو، اور جو محفوظ ہیں وہ ان جگہوں پر نہ جائیں، اس لیے احتیاط کرنی چاہیے اور ضرور کرنی چاہیے، آج کی اصطلاح میں اسی کو کورنٹائن سے تعبیر کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہم مسلمانوں کو یقین ہے کہ موت ایک بار آنی ہے ، اور جس حالت میں لکھا ہے اسی حال میں آئے گی اور جس ’’آن‘‘ لکھی ہے وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔چچا غالب کو بھی اس کا احساس تھا ، تبھی انہوں نے کہا
موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کورونا کے اس دہشت نے ہماری آنکھوں سے نیند غائب کر دیا ہے ، ورنہ گذشتہ دوماہ میں مرنے والوں کے اعداد وشمار دیکھیں تو کرونا وائرس سے صرف۳۵۰۱۳کے قریب لوگ مرے ہیں، جب کہ دوسرے امراض سے زیادہ لوگ دنیا سے گیے ہیں، اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عام سردی ،کھانسی اور ٹھنڈک سے انہتر ہزار چھ سو دو، ملیریا سے ایک لاکھ چالیس ہزار پانچ سو چوراسی، خود کشی سے ایک لاکھ ترپن ہزار چھ سو چھیانوے ، سڑک حادثہ میں ایک لاکھ ترانوے ہزار چار سو اناسی۔ایڈس سے دولاکھ چالیس ہزارنو سو پچاس ، شراب نوشی سے تین لاکھ انٹھاون ہزار چار سو اکہتر ، نشہ خوری سے سات لاکھ سولہ ہزار چار سو انٹھانوے اور کینسر سے گیارہ لاکھ ستہتر ہزار ایک سو اکتالیس لوگ جاں بحق ہوئے ، یہ اعداد وشمار صرف دوماہ کے ہیں اور وہی ہیں جو رکارڈمیں آسکے، ان کے علاوہ کتنے وہ لوگ ہوں گے ، جن کا اندراج نہیں ہو سکا ہوگا۔
کورونا وائرس کا مطالعہ ایک دوسرے زاویہ سے کریں تو معلوم ہوگا کہ اس سے پہلے جو وائرس مثلا سارس زیکا، ریبولا ، ماربرگ ، بخار، پناہ ، کریمین کانگو بخار، انفلونزا وغیرہ نے انسانی آبادی کو موت کے منہ میں ڈھکیلا ان میں مرنے کا تناسب تیرہ فی صد سے نوے فی صد ہے، جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے موت ہوجائے، یہ امکان صرف تین فی صد ہے ، معاملہ کچھ نہیں صرف وحشت کا ہے۔اور سوشل میڈیا والے غلط صحیح خبریں نشر کرکے اس وحشت میں اور اضافہ کر رہے ہیں، اور انسان نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ موت تو جہاں کہیں تم رہوگے وہ ہر حال میں آکر رہے گی ، خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارت میں رہو، اس ارشاد کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ احتیاطی تدابیر تو اختیار کریں لیکن خوف ودہشت کو اپنے دل سے نکال پھینکیں، یہ احتیاطی تدابیر ہمارے یہاں پہلے سے رائج ہیں، اس سلسلے میں حساسیت ہماری کم ہو گئی تھی ، اس بہانے اس پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملا ہے ، صفائی ہمارے یہاں ایمان کا حصہ ہے ، وضو میں پانچ وقت ہم ہاتھ منہ دھوتے ہیں اور ناک میں پانی ڈالتے ہیں، استنجا سے فراغت کے بعد ہاتھ صابن یا مٹی سے دھونا ہمارے یہاں عام ہے ، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ ڈھکنے کا حکم پہلے سے اسلام میں موجود ہے ، اس لیے سنتوں پر عمل کیجئے اوراللہ پر یقین رکھیے اور اس سے دنیاوی بلا اور عذاب آخرت سے پناہ چاہتے رہے ، بڑی پیاری دعا ہے ، اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا وعذاب الآخرۃ۔ اللہ سب کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔

Comments are closed.