پانچ اپریل کو ہمیں کیا کرنا چاہیئے! دانشوان قوم کی خدمت میں چند معروضات

مولاناحکیم محمود احمد خاں دریابادی
جنرل سکریٹری آل انڈیاعلماءکونسل ممبئی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
میں اس بات کو کسی حد سچ مانتاہوں کہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بہت ہیں اور وہ ہمیں اور ہمارے دین کو نقصان پہونچانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی ایسے مسلم دشمن عناصر کی کمی نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ حکومت کے کئی اقدامات ایسے رہے ہیں جن کا شکار ملک کےمسلمان ہوئے ہیں، این آرسی اور این پی آر وغیرہ کا نقصان مسلمانوں کو بی بھگتنا پڑے گا ـ سابقہ حکومتوں نے بھی بہت سے ایسے کام کئے تھے جو ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے ـ ۔
وقفے وقفے سے ان تمام مسلم مخالف اقدامات کی وجہ سے ہماری پوری قوم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی حساس ہوگئی ہے، اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب حکومت عوام کے لئے کسی رفاہی کام کا اعلان کرتی ہے تو ہمیں اُس میں بھی سازشی پس منظر نظر آنے لگتا ہے، ………. بقول شاعر … مجھ تک کب اُس کی بزم میں آتاتھادورِجام ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہوشراب میں
یہ سلسلہ بہت پرانا ہے، ہمارے ہوش میں کئی مواقع آچکے ہیں، پہلے وبائی طور پر چیچک پھیلا کرتی تھی، اس میں بہت ہلاکتیں ہوتی تھیں، جو بچ جاتے اُن میں کچھ ایک اور کچھ دونوں آنکھوں سے محروم ہوجاتے، تقریبا تمام بچ جانے والے اپنے چہرے اور جسم پر اُس بیماری کے گہرے نشانوں کی وجہ سے تا حیات خوبصورتی سے محروم ہوجاتے، ایسی چیچک زدہ بچیوں کی شادیاں بمشکل ہوپاتیں ـ…….. پھر اُس کا ٹیکہ ایجاد ہوا ساری دنیا میں ٹیکہ کاری کی مہم شروع ہوئی، سب نے بلاتفریق ملک و مذہب اس سے فائدہ اُٹھایا، مگر جب مسلمانوں تک یہ مہم پہونچی تو اُن کو اِس میں مسلم دشمنوں کی سازش نظر آنے لگی، اسے مسلمانوں کی نسل کُشی کی کوشش قرار دیا گیا، چنانچہ بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی، بالاخر علماء اور خواص کی منت سماجت اور ہزار کوششوں کے بعد بادل ناخواستہ مسلمانوں نے اس کو قبول کیا ـ چیچک کے خلاف اِس عالمی مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج یہ خوفناک بیماری پوری دنیا سے ختم ہوگئی ہے اور الحمدللہ ہماری آبادی اُس وقت سے اب تک دوگنے سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ـ بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ جب طاعون کے خلاف ٹیکہ مہم چلی تھی تب بھی ایسی ہی مخالفت ہوئی تھی، اُس وقت مقابل میں انگریز تھا اس لئے ہندو بھی اس کی مخالفت کررہے تھے ـ ۔
ابھی حال میں پولیو، خسرہ مخالف مہم چلی اس کو بھی ساری دنیا نے قبول کرلیا مگر ہمیں اس میں بھی مسلمانوں کو بانجھ کرنے کی سازش نظرآنے لگی ـ حد تو تب ہوگئی جب ابھی کورونا لاک ڈاون کے درمیان حکومت نے غریبوں کو بھکمری سے بچانے کے لئے مفت راشن کی تقسیم کا پروگرام شروع کیا ہے، اس کی تفصیل حاصل کرنے کے لئے پہلے ایک فارم دیا گیا ہے ـ یہ فارم ملتے ہی ہمارے لوگوں کی سازشی نفسیات ایک بار پھر بیدار ہوگئی، اچھے خاصے پڑھے لکھوں نے بھی وہاٹس ایپ پر فارم کی تصویر بھیج کر دریافت کیا کہ اس فارم کا تعلق این پی آر سے تو نہیں ہے؟
دراصل مخالفین کی ریشہ دوانیوں نے ایک طرح سے ہمیں قومی طور ہر نفسیاتی مریض بنادیا ہے ـ ہندوستان میں فرقہ پرست ہماری مذھبی شناخت مٹانا چاہتے ہیں، بے شک ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی مذہبی شناخت کی حفاظت کریں اور الحمدللہ کربھی رہے ہیں ـ ………. لیکن مذہبی شناخت کی حفاظت کے جنون میں ہمیں حکومت کے ہر اس قدم کی مخالفت نہیں کرنی چاہیئے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو، اور نہ حکومت کے ہر اقدام کو کھینچ تان اور دور از کار تاویلوں کے ذریعئے اسلام مخالف ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ـ ۔
ان دنوں پوری دنیا وبائی طور کورونا وائرس کا شکار ہے، لاکھوں بیمار ہیں، ہزاروں ہلاک ہوچکے ہیں، ہندوستان میں بھی یہ بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے، حکومت سطح پر لاک ڈاون نافذ ہے، جس کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہورہے ہیں، اشیائے ضروریہ کی قلت ہورہی ہے، ذخیرہ اندوزی، کالا بازاری کی وجہ سے گرانی آسمان پر ہے، لاکھوں غریب بھکمری کا شکار ہونے کو ہیں، حکومت ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرپارہی ہے ـ ایسے میں وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ پانچ اپریل کو رات ۹ بجے سارے ملک میں ۹ منٹ کے لئے اندھیرا کرکے چراغ، موم بتی یا موبائیل ٹارچ وغیرہ روشن کرکے کرونا وائرس سے مقابلہ کرنے والے ڈاکٹر، نرسیں اور اس سلسلے میں کام کرنے والے انتظامیہ کے دیگر افراد کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔
وزیر اعظم کے اس اعلان کے دو مقاصد سمجھ میں آتے ہیں:
( ۱) پہلا یہ کہ کرونا سے مقابلہ کرنے میں حکومت کی بدانتظامیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانا، ملک کی اپوزیشن پارٹیاں بھی یہی کہہ رہی ہیں ـ (۲) دوسرا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے باشندوں کو نفسیاتی طور پر مضبوط کرنا، پچھلے دس دنوں سے اپنے گھروں میں محصور ملک کے کڑوڑوں باشندے مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں، ان کا مورال بلند کرنے کے لئے بعض دوسرے ممالک اٹلی وغیرہ میں بھی ایسے اقدام ہوچکے ہیں، وزیر اعظم نے انھیں ممالک کی نقل کی ہے ـ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے اس اعلان پر اعتراض ضرور کیا ہے مگر پانچ اپریل کو ۹ بجے رات اندھیرا کرنے سے انکار نہیں کیا ـ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کریں، اس پہلے وزیر اعظم نے ۲۲ مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا تھا اُس دوران پانچ بجے شام کو اپنے گھر میں تالی، تھالی یا گھنٹی بجانے کی اپیل کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے گھروں کے بجائے سڑکوں پر جلوس کی شکل میں ڈھول تاشے بھی بجادیئے ـ ۔
جنتا کرفیو میں تھالی وغیرہ بجانے والی اپیل دن کی تھی، گھروں کے اندر یا کھڑکیوں وغیرہ میں بجانے کو کہا گیا تھا، کس نے وزیر اعظم کی اپیل پر عمل کیا کس نے نہیں یہ جلدی پتہ نہیں لگ سکتا تھا ـ مگر موجودہ اپیل رات کی ہے، اور اندھیرا کرنے کی ہے، ذرا سوچئے کیسا لگے گا جب پورا شہر نو منٹ کے لئے اندھیرے میں ڈوب جائے گا بس چند مسلم علاقے روشن دکھائی دیں گے، یا مشترکہ محلوں میں تمام غیر مسلموں کے مکانوں میں اندھیرا ہوگا بس چند مسلم مکان روشن ہوں گے ـ………. آج کل ویسے بھی پورا میڈیا کرونا کو مسلمانوں کے سر مڑھنے کی کوشش کررہا ہے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانون کو پکڑ کر کورنٹین کیا جارہا ہے، ابھی اطلاع ملی ہے کہ ایک لڑکا جس نے کبھی مرکز کا منہ تک نہیں دیکھا محض مارچ کے دوسرے ہفتے میں نظام الدین اسٹیشن اُتر کر سڑک کے راستے میرٹھ چلاگیا تھا، اُس کے لاکھ احتجاج کے باوجود پکڑ کر کورنٹین میں ڈال دیا گیا ـ اِس طرح کی حرکتوں اورپروپیگنڈے سے برادران وطن میں یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی پوری قوم اجڈ، جاہل اور ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والوں پر مشتمل ہے ـ ۔
ایسے میں اگر ہم پانچ اپریل کو بھی ملکی اکثریت کے خلاف کسی الگ راستے کا انتخاب کریں گے تو یہ ہمارے حق میں قطعی مفید نہیں ہوگا، بلکہ بہت ممکن ہے ہم اُن برادران وطن کی ہمدردیوں سے بھی محروم ہوجائیں جو میڈیا کی پھیلائی گئی خرافات کے باوجود ہم سے کسی قدر یکجہتی رکھتے ہیں۔ ـ
میں زیر نظر تحریر ملت کی علماء کرام اور زعمائے عظام کی بارگاہ میں اس امید کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ ازراہ کرم موجودہ حالات کی سنگینی اور پیچیدگی پر غور فرمائیں ـ پانچ اپریل کو ہندوں کا کوئی تہوار نہیں ہے، کھنیچ تان کر محض مخالفت کے جوش میں ۹ کی اہمیت ثابت کرنا اور پھر پانچ اپریل یعنی چوتھے مہینے کی پانچ تاریخ کو جوڑ نو بنایا جارہا ہے ـ تعجب ہوتا ہے ہم کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں اتی کے ہندووں کے مذہبی تہوار انگریزی کلنڈر سے نہیں بلکہ بکراماجیت والے کلنڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں ـ ۔
اب رہ گئی دیا جلانے والی بات تو ہم دیا نہ جلائیں، حالانکہ اظہار ہمدردی و یکجہتی کے لئے موم بتی جلانا اب عالمی تہذیب کا حصہ بن چکا ہے، نربھیا حادثے اور کشمیر کی مظلومہ آصفہ کی بہیمانہ شہادت کے موقع پر بلا تفریق مذہب ملک کے لوگوں نے کینڈل مارچ نکالے تھے، این آرسی وغیرہ کی مخالفت کے لئے بھی مختلف علاقوں میں احتجاج کے لئے موم بتیاں جلائی گئیں ـ ۔
آپ اگر موم موم بتی نہیں جلانا چاہتے نہ جلائیں، موبائل ٹارچ استعمال کرلیں، وزیر اعظم نے اس کا بھی ذکر کیا ہے، ٹارچ بھی نہیں جلانا چاہتے ٹھیک ہے وہ بھی نہ جلائیں، صرف اندھیرا کرلیں، اگر کلمہ، درود، استغفار پڑھیں تو کیا حرج ہے اس موقع پر وہ بھی مناسب نہ لگے تو نہ پڑھیں بعد میں یا پہلے پڑھ لیں ـ مگر پورے ملک کی عوام کے خلاف محض حکومت کی مخالفت میں ہمیں کسی بھی ایسے قدم سے احتراز کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے ہم خدانخواستہ اپنے ملک میں سماجی طور ہر اکیلے اور اچھوت بن سکتے ہیں ـ ۔
امید ہے ہمارے ذی قدر علماء اور دانشواران میری ان کج مج معروضات پر غور فرمائیں گے۔
ـ والسلام مع الاحترام
Comments are closed.