قوم کے نام بے معنی پیغام!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
۲۲؍مارچ سے ہم ہندوستانی ملک بندی(لاک ڈاؤن)کی مارجھیل رہے ہیں، جھیل اس لئے رہے ہیںکہ سواسوکروڑکی آبادی والے ملک کالاک ڈاؤن بغیرسوچے سمجھے، بغیرکسی پلاننگ اوربغیرکسی منصوبہ بندی کے کیاگیا، ہماری طالب علمی کے زمانہ میںجب کوئی طالب علم اٹ پٹانگ حرکتیںکرتاتوہم اس سے کہتے: کیابات ہے؟ چنیّ کاٹ رہے ہیںکیا؟ لگتاہے یہاںمعاملہ وہی چنے والاہے، اِدھرچناکاٹتاہے، اُدھرمنابولتاہے۔
اس ملک بندی کے بعدلوگ جہاںتھے، وہیںتھم نہیں؛ بل کہ جم گئے تھے اورشاید طفل تسلیوںکی نتیجہ میںکچھ دن اوربھی جم جاتے ؛ لیکن پھرخبریںیہ گردش میںآئیںکہ یہ ملک بندی جون تک چلے گی، اس خبرکوتقویت ان پاسیز سے ملی، جوحکومت کی طرف سے ایمرجنسی ڈیوٹی کے لئے گاڑیوںکوجاری کئے گئے تھے، پھرمان نیہ پردھان منتری جی نے بھی تین مہینے تک مفت راشن دینے کی بات کہی،یہ اوربات ہے کہ ہمارے یہاں(جھارکھنڈ)میںراشن کی تقسیم توشروع ہوئی ہے؛ لیکن مفت نہیں؛ بل کہ اسی پرانی قیمت پر، شایدانھیںایسی حالت میںبھی ہماری مفت خوری پسندنہیں، بہرحال! تین مہینے کی ملک بندی کی خبراورپاپی پیٹ کے عدم برداشت کے نتیجہ میںلوگ سڑکوںپراس طرح نکل آئے، جیسے بل میںپانی گھسنے کی وجہ سے چیونٹیاںنکلتی ہیں۔
افرتفری اورہاؤہوکاعالم بس اللہ کی پناہ! اس صورت حال کودیکھ کربھی حکومت نے بالخصوص مرکزاوردہلی حکومت نے سوجھ بوجھ سے کام نہیںلیا، نہ توان لوگوںکے روانگی کے لئے کوئی انتظام ڈھنگ سے کیااورناہی پیٹ بھرنے کی ویسی کوشش کی، جیسی کرنی چاہئے تھی، اگرایسے وقت میںبھی ٹرین کی آمدورفت کوبحال کردیاجاتاتوشاید یہ افراتفری نہیںمچتی؛ لیکن یہ کہہ کرایسی کوشش نہیںکی گئی کہ اس سے سوشل ڈسٹینسنگ باقی نہیںرہے گی اورکورونابہت حد تک اپنے پنجے گاڑدے گا؛ حالاںکہ دلی کی سڑکیںہی گواہ نہیںہیں؛ بل کہ یوپی کابارڈر ،یوپی سی ایم کاجلوس، مدھیہ پردیش کی تقریب حلف برداری ، تالی تھالی مارچ ، کنیکاکی پارٹی اورآج کئی منادرکے پوجاپاٹ بھی چیخ چیخ کر بذریعہ تصاویر وویڈیوزیہ شہادت دے رہی ہیںکہ یہاںبھی سوشل ڈسٹینسنگ کاخیال نہیںرکھاگیااورنہیںرکھاجارہاہے، کیایہ چیزیںکوروناکے پھیلاؤ کاسبب نہیں بن سکتیں؟
جوہواسوہوا؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اب آگے کی پلاننگ کیاہے؟اس مرض کی روک تھام کے لئے حکومت نے کہاںتک تیاری کرلی ہے؟ کتنے وینٹی لیٹرس کی دستیابی عمل میں آئی؟ اس بیماری کی جانچ کے لئے کتنے کٹس فراہم کئے گئے؟ ملک کے کتنے صوبوںمیںاس کی جانچ کے لئے کتنے لیبارٹیزمہیاہوئے؟ اورکیاوہ کافی ہیں؟ ڈاکٹروں کواس بیماری سے نمٹنے کے لئے کیاتمام سہولیات فراہم کردئے گئے ہیں؟ اس لاک ڈاؤن کے نتیجہ میںملک کی ایک بڑی آبادی بھک مری کاشکارہورہی ہے، اس کے لئے صرف اعلان ہی سے کام چل رہاہے یازمینی طورپربھی کچھ کام ہواہے؟لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں، ان کے پیٹ بھرنے کے لئے گھرگھرسامان پہنچانے کاکیاانتظام کیاگیاہے؟غریب لوگوںکے گھروںمیںچراغ روشن کرنے کے لئے تیل تک نہیں، وہ مہیاکئے گئے یانہیں؟ ابھی بھی کتنے لوگ اپنے علاقوںسے دوردوسرے علاقوںمیںپھنسے ہوئے ہیں، ان کے لئے کیاانتظامات کئے گئے؟ملک بندی کے نتیجہ میںکارخانے اورفیکٹریاںبندہوگئیں، جس کے نتیجہ میںان فیکٹریوںاورکارخانوںمیںکام کرنے والے مزدوروں کے لئے کیامنصوبہ بندی کی گئی؟ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھروالوںکی بھی کفالت کرتے تھے، کیاان کے لئے صرف ایک پیکٹ کھانادے کریہ تونہیںسمجھ لیاگیاکہ ہم نے ان کے کھانے کاانتظام کردیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، یہ تمام سوالات وہ ہیں، جن پرصدق نیتی سے سوچناہے اوران کی عمل داری اورنفاذ کے لئے کوششیںکرنی اس وقت کی حکومتوںکی اولین ذمہ داری ہے۔
ملک بندی کے اس موقع سے پورے باشندگان ہندکوجوپریشانیاںہوئیں، مان نیہ پردھان منتری نے بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ جوڑکرمعافی مانگ لی، کیامعافی سے وہ پریشانیاںختم ہوجائیںگی؟ اس معافی کی مثال توبس ایسی ہے، جیسے کسی کوبلاوجہ دوتھپڑماراجائے اورپھراسے سوری کہہ دیاجائے، پھرملک بندی کے کئی دن ہی گزرے تھے کہ عوامی چندہ کی دہائی دی گئی، سوال یہ ہے کہ بیماری سے لڑنے کے لئے عوامی چندہ کی ضرورت کیوںپڑگئی؟ ہماراملک توترقی کی بلندیوںکوچھورہاہے، شائن انڈیاسے آگے قدم نکالتے ہوئے ڈیجیٹل انڈیامیںداخل ہوچکاہے، کیش لیس کی بات کی جارہی ہے، بلیٹ ٹرین فراہم کئے جانے کی بات چل رہی ہے، ہربڑے شہرکومیٹروسٹی میںتبدیل کردینے کی بات ہورہی ہے، ایک ایک لاکھ کے پن سے پروجیکٹوںاورمعاہدوںپردستخت کئے جارہے ہیں، بیرونی ممالک کے اسفارکاتانتابندھارہاہے ، بعض ممالک کے دوروںکے دوران ہرمجلس کے لئے لاکھوںکے الگ سوٹ بنوائے گئے، بیرونی ممالک کے دوروںکاصرفہ وزیرمملکت برائے امورخارجہ وی مرلی دھرن کے مطابق ۲۰۱۵ سے ۲۰۲۰تک ۵۲۔۴۴۶کروڑروپے ہیں، جس میںہوائی جہازکے رکھ رکھاؤپرہواکل خرچ شامل نہیںہے، جوعام طورپرسب سے زیادہ ہوتاہے،ملکی اسفارکے اخراجات بھی کروڑوںمیںہے، جس کی رپورٹ شایدہی دستیاب ہوسکے،ایک اسٹیچوکی صنعت گری میں تقریباًتین ہزارکروڑروپے خرچ کئے گئے،جب ہم اتنے امیرہیںتوپھراس وقت چندے کی ضرورت کیسے پیش آگئی، جس وقت قوم مصیبت میںہے؟مطلب صاف ہے کہ دل میںقوم کی کوئی اہمیت نہیں، مصیبت کی اس گھڑی میں ’’شیخ اپنی دیکھ‘‘والامعاملہ ہے،بیوقوف بناکرسیاست کی روٹی سیکنی ہے اوربس، ورنہ ایسے وقت میںدست سوال دراز نہیںکیاجاتا، جب کہ قوم کودینے کی ضرورت ہے، قوم توہمیشہ دیتی ہے ، چاہے وہ غریب ہی کیوںنہ ہو، ہرچیزپرٹیکس ہے، ماچس کی ڈبیاپربھی، توقوم توہمیشہ دیتی ہے، اب جب قوم کو دینے کی بات آئی توخودانھیںسے سوال کرکے ٹھینگادکھادیاگیا۔
مصیبت کی اس گھڑی میںقوم کودوسری چیزوںکے ساتھ تسلی کی ضرورت تھی اورہے، ہربڑے لیڈرکو، ہرممبرآف پارلیامنٹ کو، ہروزارت کے عہدہ داروںکوخصوصاً اور چھوٹے چھوٹے لیڈران کوعموماًچاہئے تھاکہ وہ اس وقت قوم کی ڈھارس بنداھاتے؛ لیکن ایساکچھ بھی نہیںہے(الاماشاء اللہ)، اورہمارے وزیرداخلہ، جن کے منھ سے سی اے اے ، این آرسی اوران پی آرکے سلسلہ میںایسی چنگھاڑنکلتی تھی کہ آدمی حواس باختہ ہوجاتاتھا؛ لیکن مصیبت کے اس موقع پرایسے غائب ہیں، جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔
ایسے وقت میںجب وزیراعظم کی طرف سے اعلان ہواکہ جمعہ کے دن نوبجے قوم سے خطاب ہوگاتولوگوںنے اپنے دل میںایک طرح کی تسلی محسوس کی، تاہم جب خطاب ہواتواکثرلوگوںنے دل میںیہی کہاکہ خطاب نہ ہی ہوتاتواچھاتھا، بہت سارے لوگوںکے ذہنوںمیںتواس نئی نویلی دلہن کاواقعہ بھی کلبلانے لگا، جس میںوہ بندکمرے کے اندربھی شوہرسے کچھ بول نہیںرہی تھی، وہ کئی بارکوشش کرچکاتھاکہ بولے؛ لیکن دلہن نے گویازبان پرتالالگارکھاہو، اچانک کمرے چوہے کا ورودمسعودہوا، اس پرنظرپڑتے ہی وہ بول اٹھی: توا…توا، شوہرنے سوچا: کاش نہ بولتی تواچھاتھا، ایساہی کچھ قوم کے ساتھ ہوا۔
لوگوںنے سوچ رکھاتھاکہ کوروناکی روک تھام کے لئے کئے گئے کاموںکی کچھ تفصیل سنائی جائے گی، ہمارے ملک میںاس کے لئے کس طرح کے انتظامات کئے جارہے ہیں، اس کی بابت کچھ وضاحت کی جائے گی، عوام جن قسم کی پریشانیوںسے جھونجھ رہی ہے، اس کے بارے میںکچھ حل ہوگا، مزدورکوجان کے لالے پڑے ہوئے ہیں؛ حتی کہ کئی بھائی بہنوںنے بھوک کی شدت برداشت نہ کرسکنے کی وجہ خودکشی تک کرلی ہے، ان کے مسائل کے حل کے لئے کوئی نسخہ بتلایاجائے گا، ملک بندی کب تک قائم رہے گی، اس پرکچھ روشنی ڈالی جائے گی، پولیس کی طرف سے جوزیادتیاںہورہی ہیں، ان کے بارے میںخفگی کااظہارکیاجائے گااورآئندہ ایسانہ کرنے کاحکم دیاجائے گا، ملک کے اس کونے سے لے کراس کونے تک ، کوروناکے تعلق سے ایک خاص طبقہ پرمیڈیاکی طرف سے نشانہ سادھاگیاہے اورعام پبلک کے ذہنوںمیںان کے خلاف نفرت کی بیج بوئی گئی ہے، اس پر کچھ سرزنش ہوگی، مصیبت کی اس گھڑی میںبھائی چارہ کوفروغ دینے اوراپنے دلوںمیںایک دووسرے کے خلاف نفرت نہ پیداکرنے کی کچھ بات کی جائے گی، کورونا کی وجہ سے جوموتیںہوئی ہیں، ان پرآنسوبہایاجائے گااوران کے گھروالوںکے لئے پیکج دیاجائے گا، کوروناکے تعلق سے فری چیک اپ کی بات بتائی جائے گی، قوم سے یہ کہاجائے گاکہ آپ کوگھبرانے کی ضرورت نہیں، ہم ہرطرح کی مددکے لئے تیارہیں؛ لیکن یہ کہا؟ یہاںان میںسے کسی پربات تودرکنار، اشارہ اورکنایہ بھی اس کی طرف نہیںکیاگیا؛ بل کہ گزشتہ تالی تھالی کے پیغام کی طرح ’’دیاموم جلانے ‘‘کاپیغام دے کرپوری قوم کومایوسی کے گہرے غارمیںدھکیل دیاگیا۔
اس سے قبل تالی تھالی کاپیغام دیاگیاتھا، کیااس سے کورونابھاگ گیا؟ کیااس سے ان لوگوںکوکھانامل گیا، جوبھوک سے مررہے ہیں؟ جوکوروناپازیٹیوہیں، کیااس تالی تھالی سے ان کامرض ٹھیک ہوگیا؟توپھردیاموم جلانے سے وہ کیسے بھاگ سکتاہے؟ وہ کوئی شیرنہیں، جوآگے سے ڈرکربھاگ جائے، وہ کوئی بھوت پریت نہیں، جوآگ دیکھ کرڈرجائے، وہ وائرس ہے، ایک نہ دکھنے والاوائرس، اس کی روک تھام کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے چاہئیں، نہ کہ ’’مجذوب کی بڑ‘‘کی طرح الٹے سیدھے پیغام دے کرقوم کوالوبنانا چاہئے، آج کی سائنسی زمانہ میںمودی جی وہ بات کررہے ہیں، جوصدیوںزمانہ پہلے کاہن کیاکرتے تھے، سچائی سے پردہ پوشی کرکے اندھ وشواشی کی طرف آج کے دورمیںلے جانے کی کیاضرورت ہے؟ اکثرلوگ توسمجھ رہے ہیں؛ لیکن کچھ اندھ بھگت ہیں، جوبالکل بھی سمجھنے کی کوشش نہیںکررہے ہیںاوروہ سمجھیںگے بھی نہیںکہ ان کے اندراندھ بھگتی کاوائرس جڑپکڑچکاہے، جس کاعلاج کسی میڈیکل سائنس میںنہیں۔
Comments are closed.