مشعل جلانے کی اپیل؛ درپردہ حقیقت اور مسلمانوں کا رد عمل

سعد مذکر قاسمی
بٹلہ ہاؤس، اوکھلا، نئی دہلی
[email protected]
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہما را ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ وہاں کے باشندوں کو کھانے ، پینے، بولنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا یکسا ں موقع فراہم ہوتاہے۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ ہمارا یہ ملک کسی مخصوص طبقے یا مذہب کے ماننے والوں کے لیے مختص نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں تعداد کے اعتبار سے ایک قوم کو اکثریت کا درجہ تو دیا جا سکتا ہے، لیکن اس اکثریت کی بنیاد پر اسے غالب مان لیا جائے، نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ یہ جمہوری آئین کے منافی ہے۔
جمہوری نظام میں رہنے والوں کو مختلف طرح کی آزادی حاصل رہتی ہے ۔ اور یہ آزادی کئی طرح کی ہوتی ہے، جن میں بطور خاص مذہب کی آزادی ہے، یعنی ہر شخص اپنے دین اور مذہب پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا مجاز ہوتاہے۔ اس آزادی میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ؛ کہ کسی شخص کی شخصی آزادی کے استعمال کے وقت دوسرے کی آزادی خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی متاثر نہ ہو؛ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص اپنی شخصی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے، بیہودہ گوئی اور دشنام طرازی کو اپنا شیوہ بنا لے ، جمہوریت میں اس کی قطعی اجازت نہیں ہے ، کیونکہ اس طرح کی غیر معقول حرکتوں سے ممکن ہے دوسروں کی دل آزاری ہو، اور اس سے انکی بنیادی آزادی پر چوٹ پڑے جو یقینا جمہوریت کے منافی ہے۔ اسی طرح جمہو ریت میں دوسری خاص بات یہ کہ کوئی شخص، جماعت یا تنظیم اپنے نظریات کو دوسروں پر تھوپ نہیں سکتی ، ہاں اگر آپسی رضامندی سے یہ عمل ہو تو جمہوریت میں اس کی گنجائش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جمہوری ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے فرامین یا احکامات جاری نہ کریں جو کسی کی شخصی یا اجتماعی آزادی سے ٹکرائے۔ اور ایسے قانون تشکیل نہ دیں جو جمہوریت کو کھوکھلا کرنے میں محرک ثابت ہو۔
پچھلے دنوں ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی جانب سے یہ درخواست کی گئی کہ کرونا نامی مہلک وبا سے محفوظ رہنے کے لیے جہاں دیگر تدابیر اختیار کی جارہی ہیں وہیں ایک یہ عمل بھی کیا جائے کہ مخصوص وقت میں مخصوص لمحے تک گھروں کو چراغاں کیا جائے، اس سے من کو شانتی اور روح کو تازگی ملے گی، اسی طرح کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے نیا حوصلہ پروان چڑھے گا۔
اس سے قطع نظر کہ یہ ہندوؤں کا مذہبی عمل ہے یا نہیں ہے، اولا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ کیا یہ عقلا درست ہے بھی یا نہیں ؟ اگر واقعی چراغاں کرنے سے ہی مذکورہ فوائد کا حصول ممکن ہوگا تو جس قدر روشنی موم بتیوں میں ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ گھر کے بلب اور مرکری میں ہوتی ہے، اگر روشنی ہی مطلوب ہے تو چراغ اور موم بتی میں کون سی خاص بات ہے جو بلب اور مرکری میں نہیں؟ ہندوستان کے وہ علاقے جہاں آج بھی غروب آفتاب کے بعد لالٹین اور چراغوں سے گھروں کو روشن کرتے ہیں؛ وزیر اعظم کی مشورے پر کیسے عمل کریں گے؟ یا یہ کہا جائے کہ کرونا وائرس سے وہی علاقے اور گھر جوجھ رہے ہیں جہاں برقیاتی نظام موجود ہے۔
ان ہی بنیادوں پر یہ کہا جا سکتا ہے یہ ہندوؤں کے مذہب کا کسی نہ کسی درجے میں حصہ ہے، اس عمل میں مخصوص وقت اور میعاد کی قید بھی یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ مذہب کی آمیزش ضرور ہے۔ ممکن ہے ان کی مذہبی کتابوں میں اس کا ذکر نہ ہو، لیکن ان کے معاشرے میں اس کا چلن ضرور ہے، یہی وجہ ہے کہ اس اعلان کے معا بعد بہت سے ہندوؤں نے اس کے فضائل اور طریقہ کار بھرپور وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔
گرچہ وزیر اعظم کی یہ درخواست ہے ، کوئی فرمان نہیں ہے، مگر اس پر جس طرح ہنگا مہ کیا جارہاہے، اسکا ملکی سطح پر اہتمام کیا جارہاہے، میڈیا کے توسط سے اسکی فضیلت بیا ن کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے بہت سے سادہ مزاج اور خالی الذہن حضرات اس کو لازمی حکم سمجھنے لگے ہیں۔ اس سے کسی نہ کسی حدتک جمہوریت کی روح کے منافی عمل کہا جاسکتاہے۔ کیونکہ یہ گرچہ زبردستی نہیں ہے مگر مخصوص نظریے کو تھوپنے کےلیے اس طرح کے عوامل پیدا کیے جارہے ہیں جو زبردستی کے مترادف ہے، اور یہ یقینا جمہوریت کے منافی عمل ہے۔
اب ایسے میں مسلمانوں کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر مذکورہ عمل کریں تو ظنی طور پر ہی سہی تشبہ بالغیر لازم آئےگا، دوسرے یہ کہ اسلام میں اس طرح کے عمل کے لیے کوئی خاص دن اور وقت مکو خصوص کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ خیر و شر پر کلی اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، نہ کہ کسی اور کو۔ اب بڑا مسئلہ یہ کہ ان چیزوں کی بنا پر اگر مسلمان مذکورہ عمل سے باز رہیں تو قدامت پسند، ملک دشمن اور وزیر اعظم کے ناقدرے گردانے جائیں گے ، جیساکہ آج کل میڈیا کے توسط سے اس کام کو بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہاے۔
اس لیےاس صورتحال میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عقیدت سمجھ کر اس عمل کو نہ کریں، البتہ اظہار یک جہتی کے لیے اتنا کیا جا سکتا ہے کہ گھر کے صرف بیرونی بلب وغیرہ گل کر دیے جائیں، اور ہندو اکثریت علاقے میں مصلحتاً ساری بتیاں تو بجھا دی جائیں لیکن کسی طرح کا کوئی چراغاں نہ کیا جائے، ہاں دیگر مشغولیات یا دعا و استغفار کا اہتمام کر لیا جائے تو بہت بہتر ہے۔

Comments are closed.