ماسک

محمد سیف اللہ ﴾ ،رکسول
ہند نیپال کے سرحد پر واقع رکسول اسٹیشن کے چند ہی قدم فاصلے پر پريوا دھالہ کے نزدیک تقریبا دس یا بارہ سال کا ایک بچہ اپنے گھر میں ہی سلےہوئے کپڑے کے ماسک فروخت کر رہا تھا ،میں نے اپنی بائیک روک کر بچے سے ماسک کی قیمت پوچھا ، اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ انکل آپ کے لئے تیس روپیہ میں دے دوں گا ، میں نے اس سے پھر سوال کیا کہ میرے لئے کیوں؟ مجھے تو تم جانتے بھی نہیں ہو؟ اور میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ اس نے پھر مجھے کہا کہ آپ مجھے بیس روپیہ ہی دے دیجئے ، اس بچے کی بات سے مجھے کچھ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ آجکل لوک ڈاؤن میں کم قیمتوں پر فروخت کرنا اس کی مجبوری ہو سکتی ہے، لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو اس سے پیچھا چھڑانے کی غرض سے کہا کہ بیٹا میرے پاس تو بیس روپے بھی نہیں ہے، یہ بات سننے کے بعد وہ بچہ کبھی میری طرف دیکھتا تھا اور کبھی میرے بائیک کے طرف ،اسی دوران میں نے اس سے پھر پوچھا کے کیا ہوا کیا دیکھ رہے ہو، ابھی میں نے اپنی بات بھی نہیں ختم کر پائے تھے کہ اس نے ایک ماسک میرے ہاتھ میں پکڑا دیے یہ کہتے ہوئے کے کہ انکل آپ اسے ایسے ہی لے جائیں جب کبھی پیسے ہوں تو دے دینا ، میں اس ماسک کو اپنے ہاتھ میں لے کر سوچتا رہا ، کیونکہ میری اور اس کے سوچ میں کوئی تال میل ہی نہیں تھی مجھے اپنے سوچ سے لوک ڈاؤن میں کم قیمت پر بیچنا غریب کی روٹی دیکھائی دے رہی تھی، لیکن میں اس کے معصوم چہرے کی طرف ایک بارپھر متوجہ ہوتے ہوئے سوال کیا، بیٹا یہ ماسک تم کہاں سے لائے ہو ؟ اس نے بڑی معصومیت سے مجھے جواب دیا، انکل آج کل کرونا کے قہر سے سارے لوگ پریشان ہیں اور ہم تو ایک غریب آدمی ہیں میرے والد تقریبا تین سال قبل ٹی بی کی مرض میں مبتلا ہوئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اسی حالت میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے، یہ ماسک میری بوڈھی ماں گھر میں سلتی ہے اور میں اس کو فروخت کرتا ہوں، واپسی میں ان ہیں بیکے ہوے پیسوں سے کل کے بننے والے ماسک کا پہلے کپڑے خرید لیتا ہوں ہو اور پھر جو پیسہ بچتا ہے اس کا کھانے پینے کا سامان خرید لے جاتا ہوں، جس سے ہم لوگوں کی زندگی بسر ہوتی ہے، بچے کی یہ بات سن کر گویا میرے پاؤں کے نیچے کی زمین کھسک گئی ہو اور مجھے لگنے لگا گا کہ میں کسی بچے سے خواب میں بات کر رہا ہوں ، پھر میں نے اس بچے سے سوال کیا کہ بیٹا اگر یہ ماسک تم مجھے بغیر پیسہ لیے دو گے تو پھر تم کھاؤ گے کیا؟ اور تمہاری ماں تو تم سے بہت ناراض ہونگی، میری بات شاید ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس چھوٹے سے بچے نے اپنا معصوم سا چہرہ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے مجھے بہت ہی معصومیت سے کہا انکل رزق تو وہ اوپر والا ہی دیتا ہے،آپ میری فکر نہ کریں، جب میں اپنے گھر سے یہ ماسک بیچنے چلا ہوں تو امی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس پیسے نہ ہو تو اسے ایسے ہی دے دینا، اتنی ویبا جو پھیلی ہوئی ہے ۔
جی ہاں یہ اس قوم کی ماں ہیں جس نے فاقوں سے مجبور ہو کر کپڑوں کے ماسک سی سی کر اپنے معصوم سے بچے کو چوراہے پر مزدوری کے لئے بھیجتی ہے،اور انسانیت کی فکر کرتے ہوئے کے اس وبا کے دنوں میں کوئی ضرورت مند ایسا ہو سکتا ہے جس کے پاس ماسک خریدنے کو پیسے نہیں ہوں تو پھر اسے بے غیرت قیمت لیے اپنا سامان دینے کی سبق سکھا کر بھیجتی ہے ۔
یہ وہی قوم ہے جو غربت اور بھوک سے سے لڑتے ہوئے بھی دوسروں کا احسان کرنا نہیں بھولتی ، یہ وہی قوم ہے جن کی مائیں اپنے بچوں کو حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی ماں کی طرح سچ،حق اور انصاف کا سبق سکھا کر دنیا میں رزق تلاش کرنا ہے یا دیگر شعبوں میں بھیجتی ہیں، یہ اسی قوم کی مائیں ہیں جو اپنے اولادوں کو وطن پرستی اور انسانیت کا درس سکھاتی ہیں ۔
قربان جائیں اس قوم کی ایسی ماؤں پر جس نے فاقہ کشی کی حالت میں بھی نہ تو انسانیت بھولی اور نہ ہی وطن پرستی، میں اب یہ یہاں بتانا مناسب نہیں سمجھتا ہوں کہ اس معصوم سا بچہ نے میری مدد کی یا پھر میں نے اس بچے کی،لیکن ایک صحافی ہونے کی اتنا ضرور کہوں گا کہ اس پرآشوب دور میں جب اللہ کے نہ دیکھنے والے وائرس نے دنیا کے سارے انسانوں کو جانوروں کی طرح اپنے اپنے گھروں میں ٹھوس رکھا ہے،اور چہار جانب افراتفری کا ماحول ہے،قیامت کی طرح افراتفری کا ماحول ہے،کوئی کسی کا پرسان حال نہیں نہیں ہے،ی ہم اپنے ہی گھروں میں میں بالکل جدا جدا ہیں۔
ایسے حالات میں جبکہ ہر انسان اپنے اپنے دھرم اور مذہب کے حساب سے اپنے اپنے رب کو منانے میں لگا ہے ، تعجب اس بات پر ہے ہے کہ جہاں پوری دنیا پر قاری الہی برپا ہے باوجود اس کے بھی چند بےحس ، مفاد پرست ، بکے ہوئے امن کے دشمن،شیطان نما لوگ پورے ملک کی فضا کو زہر آلود بنا دینے میں لگے ہوئے ہیں، پورے ملک میں ذات دھرم کے نام پر ایک دوسرے سے لڑوانے اور دنگے کروانے میں اپنی پوری طاقت جکونک دیے ہیں ہیں، انہیں اب نہیں انسانیت سے کوئی مطلب رہ گئی ہے اور نہ ہی وطن سے۔
کاش کہ یہ انسان نما بھیڑیے درندے،یہ انسانی خون کے سوداگر ان پڑھوں غریبوں مظلوموں بیواؤں یتیموں بے کسوں بے بسوں سے بھی انسانیت اور وطن پرستی کے درس سیکھتے، اور ایک بار پھر ہر دیش واسی اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ۔
Comments are closed.