اختلاف آراء اور ملت اسلامیہ کی کشمکش

مولاناراشد اسعد ندوی
( امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی)
کورونا وائرس (این کووڈ ١٩) بھیانک وبائی مرض اور خوفناک متعدی بیماری ساری انسانیت کے لیے قہر خداوندی و غضب الہی تو ہے ہی؛ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے مزید ابتلا و آزمائش کا سبب ہے، چنانچہ” مصیبت بالائے مصیبت” کے بمصداق ہمارے ملک بھارت کے وزیراعظم کے عجیب و غریب فیصلے اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں قائدین ملت اسلامیہ کی الگ الگ آراء اور مختلف و متنوع فیصلے دل دردمند کے لیے درد و کرب اور رنج و الم کا باعث ہیں؛ کورونا وائرس 19 کی روک تھام کے سلسلہ میں وزیر اعظم کی طرف سے جنتا کرفیو اور اس کے اختتام پر شام ٹھیک پانچ بجے جشن تالی و تھالی اور پھر اس کے بعد اچانک لگاتار اکیس دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس کی وجہ سے مذہبی عبادت گاہوں؛ مسجد مندر چرچ اور گردوارہ سب بند کر دیے گئے پھر تقریبا ساٹھ گھنٹہ پہلے ملک کے وزیر اعظم نے ایک اور عجیب اعلان کیا کہ پانچ اپریل کو رات میں نو بجے نو منٹ تک عوام اپنے گھروں کی لائٹس آف کرکے اندھیرا کریں اور گھروں کھڑکیوں اور بالکونیوں میں موم بتی، دیا و چراغ یا موبائل کی ٹارچ جلائیں.
وزیر اعظم کے ان مذکورہ اعلانات میں بالترتيب تین شرعی امور میں رہنمائی مطلوب تھی:
1) جنتا کرفیو کے اختتام پر مسلمان کیا کریں؟ تالی اور تھالی بجائیں یا اذان دیں؟
2) لاک ڈاؤن کے دوران مسجد میں باجماعت نماز بطور خاص نماز جمعہ کا حکم کیا ہے؟
3) 5/ اپریل کو رات میں نو بجے مسلمان کیا کریں اندھیرا کرکے موم بتی وغیرہ جلانے میں شرکت کریں یا نہ کریں؟؟
22 مارچ کو شام میں پانچ بجےجنتا کرفیو کے بعد مسلمان تالی یا تھالی بجائیں یا اذان دیں اس سلسلہ میں قائدین ملت اسلامیہ میں سے کسی قابل ذکر شخصیت کی طرف سے کوئی رہنمائی یا ہدایت ہماری معلومات کے مطابق نہیں آئی تھی اسی وجہ سے مسلمانوں میں سے جس کو جو سمجھ آیا اس نے اس کو اپنے طور سے انجام دیا؛ کسی نے تھالی بجانے کا تماشہ کیا تو کسی نے اذان دے کر اور دعاؤں کا اہتمام کرکے اپنی دینی بیداری کا ثبوت دیا۔
دوسرا انتہائی اہم بلکہ مہتم بالشان امر مسجد میں نماز باجماعت کا تھا اس سلسلہ میں اصحاب افتاء نے زبردست فقہی بصیرت اور حالات حاضرہ کے تقاضوں کے پیش نظر مساجد کو بند کر دینے اور عمومی نماز باجماعت موقوف کردینے کا فتویٰ دیا آگے چل کر جب نماز جمعہ کا مسئلہ آیا تو مفتیان کرام کے مابین جمعہ کے روز نماز جمعہ پڑھنے اور نماز ظہر ادا کرنے میں اختلاف نظر آیا نیز ظہر کی نماز الگ الگ پڑھنے اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے سلسلہ میں بھی الگ الگ رائے سامنے آئی۔
تیسرا انتہائی نازک اور حساس مسئلہ ظلمات وانوار کا مسئلہ تھا یعنی 5 اپریل کو رات میں نو بجے اندھیرا کرنے اور موم بتی وغیرہ سے روشنی کرنے کے سلسلہ میں ہدایت و رہنمائی کا مسئلہ تھا اس سلسلہ میں قائدین ملت کی صف اول کی قد آور شخصیت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی حفظہ الله ورعاہ کا دو ٹوک ایمان افروز اور ملک و ملت کے لیے مشعل راہ کی حیثیت کا بیان منظر عام پر آیا جس میں کہا گیا کہ’’مسلمانوں کو یہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ملک کی صحت کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ اسی اثناء ممبئی شہر کی مشہور و معروف شخصیت اور سیاسی و سماجی رہنما مولانا محمود خان دریاآبادی دامت برکاتہم کی تحریر شائع ہوئی جس میں ایک الگ زوایہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی تھی ان کا مشورہ بھی مرکز نظام الدین کے قضیہ نامرضیہ کی وجہ سے ( ملک کے منظر نامہ کے اچانک بھیانک شکل اختیار کر لینے کے سبب) لائق اعتناء اور قابل غور تھا جس کے نتیجہ میں شرعی اصول و ضوابط سے ہم آہنگ کوئی مثبت شکل نکالنے کے امکانات تھے، مگر افسوس کہ 5 اپریل کا دن ملت کے ایمان و اسلام کے سلسلہ میں بھیانک مستقبل کی پیشین گوئی کرکے گذر گیا نہ مولانا محمد ولی رحمانی کے بیان پر مکمل عمل ہوا اور نہ ہی مولانا دریا آبادی کا مشورہ قبول کیا گیا جس کی وجہ سے ملک کی بعض مؤقر شخصیات اور مشہور ادارہ میں ظلمات کا تماشہ کیا گیا۔
اگر ہم مذکورہ بالا تینوں شرعی امور اور ان کے سلسلہ میں جاری بیانات کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور سے احساس ہوگا کہ ہماری قیادت کی صف میں اختلاف آراء( جو فطری بھی ہے) پایا جاتا ہے مگر اس کو دور کرکے آراء کی ہم آہنگی کے لئے رسل و رسائل کی کثرت اور ان کی فراہمی کے باوجود بر وقت کوئی اقدام نہیں کیا جا تا ہے اور اس کے لیے ہماری قیادت کے پاس کوئی مضبوط لائحہ عمل اور طریقہ کار بھی نہیں ہے الا ماشاء اللہ جس کی وجہ سے بار بار یہ احساس قلب و دماغ پر کچوکے لگاتا ہے ’’ملت اسلامیہ ہندیہ کا شیرازہ مکمل طور سے بکھر چکا ہے اور امت زبردست انتشار کا شکار ہو چکی ہے ملت کی نیا بھنور میں ہے اور امت کا ستارہ گردش میں ہے‘‘۔
افسوس کہ پچیس کروڑ مسلمانوں کا کوئی متفق علیہ مرکز یا سینٹر یا شخصیت اور جماعت نہیں ہے جس کی ہدایت و رہنمائی روز مرہ پیدا ہونے والے نت نئے دینی و ملی مسائل میں بیک وقت بلاامتیاز مسلک و مشرب قابل عمل ہو اگر ایسا ہوتا تو شاید ملت اسلامیہ جدید مسائل اور ماڈرن چیلنجز میں کشمکش کا شکار نہ ہوتی اور ایمان و کفر کے دو راہے پر بے یار و مددگار اور بے سہارا و بے آسرا نہ کھڑی رہتی ۔
ابھی بھی ہمیں موقع اور مہلت حاصل ہے اور بتان رنگ و بو کو پاش پاش کرکے متحد و متفق ملت بن جانے کا وقت میسر ہے۔
ہم قائدین ملت اور اکابرین امت سے عاجزانہ درخواست کرنا اپنا دینی و ملی حق سمجھتے ہیں اور’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ عرض کرتے ہیں کہ خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے سے پہلے اسوہ حضرت حسن کا احیا کریں، صفوں میں ایسا اتحاد و اتفاق پیدا کریں کہ دینی و ملی مسائل میں ملک کے طول و عرض میں ایک ہی بات چلے تاکہ امت کشمکش کا شکار نہ ہو۔
اس موقع پر میں اس احساس کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی بھی پیش آمدہ دینی و ملی مسئلہ پر لیٹر پیڈ پر جاری بیانات اور اعلانات، ساتھ ہی ساتھ ہر کس و ناکس کے آڈیوز اور ویڈیوز اس کثرت سے شائع ہونے لگتے ہیں کہ اس میں ایک عام آدمی زبردست کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خواص کو بھی پریشاں خاطري ہونے لگتی ہے اس سلسلہ میں بھی روک تھام بلکہ مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ہر گلی کوچہ میں نت نئی تنظیم اور بے شمار کاروان و جماعت وجود میں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی مسائل و مشکلات پیدا ہو رہے ہیں اس طرف بھی توجہ دیتے ہوئے اس سیلاب بلا خیز کو روکنے کی ضرورت ہے۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف * آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
Comments are closed.