کیک سے لیمپ تک کا سفر

تحریر ـــ شہلا کلیم
ایک شہرت یافتہ ، تاریخ ساز اور انسانیت سوز جملہ ہے:
"If they have no bread, let them eat cake.”
پس منظر ہے؛ اٹھارہویں صدی کے اواخر کا عہد، فرانس میں ظالم و جابر اور نا اہل حاکم لوئی سولہویں کا دور حکومت، اقتدار کے ظلم و جبر کو جھیلتے نچلے طبقے کی جانوروں سے بد تر زندگی، پڑھے لکھے با فہم و با صلاحیت وسط طبقے کی لاچاری، بھوک، افلاس اور بے جا خراج تلے دبی کچلی عوام پر ظالم حکمراں اور اعلی طبقے کی بربرتا، اور ان تمام تر حالات سے انجان و بےخبر شاہی خاندانوں اور حکمرانوں کی عیاشی!
ان حالات میں جب شاہی سواری فرانس کی سڑکوں پر نکلی تو بھوک سے تڑپتی غریب عوام "روٹی دو، روٹی دو” کے نعرے لگاتے ہوئے راجا رانی کی شاہی سواری کے پیچھے دوڑ پڑی ـ بھوک کے احساس سے عاری ، افلاس کے دکھ سے انجان اور اپنی بھوکی ننگی عوام کے درد سے بے خبر رانی نے یہ تاریخ ساز اور انسانیت سوز جملے کہے: "اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے؟”
یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر کا حیوانی اور تاریخی جملہ ہے ـ اگر موجودہ عہد کو اکیسویں صدی کے اوائل کا عہد مان لیا جائے تو درمیان میں تقریبا دو مکمل صدیاں بیت گئیں ـ سائنس کہتی ہے کہ دھرتی چوبیس گھنٹے میں اپنے مدار پر ایک گردش مکمل کرتی ہےـ پھر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گزشتہ دو صدیوں پر محیط طویل مدت میں زمانے نے کتنی گردش کی اور دنیا ترقی کے کس مقام تک پہنچ گئی ـ لیکن آج ہندوستان پر وہی دو صدی پرانا نا اہل ، عیاش، غریب و مفلس اور ننگی بھوکی عوام کے دکھ درد سے انجان و بےخبر حاکم مسلط ہے جو اکیسویں صدی کے اس فاسٹ ٹیکنالوجی عہد میں جب کہ روئے زمین کا حقیر و فقیر سا ملک بھی سوپر پاور بننے کی دوڑ دھوپ میں لگا ہے ہمیں واپس صدیوں پیچھے جہالت کے اندھکار میں دھکیلنے کی سازش رچنے میں مگن ہے چنانچہ جب وبا کے دنوں میں بھوک سے ٹرپتی بلکتی بے روزگار عوام روٹی کپڑے اور مکان کا سوال کرتی ہے تو وہ ان کی بے بسی کا مضحکہ اڑاتے ہوئے جوابا تالیاں اور تھالیاں بجانے کا حکم صادر کر دیتا ہےـ لیکن گزشتہ عہد اور موجودہ دور کی عوامی تکالیف میں ایک بڑا فرق ہےـ فرانس کے راجا کی عوام کو ظالم حکمراں کے ہاتھوں دئیے جانے والے زخموں پر مرہم رکھنے کیلیے لینن اور مارکس جیسے رہنما میسر تھے جنہوں نے اپنے فہم و قلم کو تحریک بنا کر غریب، مزدور اور مظلوم طبقے کی مسیحائی کی اور اپنی حکومت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا نتیجتا عوام ظالم اقتدار کے خلاف بغاوت کا پرچم لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی اور پھر فرانس کے بطن سے ایک ایسے انقلاب نے جنم لیا جسے دنیا نے دیکھا اور سراہا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک انقلاب کا استعارہ بن کر دنیا پر چھا گئی ـ
لیکن ہمارے حالات اس کے بلکل بر عکس ہیں ـ موجودہ ہندوستان میں "کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی ” سے بھی بدتر معاملہ ہےـ یہاں زخم پر مرہم رکھنے والے مسیحا تو کجا نمک پاشی کرنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں ـ قلم و قرطاس؛ جس کے ذمے غریب ، ان پڑھ اور حقوق سے محروم بے بس عوام کی قوت گویائی بننا تھا، صحافت؛ جسے اندھیری بستیوں کے مکینوں کی راہ میں قندیلیں روشن کرنا تھی اور میڈیا؛ جسے آج کے ترقی یافتہ عہد میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور جس کے کاندھوں پر عوام کے بدتر حالات کا انکشاف اور ان کے حقوق کو طلب کرنے کی ذمےداری تھی ، صد افسوس کہ وہی جمہوریت کا چوتھا ستون اقتدار کے آگے سجدہ ریز ہے اور اپنی بقا، شہرت اور دولت کی خاطر حکومت کے تلوے چاٹنے میں مگن ہے!
وبا کے دنوں میں جب کہ دنیا لاک ڈاؤن کے عمل سے گزر رہی ہے وبا کی بجائے بھوک سے خوفزدہ غریب اور مزدور طبقہ شہروں سے دیہات کی طرف ہجرت پر مجبور ہےـ اور میڈیا طویل سفر پر گامزن ان پا پیادہ، آبلہ پا بھوکے مہاجروں کے پاؤں کے چھالے حکومت کو دکھانے کی بجائے اس وبا کی ساری مصیبتیں ایک مخصوص طبقے کے سر منڈھنے میں دل و جان سے مصروف ہےـ انہیں مذہب کے پلے کارڈ سے فرصت ملے تو علم ہو کہ مصیبتیں کسی مخصوص مذہب قوم یا فرقے سے نہیں بلکہ رہنماؤں کی نااہلی سے پیدا ہوتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج سوپر پاور گھٹنوں پر نہ آ گیا ہوتاـ
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حکومت کمال ہنر مندی سے اپنی نااہلی کی پردہ پوشی کی خاطر ہر مرتبہ مسلمانوں کا گوشت لگی ہڈی میڈیا نامی کتے کے آگے ڈال دیتی ہےـ وہ اس پر بلا جھجھک جھپٹ پڑتے ہیں اور اس چھینا جھپٹی میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ انہیں وہ معصوم بھی دکھائی نہیں پڑتی جو بھوک سے مجبور اور بے حال ہو کر ایک کتے کے آگے پڑی روٹی کا ٹکڑا اٹھا کر کھانے پر مجبور ہےـ نتیجتا یہ دردناک تصویر کسی گمنام اخبار کے ایک ٹکڑے پر حاشیے کی خبر بن کر رہ جاتی ہےـ اور میڈیا اسی ہڈی کی چھینا جھپٹی میں کچھ یوں مگن ہے؛ مسلمان ہے! جہادی ہے! مار دو! کاٹ دو!
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بیتی دو صدیوں میں دنیا ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچی کہ اہل خرد پکار اٹھے: "عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں” پھر آج کے ظالم حکمراں کے جملے ترقی یافتہ کیوں نہ ہوتے چنانچہ وہ بیتی صدیوں پرانے حیوانی جملوں میں ترمیم کرکے نئی اور ترقی یافتہ شکل کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتا ہے اور جب دہائیاں دی جاتی ہیں بھوکے پیٹ اور سُونے چولہے کی تو وہ جوابا کہتا ہےـ
"If their stoves don’t burn, let them burn the lamp.”
زمانے نے لاکھ ترقی کر لی ہو لیکن ہمارے نزدیک یہ محض "let them eat cake” سے "let them burn the lamp” تک کا سفر ہے!
Comments are closed.