Baseerat Online News Portal

شب برأت؛ وباء کے درمیان وفاو عطاء کا اعلان

نوائے بصیرت
غلام مصطفی عدیل قاسمی
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ملی بصیرت ممبئی و جنرل سیکرٹری رابطہ صحافت اسلامی ہند

آج شعبان المعظم کی تیرہویں تاریخ ہے کل شب برأت آنے آنے کو ہے، ویسے تو اللّٰہ پاک ہمیشہ اپنے در کو کھولے رہتا ہے اور اپنے بندوں کو اپنے خزانے سے نوازتا رہتا ہے، احادیث مبارکہ سے اس رات کی فضیلت ثابت ہے، چنانچہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا یوں فرماتے ہیں” (اے عائشہ )جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟ میں نے(حضرت عائشہ صدیقہ نے) عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں ، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں“۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس مبارک و فضیلت والی رات میں جہاں لاکھوں خلقت رحمت باراں سے سیراب ہوتی ہے وہیں وہ بدقسمت لوگ جو اپنے دلوں کو کینہ، عداوت، بعض و دشمنی سے بھرے رکھتے ہیں وہ اس رات کی فضیلت سے محروم رکھے جاتے ہیں، حالانکہ ایک مومن کامل کی نشانی یہ ہے کہ اس کا دل ہر طرح کی کدورتوں سے پاک رہے، کیونکہ یہی پروردگار کا حکم اور شریعت کا تقاضا ہے، چنانچہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللّٰہ پاک کہتا ہے "میں نہ زمینوں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں بلکہ میں بندہ مومن کے قلب میں ہوتا ہوں” اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ مومن کا دل درحقیقت اللہ کا گھر ہے، ہم اپنے دنیاوی مکانات کی تو روزآنہ صبح وشام جھاڑو پوچھا لگا کر صفائی کر لیتے ہیں لیکن جس (قلبِ مومن) کے بارے میں اللّٰہ کہتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے، میں یہاں ہوتا ہوں، اس کی صفائی و ستھرائی سے ہم  کس قدر غافل ہیں ہم سب بخوبی جانتے ہیں، اب چلیے جانتے ہیں کہ شب برأت کے سلسلے میں احادیث میں مزید کیا وارد ہوا ہے، تو ایک اور حدیث مبارکہ سے اس رات کی اہمیت و فضیلت کا پتا چلتا ہے چنانچہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالی کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب ؟! کہ میں اس کی مغفرت کر دوں، ہے کوئی مانگنے والا؟! کہ میں اس کو عطا کروں، اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ) مانگتا ہے اس کو (اس کی شان کے مطابق )ملتا ہے، سوائے بدکار عورت اور مشرک کے(کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا و بخشش سے محروم رہتے ہیں)۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات بڑی اہمیت کی حامل اور عطاء و بخشش اور مغفرت والی رات ہے، بس ضرورت یہ ہے کہ ہم اس خدائی اعلان پر لبیک کہیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، ماضی میں ہوئی غفلت پر سچے دل سے توبہ و استغفار کریں، اور ہمارے شہر میں پھیلی وباء و مصیبت سے ہم اس رحیم پروردگار کی بارگاہ میں سربجود ہو کر گریہ و ساری کریں، حالیہ وبا و پریشانی سے اس کی پناہ مانگیں، اللّٰہ کی ذات سے قومی امید ہے کہ وہ اس وباء کے درمیان ہمارے گناہوں پر اپنی رحمت کے قلم پھیر دے گا اور وباء والی رات ہمارے لیے وفا والی رات ثابت ہو سکتی ہے، بس اس عالی شان پروردگار کے در پر سچے دل سے جھولی پھیلانے کی ضرورت ہے، اللّٰہ پاک عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کی تمام آفات و بلیات سے حفاظت فرمائے اور پوری دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے، آمین

بقیہ آئیندہ کل

Comments are closed.