سموہ لون کے نقصانات – حقیقت اور انجام

تحریر:- جاوید اختر حلیمی قاسمی
سموہ لون بظاہر فوری مالی سہولت کا ایک آسان طریقہ لگتا ہے، مگر درحقیقت یہ نظام بہت سے گھروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکا ہے۔ اس میں چند وقتی آسانیاں ضرور ہیں، لیکن اس کے نقصانات اتنے سنگین اور خطرناک ہیں کہ اس جال میں پھنسنے کے بعد انسان اپنی معاشی آزادی اور عزت نفس دونوں گنوا بیٹھتا ہے۔
سموہ لون کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر گروپ کا کوئی فرد قسط نہ ادا کرے تو ادارہ باقی لوگوں پر ادائیگی کا دباؤ ڈالتا ہے۔ اس دباؤ سے باہمی رشتہ داری میں نفرت، بدگمانی اور تلخی پیدا ہوتی ہے۔ قسطیں چکانے کے لیے کئی لوگ اپنے ضروریات کے سامان کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اکثر ایجنٹ قرض کی وصولی کے لیے دھونس، تذلیل اور دھمکی جیسے غیر اخلاقی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ محلے میں بدنامی اور بے عزتی کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
سموہ لون کی قسطیں چکانے کے لیے اکثر لوگ نیا قرض اٹھا لیتے ہیں۔ یوں قرض در قرض کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور پورا خاندان مالی غلامی کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔ کئی بار قرض اصل ضرورت کے بجائے پرانے قرض چکانے میں خرچ ہوجاتا ہے۔ ماہانہ قسط کا بوجھ کم آمدنی والے افراد کے لیے برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ گھر کے بنیادی اخراجات، بچوں کی تعلیم اور صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ قسط کی فکر انسان کا سکون چھین لیتی ہے اور دماغی تناؤ بڑھتا جاتا ہے۔ سموہ لون کی موجودگی نے بلاسود اور باہمی اعتماد پر مبنی مالی تعاون کے کلچر کو کمزور کیا ہے۔ اب لوگ آسان قرض کے نام پر غیر شفاف اور سودی نظاموں میں الجھ رہے ہیں۔ سموہ لون کی اسکیموں میں اکثر قسطوں، سود کی شرح اور جرمانے کی شرائط پوری وضاحت سے نہیں بتائی جاتیں۔ نتیجہ یہ کہ لوگ دستاویز پڑھے بغیر دستخط کر دیتے ہیں اور بعد میں اضافی رقم اور جرمانے چکاتے ہیں۔ بعض کیسز میں منتظمین یا ایجنٹوں کی بددیانتی سے جمع شدہ رقم غائب ہونے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ بروقت ادائیگی نہ ہونے پر قانونی نوٹس، عدالت میں مقدمہ اور ایف آئی آر جیسے خطرات سامنے آتے ہیں۔ یہ عمل خاندان کی عزت پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ جب ایجنٹ یا کمپنی قسط وصولی کے لیے گھر یا محلے میں بار بار آئیں، یا شور شرابہ کریں تو قرض لینے والا انسان سماج میں شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ یہ ذہنی اذیت اور بے عزتی کئی خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بنی ہے، یاد رکھیے کہ سموہ لون کی وقتی آسانی دراصل طویل مدتی مشکلات کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ یہ، قرض کی لت، سماجی ذلت، مالی غلامی، اور تعلقات کی تباہی، سب کچھ ایک ساتھ لاتا ہے۔
اگر آپ اپنی محنت کی کمائی کی عزت چاہتے ہیں تو ایسے قرض سے ہمیشہ دور رہیے جس میں شفافیت اور باہمی اعتماد نہ ہو۔ مالی ضرورت پوری کرنے کے لیے بہتر ہے کہ بلاسود کمیونٹی فنڈ، چھوٹی بچت اسکیم یا اپنے خاندان و برادری کے بھروسے مند لوگوں کا تعاون حاصل کریں۔
سموہ لون سے بچنے کے راستے
ہر ماہ اپنی آمدنی سے تھوڑی رقم الگ رکھنا شروع کریں۔ یہی چھوٹے چھوٹے پس انداز پیسے کسی بھی اچانک ضرورت میں آپ کو قرض لینے سے بچا سکتے ہیں۔ باہمی اعتماد والا چھوٹا گروپ بنائیں، خاندان یا محلے کے 10–15 بھروسے مند لوگوں کا چھوٹا گروپ بناکر ایک کمیٹی بنائیں۔ سب لوگ ماہانہ کچھ رقم جمع کریں، جو ضرورت مند کو بلاسود دی جا سکے۔ اس میں: کرپشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ کوئی سود نہیں ہوتا، سب کو معلوم ہوتا ہے کس کو کتنی رقم دی گئی۔
روزمرہ کے اخراجات میں سادگی پیدا کریں۔ ضروری اور غیر ضروری اخراجات میں فرق کریں۔ خرچ کم ہوگا تو قرض لینے کی مجبوری بھی کم ہوگی۔ کسی بھی ایمرجنسی میں سب سے پہلے اپنے گھر والوں، قریبی رشتہ داروں یا دوستوں سے مدد مانگیں۔ یہ مدد زیادہ باعزت اور کم پریشان کن ہوتی ہے۔ محلے یا مسجد میں بلاسود قرض کمیٹی بنائیں۔ لوگ ماہانہ چندہ دیں اور وہ رقم ضرورت مندوں کو عارضی قرض کی شکل میں ملے۔ ادائیگی اقساط میں ہو، لیکن کوئی سود نہ ہو۔ اپنے گھر اور محلے میں قرض کے نقصانات اور بچت کی اہمیت پر بات چیت کریں۔ لوگوں کو دستاویز پڑھنے اور قرض کی شرائط سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ اکثر لوگ ہر چھوٹے خرچ پر قرض لے لیتے ہیں۔ یہ عادت ختم کیجیے۔ صرف واقعی بڑی ضرورت پر قرض سوچیں۔
یاد رکھیے: قرض سے آزادی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو انسان اپنی چادر میں رہ کر پاؤں پھیلاتا ہے، صبر اور سادگی سے زندگی گزارتا ہے، اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے اور وہ دل کا سکون پاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرض کے شر سے محفوظ رکھے اور سکون و عزت کی زندگی عطا فرمائے آمین.
Comments are closed.