روٹھے رب کومنانے کاطریقہ:توبتہ النصوح

سمیع اللہ ملک
آپ نے اکثردیکھاہوگاکہ جتنی بڑی گاڑی ہے اسی قدراس کی نگہداشت کاساماں موجود!کسی شیڈکے نیچے یاچھاں میں ایک طرف یاکسی پورچ میں۔ ڈرائیوروقفے وقفے سے اسے دیکھتابھالتااورکبھی کبھی تھوڑی سی بھی غیرضروری گردکوصاف کرتا رہتاہے۔اتنے میں بڑادروازہ کھلتاہے،ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔چپڑاسی بریف کیس اورصبح کی اخباروں کا بنڈل ہاتھ میں لئے باہرآتاہے اوراگرکوئی ضروری فائل ہوتووہ بھی سا تھ ہوتی ہے۔ڈرائیورکے پیچھے والی سیٹ کادروازہ کھول کروہاں یہ سامان انتہا ئی سلیقے کے سا تھ رکھ دیاجاتا ہے۔پھرڈرائیور کے سا تھ والی سیٹ کوزورلگاکرممکن حدتک آگے کردیاجاتاہے تاکہ پچھلی سیٹ کے سامنے کافی جگہ آرام سے ٹانگیں پھیلانے کیلئے میسرآجائے۔گرمی کاموسم ہوتو صاحب کے آنے سے پہلے ہی گاڑی کا ائرکنڈیشنزچلادیاجاتاہے تاکہ دفتراورگاڑی کے درمیان کاچندگزکے فا صلے کی حدت فوری طورپرکا فورہوجائے حالانکہ گاڑی چوکس حالت میں ممکن حد تک دروازے کے قریب لاکرکھڑی کردی جاتی ہے۔
صاحب بہادرایک شان بے نیازی سے برآمدہوتے ہیں۔اردگردموجودلوگ ایک دم ساکت وجامد ہوجاتے ہیں۔گفتگوکرنے والاگفتگو بھول جاتاہے،بے ترتیب یونیفارم والا ٹوپی سیدھی کرلیتاہے اورسگریٹ پیتاہواشخص سگریٹ پھینک دیتاہے یاپھرکہیں چھپادیتاہے ۔پچھلا دروازہ جوڈرائیورسے دوسری سمت والا ہے اسے کھول کرکوئی شخص کھڑاہو تا ہے ۔صاحب بہادرتشریف رکھتے ہیں۔تمام لوگوں کے ہاتھ فوری طورپرسلام کرنے کیلئے ماتھے کی طرف بڑے ادب کے ساتھ اٹھتے ہیں۔اشاروں کامنتظرگاڑی کوخراماں نکالتاہوا منظر سے جب تک غائب نہیں ہوجاتایہ تمام خادمین وہاں سے ہلنے کی جرات نہیں کرتے۔پوراراستہ صاحب بہادریاتو اخباروں کی ورق گردانی کرتے ہیں،موبائل فون پرکسی کواحکام صادرکررہے ہوتے ہیں یاپھربیگم کی فرمائش کوپوراکرنے کا وعدہ وعید ہورہاہوتاہے۔اگروقت بچ جائے توکسی فائل کی رو گردانی شروع کردی جاتی ہے۔اس پورے سفرمیں ڈرائیور کی حیثیت ایک پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔یوں لگتاہے کہ کمپنی نے سٹیرنگ،گئیریاسیٹ کی طرح اسے بھی وہاں فکس کردیاہے جسے صرف احکامات سننے اوراس پرعمل کرناہے۔ وہاں روک دو،ادھر لے چلو،میرا انتظارکرو،میں واپس آرہاہوں۔مجھے دوتین گھنٹے لگیں گے اوروہ ڈرائیور اپنی سیٹ سے فوری چھلانگ لگاکرباہرنکل کر دروازہ کھولتاہے اورروبوٹ کی طرح سرہلاکریاپھر منہ سے سعادت مندی کے الفاظ نکالتارہتاہے۔
یہ منظر آپ کوہراس دفتریاادارے کے باہرملے گاجہاں کوئی ایک صاحب اختیارتشریف رکھتاہے۔کسی سرکاری یاغیرسرکاری کا کوئی امتیازنہیں۔وزیرکادفتریاسیکرٹری کا،جرنیل کا ہیڈ کوارٹریاعدلیہ کی عمارت،کسی پرائیویٹ کمپنی کے دفاترہوں یابینک کی شاندارعمارت،سب جگہ صاحبان طاقت اوروالیان حیثیت کیلئے ایک ہی سیٹ مخصوص ہے۔ان کی گا ڑی کہیں پہنچے لوگ وہی دروازہ کھولنے کیلئے لپکتے ہیں۔
میں یہ سب منظردیکھتاہوں تواکثریہ سوال میرے ذہن میں اٹھتاہے کہ یہ سب لوگ ڈرائیورکی سا تھ والی سیٹ پرکیوں نہیں بیٹھتے؟کیاوہ آرام دہ نہیں؟کیاوہاں ائرکنڈیشنڈ کی ہوا صحیح نہیں پہنچتی؟کیاوہاں سے راستہ،اردگردکی عمارتیں یالوگ ٹھیک سے نظرنہیں آتے؟لیکن ان سب سوالوں کاجواب تونفی میں ملتاہے۔یہ سا منے والی سیٹ زیادہ آرام دہ اورزیاد ہ ٹھنڈی بھی ہے۔با ہرکا منظربھی صحیح نظرآتاہیتوپھریہ سیٹ خالی کیوں رہتی ہے یاپھراس پرسٹاف آفیسریاپی اے کوکیوں بٹھایاجاتاہے؟
یہاں کہانی اس نفرت کی ہے۔یہ داستان اس تکبرکی ہے جس میں ڈرائیورکی حیثیت ایک انسان سے کم ہوکربادشاہوں کے رتھ اور مہاراجوں کی بڑی بڑی سواریاں چلانے والوں کی ہواکرتی تھی۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک اعلی مرتبہ اورمقام رکھنے والی شخصیت ڈرائیورکے برابرمیں آکربیٹھ جائے اوردیکھنے والے ان دونوں کے درمیان تمیزتک نہ کرسکیں کہ کون افسرہے اور کون معمولی حیثیت کاڈرائیور۔ایک زمانہ ان متکبرافسران اوروزرا،جرنیل اوراعلی عہدیداروں پرایساآیاکہ ان کوچھوٹی سی سوزوکی پرسفرکرناپڑا۔جس کی پچھلی سیٹ انتہائی بے آرام اورکم جگہ والی تھی لیکن تکبراپناراستہ خودبناتاہے اوراس طریقہ کو رائج کرنے والوں کوبے شمارصلواتیں سنانے کے بعدآقااورمالک کی تمیزکوبرقراررکھنے کا نیاطریقہ دریافت کرکے اگلی سیٹوں کومکمل طورپرفولڈکیاجانے لگا۔
یہ رویہ ان ساری قوموں پرگزراہے جنہوں نے انسانوں کوغلام اورمحکوم بنانے کے ڈھنگ ایجادکئے تھے۔ا مریکامیں”جم کرو ” کے قوانین کے تحت بسوں تک میں کالوں کی سیٹیں گوروں کی سیٹوں سے نہ صرف الگ ساخت کی ہوتی تھیں بلکہ آگے ہوتیں اوراگرکوئی کالااگلی سیٹ پربیٹھ جاتاتواسے گولی سے اڑادیاجاتااوراگرکوئی گوراپچھلی سیٹ پربیٹھ جاتاتو اسے طعنے مارمارکر اس سے ناتاتوڑلیاجاتا۔لندن کے بازاروں میں آج بھی کالے رنگ کی ٹیکسیوں کارواج ہے جس میں ڈرائیور کی سیٹ اور سواریوں کے درمیان ایک شیشے کی دیوار کھڑی کردی جاتی ہے جس کی کھڑکی صرف سواری کھول سکتی ہے تاکہ ڈرائیورکی حیثیت ،مرتبہ اوراس سے بات کرنے کاتعین بھی وہی کرے جوپچھلی سیٹ پربیٹھاہے۔صدیوں تک فرعونوں،شہنشاہوں،آمروں،ڈکٹیٹروں اوران کے چھوٹے چھوٹے کارپردازوں کی سواریاں بھی ایسی تھیں کہ ان کاعام لوگوں سے کوئی تعلق نہ رہے۔دھول اڑاتی یہ سواریاں جہاں عوام الناس کامذاق اڑاتی تھیں وہاں ان سواریوں پرسفرکرنے والے بھی انسانوں کے درمیان تمیز،فرق اورآقاوغلام کے قا نون میں بٹے ہوئے تھے۔
تکبر،غروراورگھنٹوں ساتھ چلنے،آرام پہنچانے والے شخص سے کراہت دوری کے اس ماحول میں پتہ نہیں کیوں مجھے اپنا ماضی یادآجاتاہے۔اسلاف کے وہ معیارآنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔روم کے بادشاہوں کی طر ح ر ہن سہن اورلباس پہننے والوں عیسائیوں کے بیت المقدس پرجب پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مسلمانوں نے فتح حا صل کی توشہر حوالے کرنے کیلئے خلیفہ وقت عمرؓابن الخطاب کاانتظارتھا۔ایک گھوڑا جس کے سم گھس کربیکارہوچکے تھے۔رک رک کرقدم رکھتاتھا۔اس کے ساتھ خلیفہ وقت اورفا تح ایران وشام عمرؓابن الخطاب اورغلام موجود۔طے پایاکہ آدھاراستہ غلام سواری کرے گااورآدھاراستہ خلیفہ وقت۔بیت المقدس قریب آیاتوباری غلام کی آگئی اورپھرتاریخ نے انسانی احترام کاایک عجیب وغریب منظردیکھا۔غلام گھوڑے پراورخلیفہ وقت باگ تھامے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔شاہی کروفراورلباس پہنے رومی عیسائی بے سا ختہ صرف ایک فقرہ بول سکے ’’کہ ایساہی شخص عزت کامستحق ہے اورایسے ہی شخص کوفتح نصیب ہواکرتی ہے‘‘۔اس تاریخی فقرے کے بعدبھی اگرکوئی مجھ سے سوال کرتاہے کہ ہم دنیامیں ذلیل اوررسوا کیوں ہیں،بے آسراکیوں ہیں تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔
یہ بھی سنتے جائیں کہ پرانا معاملہ پھرسے دہرایاجارہاہے۔اب ہمارے صاحب بہادرکی سواری گزرنے سے پہلے کئی گھنٹے ہرقسم کی ٹریفک روک دی جاتی ہے کئی مریض ایمبولنس میں ہی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں پھراس کے بعدگاڑیوں کاایک لامتناہی سلسلہ اوروہ بھی بلٹ پروف اور سینکڑوں افرادکی نگرانی میں قافلہ اپنی منزل تک بحفاظت پہنچاکرسکھ کاسانس لیاجاتاہے لیکن کیاہمیں اس ان دیکھے جرثومے نے بھی کوئی پیغام دیاہے جس نے ساری دنیاکے امیروغریب کوبلاتمیزیکساں خوفزدہ کردیاہے بلکہ یہ صاحب لوگوں کی توجان پربن آئی ہے۔اللہ کی زمین پربغاوت کرنے والے آخرکب توبہ کی طرف راغب ہوں گے؟
یادرکھیں توبہ انسان کی تجدیدِنواوراصلاحِ باطن سے عبارت ہے۔اس کے ذریعے نافرمانی اورغلط تصرفات کے نتیجے میں دل کے بگڑے ہوئے توازن کوبحال کیاجاتاہے۔یہ حق کی طرف پیش رفت ہے بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں یہ اللہ تعالی کے غیظ و غضب سے اس کے لطف وکرم اوراس کی بازپرس سے اس کی رحمت وعنایت کی طرف پیش قدمی ہے۔توبہ کی تعریف تویہ ہے کہ یہ گناہ کے احساس کے نتیجے میں انسان کی خوداحتسابی سے عبارت ہے۔دوسرے لفظوں میں غیرذمہ دارانہ اورمتکبرانہ طورپرزندگی بسرکرنے سے انکارکرکے نفس کے سامنے ڈٹ جانے،کبیرہ گناہوں سے بچنے اوران کے ارتکاب کاخیال بھی دل میں نہ آنے دینے کا نام توبہ ہے۔ہم نے جھوٹ،کرپشن،گناہ خوداحتسابی سے غفلت برتنے کے نتیجے میں روح اوروجدان کوگہرے زخموں سے دوچارکررکھاہے اورتکبرکی وجہ سے اللہ کے بندوں کواللہ کی اس زمین پرغلام بنارکھاہے اورگناہ کے اس مرض سے توبہ کرنے کو تیار نہیں۔
حضرت شبلی نے ایک حکیم سے کہا:مجھے گناہوں کامرض ہے اگراس کی دوابھی آپ کے پاس ہوتوعنائت کیجئے۔یہاں یہ باتیں ہورہی تھیں اورسامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے میں مصروف تھا،اس نے سراٹھاکرکہا’’جوتجھ سے لولگاتے ہیں وہ تنکے چنتے ہیں‘‘!شبلی!یہاں آمیں اس کی دوادیتاہوں۔
حیاکے پھول،صبروشکرکے پھل،عجزونیازکی جڑ،غم کی کونپل،سچائی کے درخت کے پتے،ادب کی چھال،حسنِ اخلاق کے بیج،یہ سب لے کرریاضت کے ہاون دستہ میں کوٹناشروع کرواوراشکِ پشیمانی کاعرق ان میں روزملاتے رہو۔ان سب کودل کی دیگچی میں بھرکرشوق کے چولہے پرپکا۔جب پک کرتیارہوجائے توصفائے قلب کی صافی میں چھان لینا اور شیریں زبان کی شکرملاکرمحبت کی تیزآنچ دینا۔جس وقت تیارہوکراترے تواس کوخوفِ خداکی ہواسے ٹھنڈاکرکے باوضوہوکراستعمال کرنا۔حضرت شبلی نے نگاہ اٹھاکردیکھا،وہ دیوانہ غائب ہوچکاتھا۔وہ جوبیچتے تھے دوائے دل۔۔۔۔دوکان اپنی بڑھا گئے
توبہ نفس کاسہارااورباہرجست لگاکراس گراوٹ سے نجات کاراستہ ہے۔توبہ دردِدل کااحساس،خوداحتسابی اور حواس کو نئی طاقت اورتوانائی بہم پہنچانے سے عبارت ہے۔گناہ شیطان اورنفسانی خواہشات سے مغلوب ہونے کانام ہے جبکہ توبہ شیطان سیحواس کی حفاظت کرکے اعتدال کوبحال کرنے اورروح کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے سے عبارت ہے ۔
ایک لونڈی محل کی صفائی ستھرائی پرمامورتھی۔ایک دن بادشاہ کی خوابگاہ میں اس کی ڈیوٹی تھی۔بادشاہ کی مسہری دیکھ کر اس کی آنکھیں چندھیاگئی۔اس نے ایسااپنے تصورمیں بھی نہ دیکھاتھا۔سب کی آنکھ بچاکراس نے مسہری کے نرم وگدازکو جب چھواتواس کی خواہش لیٹنے کیلئے مچل گئی۔اس نے سوچاکوئی دیکھ بھی نہیں رہاکیوں نہ چندلمحوں کیلئے اس پرلیٹ کر اپنی خواہش پوری کرلوں۔ایسے نرم وگدازبسترپرلیٹتے ہی اس بے چاری کی آنکھ لگ گئی۔بد قسمتی سے بادشاہ کاوہاں سے گزرہواتو ایک معمولی لونڈی کواپنے بسترپردیکھ کرآگ بگولہ ہوگیا۔فوری طورپراس کوزندہ جلانے کاحکم دے دیا۔ایک بہت بڑے الاکے سا منے جب اس کولایاگیاتوبادشاہ نے روایت کے مطابق اس کی آخری خواہش پوچھی۔اس لونڈی نے اس مجمع کی طرف دیکھ کر کہاکہ مجھے اس بادشاہ سے توکچھ نہیں کہنا لیکن اے لوگو!میں تویہ سوچ رہی ہوں کہ اس مسہری پرچندلمحے کی نیندکی اگر اتنی بڑی سزاہے کہ مجھے زندہ اس آگ کے الامیں جلانے کی سزاملی ہے توان لوگوں کاکیاحشرہوگاجوساری عمرایسے نرم و گرم گدازبسترمیں گہری نیندکے مزے لیتے ہیں؟
اس سوزودردمیں ڈوبی ہوئی آوازنے اس بادشاہ کے ہوش اڑادیئے۔اس نے فو ری طورپراس لونڈی کوآزادکردیا۔تخت وتاج اوربا د شاہت چھوڑکراللہ سے لولگائی۔ ساری عمر غریبوں اورمسکینوں کی خدمت میں گزاردی اورآج دنیااس کوبڑے احترام کے ساتھ حضرت ابرا ہیم ادہم کے نام سے یادکرتی ہے۔کیاآج کے حکمران اورہمارے اشراف کیلئے اس میں کوئی سبق پنہاں ہے؟؟؟ اب توبتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہم دنیامیں ذلیل اوررسواکیوں ہیں،بے آسراکیوں ہیں!
اگرہم دنیاوآخرت کی رسوائیوں بچناچاہتے ہیں تواس کاصرف ایک ہی راستہ ہے کہ توبتہ النصوح کے ساتھ اپنے روٹھے ہوئے رب کومنانے کیلئے اللہ کے بندوں کو،بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینے کیلئے زمین پراللہ کانظام نافذ کرنے کااعلان کردیں وگرنہ عالمی بینک،آئی ایم ایف،ورلڈبینک اورایف اے ٹی ایف کی غلامی کے ساتھ ساتھ وبائی امراض ہمارامقدربنے رہیں گے۔

Comments are closed.