کیا کورونا وائرس نے اسلام قبول کرلیا۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ۔8790193834
ٓآپ میرے اس سرخی کو پڑھ کر یقینا چونک گئے ہونگے،اور کئی لوگ میری یہ سرخی پڑھ کر اندر ہی اندرضرور بڑ بڑا رہے ہونگے کہ آج عارف شجر کو ہو کیا گیا ہے گھر میں رہتے رہتے انکا دماغ تو مفلوج ہو کر نہیں رہ گیا ہے بھلا کورونا ایک مہلک بیماری ہے ایک خطرناک جان لیوا وائرس ہے نہ اسکا کوئی ذات ہے نہ دھرم،نہ یہ ہندو ہے اور نہ یہ مسلمان یہ وائرس کسی بھی مخلوق کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے بھلا اسکا اسلام قبول کرنے سے کیا تعلق اگزکٹلی جو آپ سوچ رہے ہیں جو آپکے دماغ میں چل رہا ہے وہ میرے دماغ میں بھی چل رہا ہے یعنی ملک کا ہر انسان یہ مانتا ہے کہ کورونا جیسے کسی بھی وائرس کا ہندو مسلمان سے کوئی تعلق نہیں اسکادور دور کا واسطہ ذات برادری سے نہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کورنا وائرس نے پوری دنیا کا چکر لگایا لیکن کہیں بھی یہ خطاب اسے نصیب نہیں ہوا لیکن یہی کورونا جب بھارت میں داخل ہوتاہے تو یہ اسلام قبول کر لیتا ہے یعنی کورونا وائرس نہیں، کورونا جہاد اور کورونا بم کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ملک کے لوگوں نے نہیں بلکہ ہندوستان کے چند فرقہ پرست میڈیا نے کورونا وائرس کو ہندو مسلم میں تقسیم کر دیا اسے جہاد کا نام تک دیا گیا اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کا سبب دہلی کے مرکز میں ٹھہرے جمعیت کے لوگ ہیں اور یہ اسکا سینٹر ہے جہاں سے ملک کے کونے کونے میں کورونا وائرس پھیل چکا ہے۔ملک کے چند فرقہ پرست میڈیا نے اسے جس طرح سے ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی وہ یقیناً مذمت کے قابل ہے اس وائرس کو ایسا پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے یہ وائرس ہندوستان میں قدم نہیں رکھا بلکہ جمعیت کے وجہ کر ملک کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی مرکز میں جمعیت کے لوگوں میں کرونا وائرس پازیٹو پایا گیا لیکن اسکا قطعئی یہ مطلب نہیں کہ پورے ملک میںجمعیت کے وجہ کر ہی کورونا پھیلا ہے، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ بی جے پی حکومت کے چند سیاسی قائدین اور قومی ہندی میڈیا کے چند جرنلسٹوں نے جس طرح سے مل کر جمیعت کو مہرا بنا کر ملک کے سبھی مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کوشش کی ہے وہ یقیناًاپنے فرض کو بلائے طاق رکھ کر ملک کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ملک کے مسلمان اس بات کو قطئی برداشت نہیں کر سکتے کے ایک مسلم کی جاہلیت کے وجہ کر پورے مسلم قوم کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوروناجیسی جان لیوا وائرس کو ملک سے نیست و نابود کرنے کے لئے ملک کا ہر طبقہ خصوصی طور سے مسلمان ایک پلٹ فارم پر دکھائی دے رہے ہیں پی ایم مودی کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے ہر ذی شعور مسلمان نہیں چاہتا کہ اسکی موت کرونا جیسی بیماری سے ہو حکومت کا ساتھ دینے کے ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹروں، نرسوں، ضلع انتظامیہ،کا قدم سے قدم ملا کر ساتھ دیا جا رہا ہے پھر بھی جو خبریں چند فرقہ پرست ٹی وی چینلوں اور چند پرنٹ میڈیا کی جانب سے موصول ہو رہی ہیں وہ یقیناً مذمت کے قابل ہے۔میری تو پی ایم مودی سے یہ گذارش ہو گی کہ وہ جس طرح سے ان ایک ماہ کے دوران ملک کے عوام کو کوروناوائرس سے بچنے کے لئے ملک کو اپنے خطاب سے نواز ہے اور اس میں انہیں بڑی کامیابی بھی ملی ہے اسی طرح سے پی ایم مودی کو اس مشکل گھڑی میں جو بھی میڈیا ہندو مسلم کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور فیک نیوز چلا رہے ہیں انکے متعلق بھی ملک کے قومی میڈیا میں آکر جرنلزم کا سبق پڑھاتے اورجو ہندو مسلم اتحاد کو اس مشکل گھڑی میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر نکیل کستے اور ان سے اپیل کرتے کہ ، بھائیوں اور بہنوں، عام دنوں میں تو مثبت ڈبیٹ کے نام پر ہندو مسلم کئے جاتے ہیں جو آپ لوگوں کا بنیادی حق ہے لیکن کم از کم اس مشکل گھڑی میں نفرت انگیز ڈبیٹ نا کرکے مثبت ڈبیٹ کی جائے تاکہ پورے ملک کو اس خطرناک وائرس سے لڑنے کی قوت مل سکے ۔اگر یہ دو باتیں پی ایم مودی چند فرقہ پرست میڈیا والوں سے اپیل کر دیتے تو ملک کو اور بھی مضبوطی مل جاتی یقیناً یہ لڑائی صرف حکومت کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لڑائی سے جیتنے کے لئے ملک کے 130 کروڑ لوگوں کی ہر محاذ میںمدد ضروری ہے تبھی ہم یہ جنگ جیت پائیں گے نہ کہ ہندو مسلم کا سنسنی خیز خبر دیکھا کر اور ڈؓیبٹ چلا کر اپنی اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی غرض سے اس طرح کی ذلیل حرکت کی جائے۔مجھے یہ بھی کہہ لینے دیجئے کہ کورنا پھیلانے والوں کے ساتھ حکومت سختی سے نبٹے چاہے وہ مولانا سعد ہوں یا پھر بی جے پی کے قائدین سب پر کاروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ایک اچھا میسج جائے لیکن یہ کسی کو بھی اجازت نہیں کہ کوئی اس معاملے میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ٹارگیٹ بنا کر پورے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے۔ میڈیا کے ذریعہ ہندو مسلم تفریق معاملے کو لے کر اپوزیشن قائدین نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اس معاملے میں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی میڈیا کے متصبانہ رویہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے راہل گاندھی نے یہ اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے تمام لوگ مذہب ، ذات اور برادری کو کنارے رکھ کر ایک مشترکہ ہدف کے لئے متحد ہو جائیں تاکہ کورونا وائرس کا خاتمہ ہو۔رہل گاندھی نے میڈیا کے ایک سیکشن کی جانب سے ایک کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنے اور مذہب کو بدنام کرنے اور مہم چلانے کے پس منظر میں راہل گاندھی کا یہ بیان آیا ہے جو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے بھی امریکہ نے وبا پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کی تنقید کرتے ہوئے اس سے باز رہنے کی اپیل کی ہے ۔
بہر حال! اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس وباء سے نمٹنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھا رہے ہیں، اس معاملے میں ہیلتھ سے منسلک سبھی اہلکاروں کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مشکل گھڑی میںاپنے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن جس طرح سے ملک کا میڈیا اپنے فرائض سے بھٹک گیا ہے وہ یقیناً افسوس کی بات ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وباء کوئی بھی ہو وہ ہندو مسلم نہیں ہوتا وہ کسی کو بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے یہ نہ کورونا جہاد ہے اور نہ کورونا بم یہ بات میڈیا کو بھی صاف کر لینی چاہئے اور ملک کے عوام کو بھی اس طرف دھیان دینے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اگر ہم اسی طرح ہندو مسلمان کرتے رہیں گے تو وباء کو اور بھی مضبوطی مل جائے گی جس سے ہم سب کو نقصان ہوگا۔ جو میڈیا اس طرح کے غیر ضروری کھیل اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے کر رہی ہے انہیں چاہئے کہ ملک کے آنے والے دن کیسے ہونگے، غریب اور نوکری پیشہ لوگوں کے حالات کیسے ہونگے انہیں حکومت روزگار دے گی یا پھرفاقہ کشی کی نوبت آجائے گی۔ یہی نہیں کورونا سے بچائو کے لئے کیا کیا مثبت اقدام حکومت کر رہی ہے غریبوں کو فلاحی منصوبوں کا کتنا فائدہ مل رہا ہے اگر اس معاملے میںمیڈیا فرض نبھائے تو یقینا ملک نقشہ بہتر ہوگا اور ملک کے لوگوں کے بیچ اچھا میسج جائے گا۔
Comments are closed.