ملک کے جمہوری تانے بانے پر زعفرانی میڈیا  کامنفی اثر

ریاض الدین قاسمی

استاد جامعۃ الحبیب مولانگر سیتامڑھی، بہار

ملک کا ہر شہری چاہے وہ ہندو ہو مسلم ہو سکھ ہو یا عیسائی ہر کسی کو اس ملک کا امن و سکون عزیزہے، تاریخ شاہد ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ملک کا مسلمان امن و شانتی کے ساتھ اس ملک کے قانون کی پیروی کرتا آرہاہے ، اور اس ملک سے دل و جان سے محبت کرتا تھا، کرتاہے اور پورے عزم کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ آئندہ بھی اس سے زیادہ کریگا۔ لیکن دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے ہمارا یہ ملک کی جس کی شہرت گنگا جمنی تہذیب کی وجہ سے ہوا کرتی تھی، اور جس کے قومی بول، "ہندو مسلم سکھ عیسائی اپس میں سب بھائی بھائی” تھے، نہ جانے کب اور کس کی اس اسپرٹ کو نظر بد لگ گئی کہ  یہ ملک اب فرقہ پرستی کے ہتھوں چڑھ گیا ہے، ایسا لگتاہے  اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو گھن لگ گیا ہے، واضح طور اب نظر آتادکھ رہا ہے کہ اس ملک کا امن و سکون غارت ہوگیا ہے، اوراسی وجہ سے گذشتہ چند سالوں سے اس ملک پر  خوف کی  سیاہ دبیز چادر نے اپنی طنابیں تان رکھی ہیں۔

اس ملک کی بد قسمتی کہیے کہ  ملک کی پرامن فضاء میں فرقہ پرستی  کا زہر گھولنے والے اب اس  ملک کی حکومت کا حصہ بن چکے ہیں، اوراس زہر کو سماج میں زیادہ سے  زیاد پھیلانے کا ذمہ حکومت نواز زعفرانی  میڈیا کے کچھ ضمیر فروش اینکروں  نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے، بیشتر نیوز چینلس منفی خبروں اور نفرت انگریزی کو صحافت کی معراج سمجھتے ہیں،اسمیں پیش پیش "سدھیر چودھری، ارنب گوسوامی، سریش چورسیا، امیش دیوگن، روہت سردانہ، اور روبیکا لیاقت اور ان جیسے دیگر ضمیر فروش اینکر ہیں۔  ان اینکرون  نے گویا اپنے نیوز چینلوں اور اسٹوڈیوز کو ہی پورا ہندوستان سمجھ رکھا ہے، جہاں وہ بیٹھ کر، چیخ چیخ کر اور گلہ پھاڑ کر ایک مخصوص جماعت اور فرقہ کے خلاف زہریلے ریمارکس اور نفرت بھرے لہجے کے ذریعے اپنی فطری عناد پرستی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ان کے رویے اس قدر جاہلانہ، عناد پسند اور تشددانہ ہوتے ہیں کہ بعض اوقات بین الاقوامی میڈیا بھی نوٹس لینے پر مجبور ہوئے۔  حزب اختلاف میں سقم ڈھونڈنا گویا انکا یومیہ مشغلہ اور وطیرہ ہو گیا ہے، حکومت کی ہر بات کی مدح سرائی، حزب اختلاف کی کردار کشی اور اسکو منفی انداز میں پیش کرنا، شائع کی جانے والی اہم اور ضروری خبروں کی پردہ پوشی کرنا،  جانبدارانہ تحقیق و تجزیہ کرنا، کذب بیانی سے کام لینا شاید ان کا  پسندیدہ مشغلہ ہو۔ بیشتر نیوز چینلوں کے درمیان ٹی آرپی کی ہوڑ مچی ہوئی ہے، اس دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی خاطر رائی کو پہاڑ بنا کر آپسی تنازع کو ترجیحا فرقہ وارانہ تصادم میں بدلنے اور فسادات کا رخ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔

 میڈیا کسی بھی ملک کی تعمیر و تخریب میں زبردست اور اہم کردار رکھتا ہے، اسمیں پیش آمدہ واقعات ہماری زندگی پر بہت سے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس وقت  کرونا وائرس نے بہت ہی تیزی سے خطۂ عالم کو اپنی زود اثر مہلک انفیکشن کے ذریعے اپنے چپیٹ میں لے رکھا ہے، سارے عالم میں اس مہلک وبا کے ذریعے لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں، بہت ہی تیزی سے ہندوستان میں بھی  یہ وبا اپنا پنجہ گاڑرہی ہے۔ وزیراعظم کی اپیل پر لاک ڈائون کے ذریعے زندگی کی تمام سرگرمیاں منجمد ہو چکی ہیں، اس بیچ جبکہ پوری دنیا کورونا وائرس کے قہر سے سہمی ہوئی ہے،  مگر بھارت زعفرانی  میڈیا کے زہریلے وائرس سے سہما اور تھررایا نظر آرہا ہے، اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کی وجہ سے پورے خطۂ عالم میں کسمپرسی کی حالت بنی ہوئی ہے لیکن ہمارے ملک میں گودی میڈیا کورونا کو مذہبی رنگ دینے میں مصروف ہے، اور اس کی وجہ سے کورونا ہندوستان میں مسلموں کی اپج بتایا جارہا ہے۔ ایسے میں موجودہ صحافتی نیوز چینلوں کو جمہوریت کا ستون کہنا خود صحافت  کے ساتھ ناانصافی ہوگی، چند صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کے بحرانی دور میں بھی صحافت کی لاج بچا رکھی ہے، رویش کمار پنیہ، پرسون واجپئی، ابھیشار شرما، اور عارفہ خانم جیسی بے خوف اور نڈر صحافی برادری نے گودی میڈیا کے جبری دور میں بھی موہوم امیدوں کو زندہ باقی رکھا ہے۔

Comments are closed.